ا گر ایسا ہوا تو اپوزیشن کا انجام عبرت ناک ہو گا !!

پیر 4 نومبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نا ئن میں پورے پاکستان کے عوام کے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے آزادی مارچ کے قائد مولانا فضل الرحمان نے نام لئے بغیر افواجِ پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے دھمکی کی دی کہ ہم جن کو سنا رہے ہیں وہ سن لیں ہم قومی اداروں کو غیر جانبدار دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر اپوزیشن کو محسوس ہوا تو کہ سلیکٹڈ حکمران کی پشت پناہی ادارے کر رہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے عمران خان استعفیٰ دیں بصورتِ دیگر ہمیں نہ روکا جائے کہ ہم قومی ادارو ں کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔


مولانا فضل الرحمان نے صاف لفظوں میں افواجِ پاکستان کو اپنے آ ئندہ کے لائحہ عمل سے آگا ہ کیا جس کے جواب میں افواجِ پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آ صف غفور نے کہا فوج پر الزام تراشی کی بجائے الیکشن میں شفافیت سے متعلق اپنی شکایت متعلقہ اداروں کے پاس لے کر جانا چاہیے تھا اس سے قبل جب مولانا کا مارچ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا تھا تو وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے گلگت میں جلسہ عام سے خطاب میں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ میں نے بائیس سال پاکستان میں اقتدار کے لئے جدوجہد کی اللہ سے اس وعدے کے ساتھ کہ اگر مجھے پاکستان میں اقتدار ملا تو میں پاکستان اور پاکستان کے عوام کو لوٹنے والوں کو ان کے انجام تک پہچانے کے ساتھ ان سے قوم کی پائی پائی کا حساب لوں گا آج اقتدار میں ہوں آج بھی اللہ اور عوام سے کئے ہوئے وعدے پر قائم ہوں۔

(جاری ہے)

چاہے قومی لٹیرے کچھ بھی کر لیں اقتدار میری کمزوری نہیں کسی کو این آر او نہیں دوں گا جب تک اقتدار میں ہوں قومی لٹیروں سے حساب لیتا رہوں گا میں اللہ اور عوام سے کئے ہوئے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
 قومی سیاست کی اس صورتِ حال میں قوم کہاں کھڑی ہے۔ لمحہ لمحہ بدلتی صورتِ حال میںآ نے والے کل کو کیا ہوگا، یہ تو خدا جانتا ہے لیکن پاکستان کا ہر شہری بخوبی جانتا ہے،اپوزیشن کا ٹکراو براہِ راست افواجِ پاکستان سے ہے،تحریک انصاف کی حکمرانی پر اپوزیشن کا یہ الزام نیا نہیں لیکن پہلے اشاروں میں تھا اوراب تمام شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کی موجودگی میں براہِ راست ہے۔

قوم جان گئی ہے کہ ا داروں کے سائے میں اپوزیشن کو عمران خان کی حکمرانی قبول نہیں اور یہ اشارہ ہے اپوزیشن اور اداروں کے درمیان براہِ راست تصادم کا لیکن سابقہ ادوارِ حکمرانی کے بادشاہ اگر آج جیل میں ہیں تواپوزیشن کو جان لینا چاہیے کہ ان کے اس عمل سے وطنِ عزیز میں افراتفری تو پھیل سکتی ہے لیکن اگر وہ پاکستان میں دوبارہ حکمرانی کا سوچ رہے ہیں تو یہ ان کا شیخ چلی کے خواب کے سوا کچھ نہیں، دنیا اس حقیقت کو جان گئی ہے کہ اگر قومی اور بین ا لاقوامی چور ڈاکو اور لٹیرے حکومت کے خلاف ا یک ساتھ سراپا احتجاج ہیں تو وطنِ عزیز میں ایماندار حکمران کی حکمرانی ہے ،سابقہ ادوارِ حکمرانی کے چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں ان کی سیاست کا سورج غروب ہو چکا ہے یہ لوگ اپنے اعمال میں اپنے انجام میں ڈوب رہے ہیں تنکوں کے سہاروں کی کو شش میں اپنی آخرت بھی برباد کر رہے ہیں۔

قوم کسی بھی صورت میں خود پر حکمرانی کے لئے قومی لٹیروں کو اعتماد کا ووٹ نہیں دے گی
آج مولانا فضل الرحمان اور اس کے ہمنوا عوام کو گمراہ کرنے نکلے ہیں کہ ہم ناموسِ رسالت کے لئے نکلے ہیں، پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے نکلے ہیں،نااہل حکمران قوم کو معاشی بحران سے نہیں نکال سکتے ،نا جائز اور نا اہل حکومت کو پاکستان پر مسلط کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں دے سکتے،ملک داؤ پر لگا ہے احتساب کی آڑ میں اپوزیشن قیادت کو دیوار سے لگایا جارہا ہے ۔

تمام سیاسی جما عتیں ایک پیج پر ہیں ،وغیرہ وغیرہ ،
مولانا کی ان باتوں اور وعدوں پر کون اعتبار کرنے کی غلطی کرے گا جب یہ لوگ برسرِ اقتدار تھے اس تو اپنی ذات کے حصار سے کھبی باہر نہیں نکلے،وعدے تو انہوں نے الیکشن سے قبل بھی کیئے تھے ۔ذاتی اقتدار کے شوق میں آج کے دلدار ایک دوسرے کے دشمن تھے ایک دوسرے کو چور،لٹیرا ،ڈاکو اور جانے کیا کیا کہہ رہے تھے ایک دوسرے کو راوی کے پل سے نیچے لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرنے والے آج پھر عوام سے اقتدار کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن ان کا یہ خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہو گا اس لئے کہ یہ خود پرست بہروپئے عوام اور پاکستان کے لئے نہیں بلکہ اپنے حواریوں،درباریوں،اور اعلیٰ قیادت کے ساتھ مکافات عمل میں ہونے والے عمل پر ماتم کے لئے نکلے ہیں اگر آج تمام شکست خوردہ،خود پرست، ایک ساتھ ہیں تو عمران خان کی حکومت بھی تنہا نہیں قومی ادارے اس کے ساتھ کھڑے ہیں اگر مولانا کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کے والد مولانا مفتی محمود کے ساتھ نو ستارے کھڑے تھے تو تحریک کا انجام کیا ہوا تھا جمہوریت کے ساتھ؟ لیکن آج وہ صورت حال نہیں اس لئے کے ادارے وطن عزیز کی عظمت قومی اور جمہوریت کے استحکام کے لئے حکمران جماعت کے ساتھ ہیں۔

جبکہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اس اپوزیشن کے جو رہنما کنٹینر پر تو کھڑے تھے جلسے میں ان کی جماعت کا کوئی جھنڈا نظر نہیں آیا اس لئے کہ یہ مولانا فضل الرحمان کے مدرسوں کے طلباء کا مارچ اور دھرنا ہے۔ مولانا کے مارچ اور دھرنے سے ان کا خواب تو پورا نہیں ہوگا لیکن جمہوریت کو خطرہ ضرور ہے۔اور اگر ایسا ہوا تو اپوزیشن کا انجام عبرت ناک ہو گا!!!۔

مارچ اور دھرنے کے تناظر میں
 لٹیرے چور ڈاکو اور سب بے سر نکل آئے
سنا ہے دیس میں گل چیونٹیوں کے پر نکل آئے
دبانے کے لئے کشمیر میں تحریکِ آذادی
یہودی قوم کے جو ہیں سبھی دلبر نکل آئے
منافق ہیں وطن سے عشق تو چہروں پہ لکھا ہے
جو اندر روپ تھے دھرنے میں وہ باہر نکل آئے
اداروں کو نہیں بخشا، نا بخشا دین وملت کو
ریاست کے ہیں جو دشمن سبھی خودسر نکل آئے
اداروں سے محبت میں وطن کی شان نکھرے گی
اگر اہلِ قلم، اقبال سا شاعر نکل آئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :