مسئلہ کشمیر اور مولانا فضل الرحمن

جمعہ 18 اکتوبر 2019

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

1947 سے اب تک پاکستان و بھارت میں ایک مسئلہ پر مرحلہ وار جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ کشمیر وہ مسئلہ ہے جو انڈیا و پاکستان کے درمیان گزشتہ 72 سالوں سے چلتا آرہا ہے۔ 1948 میں جنگ بندی کے بعد UNO نے 18 عالمی قراردادیں پیش منظور کیں جس میں اس مسلہ کے حل کی حکمت عملی وضع کی گئی۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے 1965 و 1971 کی جنگیں لڑی گئیں۔ 1999 کا کارگل محاذ بھی کشمیر مسئلہ کی بدولت تھا اسی طرح فروری 2019 میں "پلوامہ کا ڈرامہ اور پاک بھارت ایئرفورس کی جھڑپیں اور پھر ابھی نندن کی چائے اور رہائی بھی اسی کڑی کا سلسلہ ہے۔


5 اگست 2019 کو بھارتی لوک سبھا (پارلیمنٹ) نے آرٹیکل 370 اور 37 ۔اے کو ختم کرکہ کشمیر کی جغرافیای حالت و آبادی کو بدلنے کی کوشش کی۔ اب کشمیر میں بھارتی لوگ بھی جگہ خرید سکیں گے اور بھارتی قوانین بھی کشمیر پر نافظ العمل ہوں گے، گویا 5 اگست سے آج کے دن تک کشمیر میں کرفیو کا عالم ہے۔

(جاری ہے)

دفاتر، کالج، اسکول، ہسپتال، بینک، دوکانیں، بازار و نظام مواصلات مکمل طور پر بند ہیں۔

انٹرنیشنل صحافی سی۔جے ویریلمین کی کشمیر رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 7 ہزار بے نامی قبریں ہیں۔80 ہزار بچہ یتیم جبکہ 6 ہزار افراد گرفتار ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہر 10 افراد پر ایک انڈین فوجی تعینات ہے۔بچیوں اور عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ 7 ہزار افراد پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ اور "جینوسائیڈ واچ" کے الرٹ کے بعد اقوام عالم کو جاگ جانا چاہئیے بدقسمتی سے 2018 کو فلسطین نے جہاں بھارتی وزیراعظم کو اعلیٰ سول ایوارڈ دیا تھا وہیں 2019 میں متحدہ عرب امارات نے بھی مودی کو تب اعلیٰ سول ایوارڈ دیا جب کشمیریوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں۔

کشمیر کی اگر بات کی جاۓ تو یقینا" اتنے دنوں کے کرفیو کے بعد قحط سالی ہوگئی ہوگی؛ خوراک و بچوں کے لیے دودھ کی کمی ہوگی۔ کشمیریوں کو نماز عید الاضحی نا پرھنے دی گئی اور نماز جمعہ کی اجتماعات سے بھی روکا جارہا ہے مگر ایسے میں مسلم امّہ غفلت کی نیند سو رہی ہے۔امت مسلمہ کی تلواریں فقط رقص میں ہیں۔
کسمیر نیوز سروس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 5 اگست سے اب تک 16 کشمیری شہید جن میں عورتیں و بچے بھی شامل تھے، 467 زخمی جبکہ 14 خواتین کی عصمت دری کی گی۔

اسی طرح رپورٹ کے مطابق 31 گھروں کو مسمار کیا گیا۔
دوسری جانب بھارتی ریاست " آسام" میں بھارتی حکومت نے مسلمانوں اور دوسری اقلیتی مذاہب کے ماننے والے 40 لاکھ افراد میں سے ابتدای طور پر 19 لاکھ افراد سے انکی شہریت کا حق چھین لیا ہے۔اب وہ لوگ بھارتی شہری نہیں ہیں اور ابتدائ  طور پر 80 ہزار بھارتی فوجی آسام سے 19 لاکھ افراد کو بے دخل کریں گے۔

حالیہ بھارتی اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح رح کا دو قومی نظریہ بلقل درست تھا۔ بھارتی موجودہ حکومت مکمل طور پر 19 کی دہائی میں بننے والی آر۔ایس۔ایس کے ایجنڈا پر گامزن ہے۔ اس نظریہ کا مقصد فقط "مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا دو یا مار دو ہے"۔ اسی نظریہ کی پوجاری موجودہ بھارتی بی۔جے۔پی حکومت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اور خاص طور پر گمراہ و تقسیم امت مسلمہ کو وحدت کی جانب لایا جاۓ۔


ادھر کشمیری مائیں و بہنیں پارک سر زمین کی طرف دیکھ رہی ہیں تو ادھر ہم دھرنا پارٹی میں مگن ہیں۔ وزیراعظم عمران خاں صاحب نے اقوام متحدہ میں بے شک بہترین خطاب کیا۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا فقط خطاب سے کشمیری سکھ کا سانس لے لیں گے؟ 75 واں روز ہونے کو ہے قوم اور بین الاقوامی دنیا کی توجہ پاکستان پر ہے اور ہماری توجہ کا مرکز وائٹ ہاؤس اور دنیا ہے۔

فقط 10 منٹ کے جمعہ کے روز خطاب سے نا دنیا کی توجہ ھوگی نا ہی کوئی ثالث ہوگا۔مولانا فضل الرحمن جو 10 سال کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے آج وہی ان نازک حالات میں اپنی سیاست چمکانے کے لیے اسلام آباد پڑاؤ کا ایجنڈا لیے بیٹھے ہیں۔یہ وہی مولانا ہیں جو نواز شریف صاحب کے دور حکومت میں تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے قانون میں ترمیم پر خاموش رہے ۔یہ وہی مولانا ہیں جو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ایک لفظ تک نا نکال سکے مگر جوں ہی اسمبلی سے باہر ہوے اسلام آباد کی جانب رخ کرنے کا اعلان کر دیا۔

مولانا زرداری کے دور حکومت میں بھی وزارت کے مزے لیتے رہے اور جنرل (ر) مشرف کے دور حکومت میں قائد حزب اختلاف رہے۔ 2018 کے انتخابات مولانا نا تو الیکشن ٹربیونل گئے اور نا ہی الیکشن کمیشن کی جانب رخ کیا۔حضرت نا عدالت گئے بلکہ سیدھا اسلام آباد چڑھائی کا اعلان کردیا۔ اس کے بر عکس عمران خان صاحب 2013 کے انتخابات کے بعد ہر فورم پر گئے اور بلآخر اسلام آباد لانگ مارچ کیا۔

یہ بہت بڑا دونوں سیاسی جماعتوں میں فرق ہے۔ جب سے مولانا نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہی تب سے میڈیا کا ایجنڈا مولانا صاحب اور مارچ ھو گیا ہے جبکہ میڈیا کو کشمیر کو سب کشمیر مسلہ پر بات کرنی چاہئیے۔دشمن کافی حد تک پاکستان و دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹانے میں اندرونی معاملات میں الجھانے میں کامیاب ھوگیا۔
مولانا نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا اور 31 اکتوبر کو مارچ اسلام آباد سے ٹکرا جاۓ گا۔

27 اکتوبر 1947 کی صبح 10 بجے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا اور اس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے پاکستانی فوج کو کشمیر میں جانے کا حکم دیا جسکا اس وقت کے آرمی چیف نے  حکم ماننے سے انکار کردیا۔ حالات اس قدر پچیدہ ہوے کہ عوام نے کشمیر میں گھس کر کشمیر آزاد کروانا شروع کیا مگر بھارت یو۔این۔اؤ میں چلا گیا اور جنگ بندی ہوئی۔ یواین۔اؤ نے 18 قراردادیں پاس کیں جس کے مطابق کشمیر کا مسلہ اسکی عوام کی خواہش کے مطابق حل ہوگا۔

مگر بدقسمتی سے نا ان قراردادوں پر عمل ہوا ناہی اقوام متحدہ کی رٹ کشمیر پر بحال رہ سکی الٹا مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو ختم کر کہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کی نا پاک سازش کی۔ سوال یہ کہ مولانا 10 سال کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے کس حد تک مسلہ کشمیر اقوام عالم تک اٹھایا؟ مولانا اب کس کے ایجنڈا پر اسلام آباد پر چڑھائی کو دوڑ رہے ہیں؟ کس کو کشمیر سے توجہ ہٹنے سے فائدہ ہوا؟ تو یقینا" بھارت کو ہی فائدہ ہوا۔

27 اکتوبر کو ادھر بھارت میں ہولی کی خوشیاں منائی جائیں گئیں تو کشمیر میں عوام یوم سیاہ منائیں گے۔مولانا کو حالات کو دیکھتے ہوے ملکی سالمیت کے حق میں تحریک چلانی چاہئیے۔ بہر حال میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق مولانا کا مارچ پیچھلے دونوں مارچ سے عددی اعتبار سے بڑا بھی ہوگا اور ہنگامہ خیز بھی ہوگا۔حکومت ضرور روکے گی مگر احتجاج و مارچ ہوتا ضرور نظر آتا ہے۔بھارت اپنے ناپارک مشن میں گامزن ہے اور دنیا و پاکستان کی توجہ کشمیر سے ہٹانا چاہتا ہے اور کافی حد تک کامیاب ہوگیا ہے۔اب امتحان حکومت اور مارخوروں کا ہے کہ کیسے ملک کو اندرونی بیرونی سازشوں سے محفوظ کیا جاۓ اور معیشت کو بحال کیا جاۓ۔امید کرتا ہوں ملک مثبت سمت ضرور رخ کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :