صدارتی نظام وقت کی ضرورت ہے

جمعرات 9 جولائی 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

 دورِ حاضر میں پیپلز پارٹی سند ھ کی حکومت وفاق میں عمران خان کے خلاف وہ ہی کردار ادا کرنے جا رہی ہے جو بحثیت وزیرِ اعلیٰ پیجاب میں محمد نواز شریف نے وفاق میں ایشیاء کی پہلی مسلمان خاتون وزیرِ اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ادا کیا تھاوطن عزیز میں عدم استحکام کے لئے سندھ کی حکومت کے کردار پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے گزشتی دو سالوں میں تحریکِ انصاف کی حکومت گرانے کے لئے اپوزیشن نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن ان کی ہر کوشش ناکام رہی اس لئے کہ ان کی جنگ زر خرید میڈ یاتک محدود ہے عوام اور ان کے اپنے عوامی نمائندے ان کے قومی کردار سے نالاں ہیں اس لئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن ان کے درباری او ر اتحادی یہ جنگ عوام کے خوبصورت مستقبل کے لئے نہیں ذات اور ذاتی مفادات کے لئے لڑ رہے ہیں میڈیا میں ان کے حواری اور درباری ہیں حکومت کے خلاف زہر اگلتے ہیں اس لئے کہ ان کے خلاف گھرا تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے عوام ان کی حکمرانی میں ان کے کرتوت جان رہی ہے
تحریکِ انصاف کے وفاقی وزیر علی زید ی نے بلدیہ ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ کو پبلک نہ کرنے پر حکومتِ سندھ کے خلاف سا نحہ بلدیہ ٹاؤن،لیاری گینگ ، عزیر بلوچ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ پبلک نہ نے پر چیف سیکٹری سندھ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں توہینِ عدا لت کی درخواست دی تھی سندھ حکومت نے عذیر بلوچ ، نثارمورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی ۳۵ صفحات پر مشتمل انکوائر ی رپورٹ پبلک کر کے دعویٰ کیا کہ اس رپورٹ میں پاکستان پیپلز کے کسی فردِ واحد کا نام نہیں جبکہ وقاقی وزیر علی زیدی نے ۴۳ صفحات پر مشتمل رپورٹ عام کرتے ہوئے کہاکہ سندہ حکومت کی رپورٹ سے آٹھ صفحات ہی غائب ہیں جن میں فریال تالپور، قادر پٹیل، سرجیل میمن یوسف بلوچ ، ذوالفقار مرزا اور مورائی کے نام ہیں سچائی کیا ہے یہ تو وقت ہیں بتائے گا لیکن پوری قوم کا ہر باضمیر جا نتاہے کہ سابق ا دوارِ حکمرانی میں کتنے معصوم لوگوں کا خون بہا شاید یہ لوگ بھول گئے کہ خد کی لاٹھی بے آواز ہے اور وہ لاٹھی گھوم چکی ہے آصف علی زرداری بسترِ مرگ پر ہیں میں محمد نواز شریف اپنے خا ندان کے ساتھ زندہ درگور ہے۔

(جاری ہے)

الطاف حسین کی حا لتِ زار کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن افسوس کہ ان میں کسی ایک کا بھی گریبان نہیں ،جانتے ہیں کہ انہوں نے دستانے پہنے ہوئے ہیں لیکن ان کے دامن پر معصوم لوگوں کے خون کے داغ تو اندھوں کو بھی نظر آرہے ہیں سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ کاردار ،ماڈل ٹاؤن کا قتل عام ، بوری بند لاشیں، بے نظیر بھٹو ، میر مرتضیٰ بھٹو اور پر جانثا ہونے والوں کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے اگر آج پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ جے آئی ٹی میں ان کا نام نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو فرشتوں کی پارٹی کا سرٹیفکیٹ مل گیا ظلم اور بربریت کا حساب تو دینا ہی ہو گا زندہ ضمیر لوگ جانتے ہیں کہ کون کس قدر مومن ہے۔


 قوم یہ بھی جان گئی ہے کہ عمران دشمنی میں اپوزیشن ،اور ذخیرہ اندوز مافیا، جمہورت کی بساط الٹنے کے لئے سرگرم ہے لیکن آخر کب تک یہ تماشہ قوم دیکھے گی کب تک قوم بے ضمیر درندوں کو برداشت کرے گی سپریم کورٹ،افواجِ پاکستان اور عمران خان کو کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہو گا عوامی نمائندوں کے روپ میں قومی لٹیروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہو گا اگر دیکھا جائے تو عمران خان کا مقابلہ سیاستدانوں سے نہیں عوام دشمن مافیا سے ہے لیکن بد قسمتی سے ایسے نازک وقت میں بھی قوم سو رہی ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے عوام کو پاکستان کے خوبصورت مستقبل کے لئے کسی فردِ واحد کے ساتھ نہیں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا ۔

نظامِ حکمرانی کو تبدیل کرنا ہو گا ۔پاکستان کے خوبصورت مستقبل کے لئے صدارتی نظامِ جمہوریت وقت کی ضرورت ہے سپریم کورٹ ،افواجِ پاکستان اور عمران خان کو یہ کڑوی گولی نگلنی ہوگی قومی خزانے پر سے نام نہاد جمہوریت پسندوں کے بوجھ کو اتارنا ہو گا ۔ صوبوں میں گورنر۔ ڈویژن ،ضلع ،ٹاؤن کمیٹی اور یونین کونسل سطح تک اختیارات ہی سے عوام کوریلیف ملے گا جب تک موروثی سیاستدانوں کہ ہم سیاسی طور پر دفن نہیں کریں گے اس وقت تک روشن مستقبل ایک خواب ہی رہے گا اگر تبدیلی لانی ہے تو صدارتی نظام ہی میں تبدیلی آئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :