بیاد۔۔شہداء 13جولائی 1931

ہفتہ 13 جولائی 2019

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

حق کے مقابلے طاقت کے موجودہ راج میں بین القوامی سطح پر دہرامعیار اپنا یا جارہا ہے، مشرقی تیمورو جنوبی سوڈان کوا ٓزادی اور فلسطین و کشمیر جیسے دیرینہ مسائل جوں کے توں ہیں ۔عالم میں مسلمانوں کیلئے ہر دن قہر ثابت ہو رہا ہے ۔ ان حالات میں کشمیر سے مخلص حضرات ذی ہوش زعماء اور کشمیر یوں کے آرزؤں اور درد کو سمجھنے والے کشمیرکے حوالے سے ہر پہلوکو سا منے رکھکر مر بوط پروگرام ترتیب دے رہے ہیں ، ٓر پار اور بین الاقوامی سطح پر13 جولائی یوم شہداء میں مستقبل کی سمت تعین کر نا اسی پروگرام کی کڑی ہے، تاکہ اس سانحہ میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کر نے کے ساتھ عصری حالات کے پیش نظر شاہراہ حق میں نئی راہیں بھی تلاش کریں۔

آج دنیا میں آزادی و امن پسندیوم شہدا ء کشمیر منا رہے ہیں، خصوصا کشمیری امنگوں کی ترجمان حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند جماعتوں کے زیر سایہ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا کے ہر کو نے میں کشمیری شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

خونی لکیر کے آرپار ، اور پاک وطن میں13 جولائی کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے، اس حوالے سے بحثیت حریت کارڈنیٹر پنجاب لاہور کے لوکل ہوٹل میں شہدا ء کشمیر گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا ہے،اس کانفرنس میں کشمیر کمیٹی کے چیر مین فخر امام کے علاوہ تمام سیاسی سماجی، انسانی، سوشل، عدالتی اکابرین شر کت کر رہے ہیں، آج وقفے کے بعد پرنٹ میڈیا میں پھر حاضر ہوں امید کے ساتھ کہ دنیا مسلہ کشمیر حل کر نے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، یو این کا کشمیر کے حوالے سے دوسرا انسانی رپورٹ شائع کر نا ایک اچھی خبر ہے، امید ہے دنیا اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لے اور بھارت نا انصافی سے باز آئیں اور حقائق کو تسلیم کریں کہ ظلم و بر بریت سے تحریک آزادی کشمیر کو دبا یا نہیں جاسکتا، تحریک آزاد ی سے منسلک تمام ادارے ، فورم اور مخلص مدد گار ، ہم جیسے افراد کی گزارشات کو سنجیدگی سے لیں، اسلئے ہمارے مضامین، شاعری یا سوشل پیج میں خیالات ہمارے دل سے نکلی ہوئی مخلص آہیں ہیں، ہماری آرزو ہے سب کی ترجیع لہو لہاں کشمیر ہو۔

پاکستان مضبوط سے مضبو ط تر ہو، اسلئے کہ مضبوط پاکستان ہی کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے۔ کشمیر میںآ زادی پسند لیڈر شپ کا اصولوں کی بنیاد پر متحدہو نا، دشمن کے خلاف متحدہ جد جہد کاعزم دہرانامثبت پیش رفت ہے ، اسلئے کہ حق کے مقابلے متحدہ باطل طاقت کے موجودہ راج میں مسلمانوں کیلئے دشمنوں کی سازشوں اور اپنی نادانیوں کی وجہ سے ہر دن قہر ثابت ہو رہا ہے، ان حالات میں میں اتحاد وتفاق اورمسلمان ممالک میں امن و امان انصاف وآپسی بھائی چارگی اور اتحادکی اشد ضرورت ہے ۔


مختلف ادوار میں کشمیریوں کی جدوجہد کئی مراحل میں کشمیریوں نے بیش بہا قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ 13جولائی 1931 سے لیکر آجتک دس لاکھ کشمیریوں نے اپنے بنیادی حق آزادی اور اپنے حقوق کی پاسداری کیلئے جانوں کا نظرانہ پیش کیا ۔بر صغیر میں ابھی نظریہ پاکستان کی قرار داد بھی پاس نہیں ہو ئی تھی کشمیر میں ہندو ڈوگرہ کے خلاف مسلمانان کشمیراپنے خون سے پاک قرارداد پیش کررہے تھے۔

جموں وکشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور حکمران ہندو ڈوگرہ تھا۔متعصب ڈوگرہ حکمران اور انکے کارندوں نے ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کی تھی ،کشمیری مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروع کر نا ڈوگرہ حکمران اور اسکے کارندوں کا وطیرہ تھا ، جموں کی جا مع مسجد کے امام کوخطبہ دیتے ہو ئے مہاراجہ کے اہلکاروں نے روکا،اسکے علاوہ توہین قران کا سانحہ بھی پیش آیا۔

مسلمانوں میں اس مذہبی مداخلت کے خلاف بے چینی پھیل گئی اورسارے کشمیر میں احتجاجی عوامی تحریک شروع ہو ئی، اسی حوالے سے خا نقا ہ معلی سرینگر میں ایک بڑے احتجاجی سے عوامی قائدین خطاب کر رہے تھے کہ اچانک ایک نو جوان نے دھواں دار تقریر کی۔اس ساحرانہ اور فکر انگیز تقریر پر اسے گرفتار کیا گیا،اور اس نوجوان کی شناخت عبداقدیر کے نام سے ہو ئی جو موجودہ پاکستان کا رہنے والا تھا ، عبدالقدیر کو سرینگر سنٹرل جیل میں بند کیا گیا اور اس پر مقدمہ چلایا گیا کشمیریوں کی اس نوجوان سے محبت کی انتہا ،یہ روحانی رشتہ،یہ محبت تسلسل سے جاری ہے، جس رشتے کو بھارت کے ظلم و جبر کے پہاڑ بھی توڑ نہ سکا ،بڑی تعداد میں کشمیری اس مقدمہ کی پیروی سننے کیلئے سنٹرل جیل کے ارد گھردجمع ہو ئے،نماز کیلئے موزن نے اللہ اکبر کہا ادھر ڈوگرہ حکمران کے متعصب کارندوں نے گولی چلائی ،لیکن اذان مکمل کر نے دوسرے نے اللہ اکبر کہا وہ بھی شہید ہوا اسطرح بدر سے شروع سفر میں اذان مکمل کر تے ہو ئے اکیس کشمیری مسلمان شہید ہو ئے ۔

اس بر بر یت سے ، جموں و کشمیر کے ہر کو نے میں نئے جوش و جذبے سے شروع ہو ئی، پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کشمیر کے مسلم اکثریتی خطہ ہو نے کی بنیاد اور مسلم کانفرنس کے قرار داد کے مطابق کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو نا تھا، لیکن 1947-48 میں بھا رت نے قبائلوں کے کشمیر داخل ہونے اور انکی طرف سے قتل غارت گری کے جھوٹے پروپگنڈے کو جواز بناکر کشمیر میں فوج کشی کی ،جبکہ حقیقت یہ ہے جو پوشیدہ رکھی گئی کہ مہاراجہ نے پونچھ،میر پور اور دوسرے علاقوں میں دوسرے متعصب ہندوں مہا راجوں کے تعاون سے فوج کشی کرکے تباہی پھیلادی تھی، یہی فوجی جموں کے مسلمانوں کے قتل عام میں بھی ملوث تھے،یہی وہ عوامل تھے کہ سابقہ کچھ مسلمان فوجیوں اور قبائلوں کومہا راجہ کو سبق سکھانے کی غرض سے کشمیری مسلمانوں کے مدد کیلئے مداخلت کر نی پڑی تھی۔

بھارتی جابرانہ قبضے کے خلاف کشمیری تسلسل سے مصروف عمل ہیں،1950سے مصروف عمل معروف حریت لیڈرسید علی شاہ گیلانی ،غلام محمد خان سوپوری کے علاوہ کئی لیڈروں کا رول قابل ذکر ہے ،جن سب تنظیموں اور حریت پسندوں کا ذکر نہیں کر سکتا ہوں،ان سب کا کشمیر پر بہت احسان ہے۔ عظیم مقبول بٹ کی عظیم شہادت نے تحریک حریت میں ایک جان ڈالی۔ جہا د افغانستان نے نوجوانوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا اور کئی حریت پسند عسکری تحریک شروع کرنے کی تدبیریں کرنے لگے۔

اس میں چند گمنام جوانوں کا بھی عمل دخل ہے۔ اسی دوران متحدہ مسلم محاذ کے اکثر ممبران کو دھاندلی سے ہرانے کے بعد کشمیری قوم کا بھارتی نا م نہاد جمہوریت پر سے پورا اعتماد اٹھ گیا تو 1987 ء سے چند غیور اسلام پسند جوانوں نے با ضابط عسکری تحریک کا آغاز کیا۔ بھا رت کی چا لوں کے توڑ کیلئے فرا ست و دانش کے طریقہ کار پرموجودہ تناظر میں اگر عمل کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

سالار اعلیٰ اور کشمیریوں کے ہیرو سید صلاح الدین کو امریکہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دینے کے بعد بھارت کے بر عکس بین الاقوامی تناظر میں جدجہد کو پرکھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عالمی اپروچ،حالات واقعات اور فیصلے تحریک آزادی کو متا ثر بغیر نہیں رہ سکتے لہذا مقامی سیا ست و جد جہد کے طریقہ کار کا اقوام عالم کے لئے قابل قبول لائحہ عمل بھی ضروری ہے ، اس وجہ سے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ مجبو را اقوام عالم کو مداخلت کرنے کا مو قعہ فراہم کر کے اس تحریک کو منظقی انجام تک پہنچا یا جا ئے ۔

آر پارآزادی پسندافراد کی اکثر یت کے روز مرہ مسائل و ضروریات کے تنا ظر میں بھی جانچنے کی بھی ضرورت ہے۔کشمیر سے مخلص ذی ہوش زعماء اور کشمیر یوں کے آرزؤں اور درد کو سمجھنے والے آزادی پسند لیڈراں و مفکر مسلہ کشمیرکے حوالے سے ہر پہلوکو سا منے رکھکر مر بوط پروگرام ترتیب دینے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل وقت کا تقاضا ہے،ا ٓر پار اور بین الاقوامی سطح پرمشترکہ طور13 جولائی یوم شہدا منانا اسی پروگرام کی کڑی ہے کیونکہ جذباتی نعرہ بازی یا آنکھیں بند کرکے لفظوں کی بے لذت جگالی کافی نہیں ہے،بلکہ اصولوں ، وحدت و نظریا تی ہم آہنگی کی بنیاد پرایک درست لائحہ عمل اور حکمت عملی کے ذریعے بھارت کے ہر مکر و فریب کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :