سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف انتہائی شان وشوکت سے واپس جیل چلے گئے حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ایک سائیکل چور بھی گرفتار کے بعد میڈیا سے منہ چھپاتا ہے لیکن میاں صاحب پر اربوں کی کرپشن کا الزام ہے ملک کی بڑی عدالت نے صادق اور امین نہ ہونے کے جرم میں وزارت ِاعظمیٰ سے نااہل قرار دے دیا ایک مقدمہ میں 7سال کی سزا ہوئی دوسرے کئی ایک مقدمات کی سماعت جاری ہے لیکن شرم پھر بھی نہیں آتی جیل میں موت کی دہلیز پر بیماری کا رونا رونے والے میاں نواز شریف کو علاج کیلئے 6ہفتے کیلئے ضمانت پر رہا کیا گیا کہ پاکستان میں جہاں چاہے اپنا علاج کرے اور اگر میاں صاحب واقعی! بیمار تھے تو ضمانت پر رہائی کے بعد اپنے پسند کے کسی ہسپتال میں داخل ہوجاتے اگر واقعی! بیمارہوتے اور کسی ہسپتال میں زیر علاج ہوتے تو یقیناضمانت پر توسی بھی ہوجاتی لیکن وہ بیمار نہیں تھے شاہی زندگی گزارنے والے میاں صاحب کو جیل کی فضا پسند نہیں آئی اس لیے بیماری کا ڈرامہ رچایا اور ڈرامہ بھی ایسا کہ پوری قوم پریشان ہوگئی کہ واقعی! میاں صاحب گزرنے والے ہیں لیکن حکومت اورعدالت جانتی تھی کہ یہ ڈرامہ ہے او رعوام کو اس ڈرامے کے ڈراپ سین کیلئے میاں صاحب کو ضمانت پر رہائی مل گئی حالانکہ عدلیہ کی تاریخ میں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن قوم کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ میاں صاحب بیمار نہیں ہیں مسلم لیگ ن میاں صاحب کی بیماری پر سیاست چمکارہی ہے ۔
(جاری ہے)
لاشوں پر سیاست تو میاں صاحب کی پرانی سیاست ہے لیکن گرفتاری ، ضمانت اور جیل واپسی پر میاں صاحب کو یہ یقین تو آگیا ہوگا کہ اُس کے درباری اور خونی رشتے اُس کے کس قدر وفادار ہیں ۔میاں شہباز شریف جو اُن کے استقبال کیلئے اُس وقت نہیں آئے تھے جب بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد میاں نواز شریف پاکستان آئے اور اب جب جیل واپسی قریب آئی تو میاں شہباز شریف لندن روانہ ہوگئے ۔
خونی رشتوں نے ساتھ کیا چھوڑا اُس کے وہ درباری بھی منظر سے غائب ہوگئے جو میاں صاحب کے دوروزارتِ اعظمیٰ میں اُن کے گیت گاتے رہے ۔اگر ساتھ تھے تو وہ پروانے جو بغیر کسی لالچ کے قیادت سے محبت کرتے ہیں ۔
یہ وہ عوام ہے جو بے لوث محبت کرنے والے ہیں بغیر کسی تنخواہ کے جلسے جلوسوں میں نعرے لگاتے ہیں تالیاں بجاتے ہیں جلسے جلوسوں میں پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں گولیوں کی باڑ میں زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں ۔
مرتے ہیں ،زخمی ہوتے ہیں لیکن اپنے غموں سے بے پرواہ ہو کر قیادت کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے لیکن یہی وہ عوام ہے جب قیادت برسرِ اقتدار آجائے تو اُن کے بنیادی حقوق تک بھول جاتے ہیں اور مراعات کی برسات درباریوں اور خاندان کے افراد پر ہوتی ہے قیادت کو چاہنے والی عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ قیادت ہمارے لیے کیا کر رہی ہے وہ تو قیادت کے عشق میں اندھے ہوتے ہیں ۔
مجنوں سے کسی نے کہا تمہاری لیلیٰ تو بدصورت ہے تو مجنوں نے کہا تھا وہ چاہے کچھ بھی ہے میرے دل کی رانی ہے ۔
قیادت اپنے کردار اور اطوار میں کچھ بھی ہو عوام کے دل کا راجہ ہوتے ہیں اور 7مئی کو بڑی دھوم دھام سے اپنے دل کے راجہ کو عزت اور احترام سے جیل پہنچا دیا قوم حکمران او رعدلیہ کو یقین ہوگیا ہے کہ میاں صاحب کم از کم اب نہ تو بیماری کا ڈرامہ کریں گے اور نہ ہی اُن کے درباری اور بیٹی مریم نواز کہے گی کہ اگر میرے والد کو جیل میں کچھ ہوگیا تو ذمہ داری حکومت اور عدلیہ پر ہوگی ۔
6ہفتے کی ضمانت پر رہائی اور جیل واپسی پر کم از کم مریم نواز ،مریم اورنگزیب اور دوسرے درباریوں کی بولتی بند ہوگئی ۔
مسلم لیگ ن کے ستارے گردش میں ہیں اور عمل صرف مسلم لیگ ن کیساتھ نہیں پوری قوم ایسا عمل اس سے قبل پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ق کیساتھ ہوتا دیکھ چکی ہے حکمرانی کے سورج کے پجاری اُس وقت ساتھ چھوڑدیا کرتے ہیں جب قیادت پر کڑا وقت آتا ہے اس لیے کہ چڑھتے سورج کے پجاری تو اپنے ذاتی مفادات کیلئے گیت گاتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ سورج غروب ہونے والا ہے تو گرگٹ کی طرح آنکھیں پھیر لیا کرتے ہیں میاں نواز شریف نے کوئی جرم کیا باتیں کیا لیکن کے سعد رفیق جیسے جگری دوستوں کو یہ یقین ہوگیا کہ میاں صاحب کم از کم آئندہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ جیل میں ہوں گے تو دوسری جماعتوں کی طرف اُڑان بھرنے کی تیاری کرنے لگے ہیں اگر دوسری جماعتوں میں وقتی طور پر شامل نہیں ہوتے تو کم از کم اپنے کل کی خوبصورتی کے اسمبلی کے فلور پر حکمران جماعت کے خلاف ڈیسک نہیں بجائیں گے اور قومی مفاد کی قراردادیں پھاڑیں گے نہیں بلکہ ہاتھ کھڑے کریں گے او ریہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی ایسا ہوتا وٴرہاہے او رایسا ہوگا اس لیے کہ پاکستان میں کم از کم 200اراکین اسمبلی ایسے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے اور کردار میں ہر دور کے حکمران کیساتھ ہوتے ہیں او رچونکہ یہ تجربہ کار کھلاڑی ہیں اس لیے کسی دور میں سات بھی نہیں کھاتے ۔
سعدرفیق تو کھلے عام اُڑان کیلئے پرتولنے لگے ہیں لیکن ماروی میمن بھی تو سچ بولنے کیلئے میدان میں اُتر آئی ہیں اسحاق ڈار برسرِ اقتدار جماعت کے وزیر خزانہ تھے تو خاموش تھیں آج اسحاق ڈار لندن کی سڑکوں پر دھکے کھارہے ہیں تو ماروی میمن کا سویا ہواضمیر بھی جاگ گیا اچھی بات ہے ایساہونا چاہیے تاکہ قوم کو حقائق معلوم ہوسکیں کہ حکمران جماعت یا عدلیہ اگر کسی فردِ واحد کے خلاف کاروائی کرتی ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ مجرم ہے اور مجرم چاہے کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اُسے معاف نہیں کیا جاسکتا ۔
مسلم لیگ ن کا سیاسی سورج غروب ہونے والا ہے سنجیدہ مزاج مسلم لیگی اپنے گزشتہ کل کو سوچ رہے ہیں اور قیادت کے جرائم پر خاموشی پر ذات میں شرمندہ ہیں او ریہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں قیادت کی نسبت وطن اور عوام سے محبت کرتے ہیں نواز شریف کے چاہنے والے بھی خود میں شرمندہ ہیں کہ ہم نے جو سوچا تھا وہ غلط سوچا تھا او رجب سوچ تبدیل ہوجاتی ہے تو حالات بدلتے ہیں اس لیے میاں نواز شریف پر اگر آج کڑا وقت ہے تو اس کے مجرم وہ خود ہیں اس لیے کہ اُس نے عوام کا نہیں اُن درباریوں کا سوچا جو آج اُن کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔