ایک نہیں دو پاکستان

منگل 19 نومبر 2019

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

14 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح رح، قائدین تحریک آزادی و کارکنان تحریک آزادی نے مسلمانان برضغیر پاک و ہند کو اپنی جدوجہد سے سرزمین پاکستان عطا کی۔ قائد اعظم نے وہ ملک بنانے کا وعدہ کیا جس میں امیر و غریب کے لیے قانون برابر ہوگا۔جس میں ظالم کو قانون سزا اور مظلوم کو قانون انصاف دے گا۔یہ اس پاکستان کا وجود تھا جو ایک اللہ‎ کے نام پر معرض وجود میں آیا اور جسے ایک فلاحی و رفاعی ریاست بننا تھا۔

یہ وہ پاکستان تھا جس کی خاطر لاکھوں آزادی و تحریک پاکستان کے مستانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ مگر بدقسمتی سے 1948 میں قائد اعظم اس مملکت خداداد کو چھوڑ کر چلے گئے۔آپ نے اور قائدین مسلم لیگ اس ملک کی خاطر بے پناہ محنت کی۔
پھر تاریخ گواہ ہے کہ کیسے پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے قائد اعظم کے چنے ہوے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کیا جاتا ہے اور پھر اس ملک پر سرمایا داروں، وڈیروں کا راج چلتا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

1970 کے انتخابات کے بعد بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے بیچ بڑھتے ہوے تنازع اور بھٹو کے نعرہ "ادھر تم ادھر ہم" سے ایک نیا ٹوٹا ہوا پاکستان وجود میں آتا ہے اور 1971 کی جنگ کی ہار کے بعد مشرقی پاکستان الگ ملک بنگلہ دیش میں تبدیل ہوجاتا ہے یہ ایک نیا پاکستان تھا جو کہ جناح رح کا دیا ہوا اصل پاکستان نہیں تھا۔1973 کے آئین پاکستان کے بعد مسلم لیگ (ن) نواز شریف اور پی۔

پی.پی بے نظیر بھٹو و زرداری صاحب اقتدار میں بار بار آتے رہے اور یہ پاکستانی جمہوریت کہلاتی رہی جو کہ لفظ جمہور کی ج سے بھی نا واقف تھیں ۔ جنرل ضیاء الحق کے اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے علاوہ انھیں دو جماعتوں کو اقتدار بار بار ملتا رہا۔
30 اکتوبر 2011 کو لاہور مینار پاکستان میں جلسہ عام کے بعد عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف ملکی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرتی ہے جس کا روز اول سے نعرہ "دو نہیں ایک پاکستان" تھا یا "تبدیلی" اس جماعت کا نعرہ تھا۔

اسی طرح اس جماعت کا بیانیہ تھا کہ اسی نظام انتخاب و سیاست میں رہ کر الیکشن لڑ کر تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔نوجوان نسل تحریک انصاف کے پیچھے کھڑی ہوئی۔ ہم دیکھتے ہیں 23 دسمبر 2012 کو اسی مینار پاکستان میں ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان عوامی تحریک اور انکی جماعت ملکی چوتھی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھرتی ہے اور آپ کا نعرہ پہلے "احتساب پھر انتخاب" ہوتا ہے۔

آرٹیکل 62 و 63 کے نفاذ اور انتخابی و سیاسی نظام کی تبدیلی کی بات ہوتی ہے اور آپ انتخابی نظام میں تبدیلی کے لیے اسلام آباد لانگ بھی کرتے ہیں مگر 11 مئی 2013 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کو صرف 35 سیٹیں ملتی ہیں اور ہر زبان عام ہوتا ہے "طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے"  پھر 2014 کے لانگ مارچ تھے یا پھر پانامہ لیک کے بعد نواز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور آرٹیکل  62 (1) ایف کی خلاف ورزی پر صادق و امین نا ہونے کا فیصلہ آتا ہے۔

العزیزیہ کیس میں میاں صاحب کو 7 سال جیل کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ ارب روپے اور 25 ملین ڈالر کا جرمانہ ہوتا ہے۔پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ احتساب کا عمل اتنا تیز ہوتا ہے اور مجرم کو سزا ملتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں پانامہ لیک پر سپریم کورٹ میں کیس کرنے والے شیخ رشید صاحب اور عمران خان صاحب 2018 کے انتخابات جیت جاتے ہیں۔عمران خان صاحب وزیراعظم پاکستان منتخب ہوتے ہیں۔

رہی بات 2018 کے انتخابات کو بھی دھاندلی زدہ کہاجاتا ہے اور نظام کی شفافیت پر ایک بار پھر قدغن لگتا ہے۔ نواز شریف صاحب کی بیماری کی بنیاد پر انکی ضمانت ہوتی ہے حتی کہ نام ای۔سی۔ایل سے نکالنے کے لیے وفاق و نیب میں خط و کتابت چلتی ہے میرے پچھلے کالم "مولانا ڈاکٹرائن اور میاں صاحب" میں پہلے ہی تجزیہ دے چکا تھا کہ یہ معاملہ عدالت جاتے دیکھ رہا ہوں اور بڑا رلیف ملتے دیکھ رہا ہوں۔

البتہ ثابت ہوا اس ملک میں دو پاکستان ہیں ایک غریب کا اور دوسرا امیر، سرمایا دار اور وڈیرے کا۔ صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس کی بات کروں تو 14 لوگ شہید ہوے انکی 8 اپیلیں عدالت میں جمع ہیں سنوائی نہیں ہوئی۔ 5 سال ہوگئے انھیں انصاف نہیں ملا۔ اسی طرح ایک سانحہ، سانحہ ساہیوال کے لواحقین آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔یہاں غریب کے گھر چوری ہو جانے پر کورٹ کچہری جانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں الٹا اور کام لمبا نا ہوجاۓ اور پیسوں کا ضیاع نا ہو۔

تحریک انصاف کی حکومت اور اس نظام نے ایک مرتبہ پھر کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ "طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے" اس نظام کے اندر کبھی تبدیلی نہیں آے گی۔ افسوس! عوام کی امید کا آخری تارا بھی سیاست سے ریٹائر ہوگیا۔ مجھے اس ملک میں اب نظام خواہ وہ سیاسی ہے یا انتخابی میں تبدیلی و اصلاح کی کوئی آواز نظر نہیں آتی۔ بڑے بڑے امیر مزید امیر اور طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور غریب مزید غریب اور کمزور ہوتا جارہا ہے۔

ریاست مدینہ کے عکس کی دعویدار حکومت کو سمت درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بے روزگاری ہے یا مہنگائی یا پھر غربت دن بدن سب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔غریب دو وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے اور پرانا پاکستان مانگتا پھر رہا ہے۔ ملکی جیلوں میں 870 لوگ بیمار ہیں مگر انھیں اسی جیل کے اندر جل سڑ کر مرنا ہوگا۔ قائد اعظم و شہداے تحریک آزادی کی روحیں آج پاکستان کو دیکھ کر پریشان ہوں گیں کہ ہم نے کس پاکستان کی جدوجہد و قربانی دی تھی اور آج کا پاکستان کیسا ہو گیا؟ اس ملک کو صحیح معنوں میں ایسا شفاف نظام سیاست و انتخاب دینا ہوگا جس میں غریب کا بچہ، کسان کا نمائندہ کسان، مزدور کا نمائندہ مزدور، طالبعلم کا نمائندہ طالبعلم، وکیل کا نمائندہ وکیل، استاد کا نمائندہ استاد ہو ناکہ سرمایا دار و وڈیرہ ہو تاکہ اس ملک کے ہر طبقے بات پارلیمنٹ میں ہو مگر افسوس یہ طبقات تو الیکشن جیت تو کیا لڑ نہیں سکتے۔

مگر امید پر دنیا قائم ہے شائد قائد اعظم کا پاکستان پلٹ آے اور ملک صحیح سمت کو چلے۔ البتہ مجھے احتساب کا نعرہ اب دفن ہوتا نظر آتا ہے اور میاں صاحب لمبے عرصہ کے لیے ملک بدر رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :