درخت دشمن قوم

منگل 9 جون 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

کسی بھی ملک میں 25 فیصد جنگلات کا ہونا لازمی ہے مگر ہمارے ہاں درخت کی نہیں بلکہ اس کی لکڑی کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے ہمارے ہاں جنگلات آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔ کسی زمانے میں یہی جنگلات لاکھوں ایکڑ پر محیط تھے مگر اب صرف ہزاروں ایکڑ تک محدود ہو گئے ہیں۔ اگر درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہی جنگلات کچھ سو ایکڑ تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔

ایک اندازے کے مطابق روس میں 48 فیصد، برازیل میں 58 فیصد، انڈونیشیا میں 47 فیصد، سوئیڈن میں 74 فیصد، اسپین میں 54 فیصد، جاپان میں 67 فیصد، کینیڈا میں 31 فیصد، امریکا میں 30 فیصد، بھارت میں 23 فیصد، بھوٹان میں 72 فیصد اور نیپال میں 39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں صرف 2.19 فیصد جنگلات ہیں۔

(جاری ہے)

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کتنے ماحول دوست ہیں۔

اس کے علاوہ مینگرووز کے جنگلات تقریباً 207000 ہیکٹرز پر ہیں۔ سندھ میں یہ 600000 ہیکٹرز پر مشتمل ہیں، جبکہ محکمہ جنگلات اس وقت 241198 ہیکٹرز تک کچے کی زمین پر اپنا کنٹرول رکھتا ہے۔ہمارے ملک میں اب جس درخت کو زیادہ اگایا جا رہا ہے وہ کونوکارپس (Conocarpus) ہے۔ یہ یہاں کا مقامی درخت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق شمالی امریکا سے ہے، جسے محکمہ جنگلات نے درآمد کیا ہے۔

ہمارے مقامی اشجار جن میں نیم، برگد، جامن، اور شیشم شامل ہیں، انہیں بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ قدرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم آئی یو سی این کے مطابق یہ ایک نمکین درخت ہے، اس کا پتا جہاں بھی گرتا ہے وہاں سیم پیدا کرتا ہے، اسے لوگ دیہی علاقوں میں نہیں اگاتے، اور نہ ہی کوئی پرندہ اس میں گھونسلا بناتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سانس کی الرجی کا بھی سبب بنتا ہے جس سے دمہ ہوتا ہے۔

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر ضروری درخت ہے، اس کے بجائے نیم کو زیادہ سے زیادہ اگایا جائے، کیونکہ کونوکارپس دور سے تو ہرا بھرا دکھائی دیتا ہے مگر اس کا طویل مدتی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ درخت جلد بڑھ جاتا ہے، اس لیے اسے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ مگر یہ ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔جنگ کے ایام میں بھی نبی کریمﷺ سپہ سالاروں کو جو ہدایات فرماتے تھے ان میں ایک درختوں کو نہ کاٹنے کا حکم بھی شامل ہے مگر ہمارے ہاں جس طرح درختوں کا قتل عام کیا گیا اس کی نظیرملنا مشکل ہے-دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں جس تیزی سے وقوع پذیرہورہی ہیں ہم نے شعوری طور پر ان کی رفتار کو دوگنا کردیا ہے -پنجاب اور سندھ میں موسم سرما سکڑکر صرف دوماہ پر محیط ہوکررہ گیا ہے-شہروں کے معاملے میں بھی ہم نے انتہائی لاپروائی اور مجرمانہ غفلت برتی ہے ‘شہروں کوبڑھنے سے روکنے کی بجائے حکومت کے ماتحت ادارے اس کار ”خیر“میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ پرائیو ٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو کئی حدود پار کرنے میں ان کی معاونت بھی کی ہے -لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)نے علامہ اقبال ٹاؤن‘جوہرٹاؤن اور سبزہ زار جیسی سکمیں بناکر لاکھوں ایکٹرزیرکاشت اراضی کو برباد کردیا ان زمینوں پر کھڑے لاکھوں درخت بھی ہوس زر کا ایندھن بن گئے-ایل ڈی اے کے بعد نجی شعبہ میں لینڈڈویلپرزنے مانگا منڈی‘قصور‘کالاشاہ کاکو‘شرق پور‘بیدیاں روڈاوررائے ونڈتک وہ تباہی مچائی کہ سینکڑوں مربع کلومیٹرتک زرعی زمینیں اور درختوں کے ذخیرے فنا ہوگئے-1980کی دہائی تک دریائے راوی کے کناروں پر ”بیلے“ہوتے تھے جن کا آج نام ونشان بھی باقی نہیں بچا-ایک طرف ماحولیات اور جنگلات کے حوالے سے حکومتیں کوئی مربوط پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہیں تو دوسری جانب عوام میں شعور کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے درختوں کو بیدردی سے کاٹا گیا-آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کنکریٹ کے جنگل میں کھڑے ہوکر سو چ رہے ہیں ہے کہ حل کیا نکالا جائے؟ابھی بھی ہم ”ڈیمج کنٹرول“کرنے کے لیے اقدامات کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں سو فیصد عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا -حکومت کے ماتحت اداروں سمیت تمام لینڈڈویلپرزکو پابند بنایا جائے کہ ہر دوگھروں کے درمیان جگہ پر ایک درخت لازم لگایا جائے اور یہاں درخت سے مراد ہمارے روایتی درخت نیم، برگد، جامن، اور شیشم وغیرہ ہیں اگر ہوسکے تو ملک کی تمام شہری حکومتوں کے ماتحت اداروں اور نجی ڈویلپرزاپنے بائی لازمیں اسے شامل کریں اور اگر گھروں کے مالکاندرخت نہ لگائیں تو انہیں بھاری جرمانے کیئے جائیں -اس ماحولیاتی ایمرجنسی کو صرف زیرتکمیل یا مستقبل میں بننے والی ہاؤسنگ سکمیوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ موجودہ سکیموں پر بھی اس کا اطلاق کیا جائے-ہاؤسنگ سکیموں کے چھوٹے ‘بڑے پارکوں میں آرائشی پودوں کی بجائے روایتی درخت لگائے جائیں جبکہ موجودہ پارکوں سے آرائشی پودوں کو مکمل طور پر ختم کرکے وہاں درخت لگائے جائیں-فیکٹریوں اور کارخانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ صنعتی فضلے کو ندی ‘نالوں میں ڈالنے کی بجائے عالمی معیار کے مطابق کارخانوں سے خارج ہونے والے پانی میں سے صنعتی فضلے کو الگ کرنے کے لیے فلٹرنگ پلانٹس لگائیں کیونکہ ملک بھر میں عمومی طور پر اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور پانی میں شامل زہریلے موادنہ صرف ماحول کو بلکہ زمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہرسال ہزاروں ایکٹراراضی بنجرہورہی ہے-اربنائزیشن کی یہ وباء کراچی اور لاہور جیسے شہروں سے نکل کر اب ملتان‘فیصل آباد‘سرگودھا‘ساہیوال‘سکھر‘حیدرآباد وغیرہ میں بھی پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ایکو سسٹم بڑی تیزی متاثرہورہا ہے -اگر آپ لاہور میں رہتے ہیں تو گلہری دکھانے کے لیے آپ کو بچوں کو لیکر باغ جناح یا کسی دوسرے بڑے پارک میں جانا ہوگا‘اسی طرح بہت سارے چرند پرند بھی ناپیدہورہے ہیں کیونکہ درختوں کی اندھا دھند کٹائی سے ان کے گھونسلوں کی جگہیں ہی نہیں بچیں -ایک درخت صرف انسانوں کے لیے آکسیجن پیدا کرنے کا ہی کام نہیں کرتا بلکہ سینکڑوں پرندوں کو مسکن بھی فراہم کرتا ہے- دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے تازہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ 2011 سے 2015 کے دوران پانچ سال دنیا کے گرم ترین سال رہے ہیں۔

رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ درجہ حرارت کے اضافے میں انسانی سرگرمی کا بہت دخل رہا ہے۔ مطالعے میں یہ پایا گیا ہے کہ فوسل کے جلنے سے شدید گرمی میں اضافے کے امکانات دس گنا یا اس سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ گرمی میں اضافے کے سبب مشرقی افریقی ممالک میں ان پانچ برسوں کے دوران ڈھائی لاکھ سے زیادہ اضافی اموات ہوئی ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان میں گرمی کی لہروں میں 4100 سے زیادہ افراد کی موت ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت کے طویل مدتی اوسط میں 0.57 سینٹی گریڈ کا اضافہ رہا ہے۔یعنی یہ اضافہ 1961 سے 1990 کے درمیان درجہ حرارت کے اوسط سے زیادہ ہے۔ افریقہ کے علاوہ یہ پانچ سال تمام براعظموں کے لیے گرم ترین سال رہے ہیں۔ان پانچ سالوں کے دوران یورپ کا درجہ حرارت معمول سے ایک سیلسیئس زیاد رہا ہے۔ یہی حال ایشیا کے روسی فیڈریشن علاقے اور سہارا اور خطہ عرب کے زیادہ تر علاقوں، جنوبی افریقہ کے بعض حصوں، امریکہ کے جنوب مغربی علاقوں اور برازیل کے اندرونی حصوں کا رہا ہے۔

جبکہ روس کے آرکٹک ساحل پر یہ اوسط سے تین ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سیکریٹری جنرل پیٹری ٹالس نے کہا پیرس معاہدے کا ہدف عالمی حدت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی کے نیچے رکھنا ہے اور اس صنعتی دور سے ڈیڑھ سینٹی گریڈ زیادہ رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اوسط درجہ حرارت پہلے ہی ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے خوش آئندبات یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک ماحولیاتی تبدیلیوں سے دوچار دنیا کے دس بڑے ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جس کی وجہ حکومت کے بعض اقدامات ہیں جن سے ماحولیات تبدیلیوں کی رفتار کو کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کیئے گئے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان ابھی تک عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے دوچار ممالک کی فہرست میں 11ویں نمبر پر ہے۔

تاہم یہ بات تشویشناک ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 907 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جو سالانہ جی ڈی پی کا 0.0974 حصہ بنتا ہے۔ آنے والے سالوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہونے والے اولین ممالک میں ہنڈراس، میانمار اور ہیٹی بھی شامل ہوں گے، ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے برا اثر افریقی خطے پر ہوگا، جہاں کے 4 ممالک موزمبیق پہلے، ملاوی دوسرے، گھانا اور مڈغاسکر اس فہرست کا حصہ ہو ں گے۔

گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس کی رپورٹ مرتب کرنے والے سونکی کریفٹ کے مطابق گزشتہ 20 سال سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے ممالک میں اکثریت ترقی پذیر ممالک ہیں، کیوں کہ یہ ممالک ترقی اور کاروبار کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نامی عالمی ادارے کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ پاکستان میں مسلسل قدرتی آفات آتی رہتی ہیں، گزشتہ 20سال سے پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار 10 بڑے ممالک میں شمار رہا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی آبادی سیلابوں اور گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے متاثر ہوگی اور اس کا اثر زرعی پیداور پر بھی ہوگا۔پچھلے 20 سالوں کے دوران پاکستان میں 133 قدرتی آفات آ چکی ہیں کیوں کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے ایسے خطے میں موجود ہے، جہاں آفات آتی رہتی ہیں۔پاکستان اپنے جنگلات کے وجہ سے دنیا میں اہمیت کا حامل ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں قدرتی وسائل کی کوئی قدر نہیں ہے۔

باقی دنیا میں لوگ درخت صرف اور صرف چند ایک مقاصد کے لیے کاٹتے ہیں، اور ان کی جگہ فوراً نئے درخت بھی اْگاتے ہیں تاکہ قدرتی سبزہ مکمل طور پر ختم نہ ہوجائے۔ مگر پاکستان میں، خاص کر ہمارے علاقے سوات کوہستان میں، نایاب درختوں کی کٹائی نہ صرف مقامی طور پر ایندھن کے لیے، بلکہ پیسے کمانے کے لیے بھی کی جاتی ہے اور یہ کام زیادہ تر علاقے کے بااثر لوگ ہی کرتے رہتے ہیں۔

ٹمبر مافیا ہر سال کروڑوں روپے مالیت کے درخت کاٹ کر اس سے اربوں روپے کا منافع حاصل کرتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں کا قدرتی حسن متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں موجود صدیوں پرانے درخت پیسے کی ہوس میں کاٹے جا چکے ہیں، جبکہ مزید کی کٹائی بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ٹمبر مافیا کے اس مذموم دھندے میں مقامی انتظامیہ کے بھی کچھ حلقے ملوث ہیں جو نہ کٹائی روکتے ہیں، اور نہ ہی لکڑی کی علاقے سے باہر اسمگلنگ۔

نتیجہ یہ ہے کہ درختوں کے کٹنے کی وجہ سے یہاں پائے جانے والے انواع و اقسام کے جانور بھی بے گھر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے پہاڑی اور سرد علاقوں میں قیمتی درختوں کی دشمن نہ صرف ٹمبر مافیا ہے، بلکہ سردیوں میں یہاں کے لوگ ہر سال ہزاروں قیمتی درختوں کو کاٹ کر جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے جب ان علاقوں میں سردیوں کے دوران گیس اور بجلی نہیں ہوتی، تو پھر یہاں کے لوگوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے لکڑیاں جلانے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ سردیوں کے موسم میں اگر آپ کالام یا اس سے اگے کے علاقوں میں جائیں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہاں کس رفتار سے درخت کاٹے جاتے ہیں کیونکہ سردیاں گزارنے کے لیے ہر گھر کو کم ازکم ایک ٹرک لکڑی درکار ہوتی ہیں۔

اور اسی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے درخت کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ہمارے علاقوں میں اسی طرح جلانے کی لکڑی کے لیے درختوں کی کٹائی جاری رہی تو کچھ ہی سالوں میں ہم درخت کے نام سے ہی ناواقف ہوجائیں گے۔ ہم پاکستانی عوام اکثر سارا الزام حکومت کے اوپر ڈالتے ہیں اور ہر چیز کا ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ اپنے علاقے اور گھر کے ارد گرد لگائے گئے درختوں کی حفاظت ہم خود کریں؟ یا اس کے لیے بھی ہمیں توقع ہے کہ حکومت ہر درخت کے ساتھ ایک چوکیدار کھڑا کر دے؟ جب ہم اپنے گارڈن، اپنی دیوار، اپنی گلی کی حفاظت اپنے ذمے لے سکتے ہیں، تو درختوں کی طرف اتنی لاپرواہی کیوں ہے؟ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگوں کو قیمتی درخت کاٹنے سے روکیں؟ کیا لوگوں میں آگاہی مہم چلانا ہم جیسے دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ہم عوام ہی ہیں جو اس ملک کو قدرتی وسائل سے مالامال کر سکتے ہیں۔

دیہی پس منظررکھنے والے ہماری نسل کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ بیس برس پہلے تک جب کنکریٹ کے پہاڑکھڑے کرنے کا چلن اتنا عام نہیں ہوا تھا ہر گھر کے آنگن سے لے کر گاوٴں کی بیٹھک‘تکیے‘ اور بہتے ہوئے کھالوں کے کناروں پر درخت نظرآتے تھے۔ اشجار سے صرف انسانوں کا ناتا نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو وہ وسیع دنیا ہے، جو کہ کیڑے مکوڑوں، جانوروں، اور پرندوں کی میراث ہے۔

وقت گزرتا گیا، ہم جوان ہو گئے، درخت بھی جوان ہوگئے، آج درخت لگائے کم اور کاٹے زیادہ جاتے ہیں -شہروں کے لوگوں میں شعور نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ چھوٹے آرائشی پودوں کو درختوں کا متبادل سمجھتے ہیں جوکہ غلط سوچ ہے- نیم، ببول، بید مشک اور دوسرے اشجار گاوٴں‘شاہراؤں کے کناروں کا حسن ہوا کرتے تھے مگر آج ہمیں سٹرکوں کے کنارے درخت نہیں کنکریٹ سے بنے پلازے نظرآتے ہیں۔

انسان کی ہوس اور لالچ کو کوئی لگام نہیں دے سکتا، اس لیے اسے ہر لمحہ دولت جمع کرنے کی لالچ لگی رہتی ہے۔ جنگلات کا کٹا ؤ ماحول کے آلودہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگر جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کو نہ روکا گیا تو اس دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگیوں کو موت کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤکے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے پر زور دے رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اکثر ممالک اس مسئلے پر قابو پانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں، مگر ماحولیاتی آلودگی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک کو مل کر اس حوالے سے لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ چار عشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا ًچار عشاریہ آٹھ فیصد ہے جبکہ درختوں کے اس چھوٹے رقبے کو بھی تعمیراتی کمپنیز اور ٹمبر مافیا بڑی تیزی سے کاٹ رہا ہے۔

ملک میں قدرتی جنگلات کے رقبے میں ہر سال ستائیس ہزار ہیکٹر کی کمی ہو رہی ہے جو ایک نہایت تشویشناک امر ہے کیونکہ درختوں کا کٹاؤ آلودگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں اور جنگلی حیات کو بہت متاثر کر رہا ہے۔پاکستان میں صرف آزاد کشمیر میں تقریباً چالیس فیصد رقبے پرجنگلات موجود ہیں، یہاں سب سے قیمتی درخت وادی نیلم میں پائے جاتے ہیں۔

ان میں دیودار، کائل، فر، بلوط، اخروٹ، چیڑھ اور دیگر کئی اقسام کے قیمتی درخت شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ ان ہی جنگلات سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں سے حاصل ہونے والے پھل، قیمتی جڑی بوٹیاں، ادویاتی پودے، شہد اور دیگر اجناس سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ جنگلات ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگوار بنانے، آکسیجن کی زیادہ مقدار فراہم کرنے اور عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ یہاں انواع و اقسام کے پرندے، جانور اور حشرات الارض بھی پرورش پاتے ہیں۔

جنگلات میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں، پھل پھول، شہد اور دیگر اشیا انسان کی بہت سی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے ساتھ آلودگی کا جو زہر آہستہ آہستہ کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اس سے انسانی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ ہے اور اس کے لئے سب سے اہم عنصر درختوں اور پودوں کی کٹائی ہے،درخت جتنے زیادہ ہوں گے وہاں کی آب و ہوا اتنی ہی صاف و شفاف ہو گی۔

قدرت نے ان میں جو اوصاف رکھے ہیں اس کی بدولت یہ فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں اور جیسے جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے ماہرین اس بات کا برملا اعتراف کررہے ہیں کہ صحت مند ماحول کے لئے درخت کی اہمیت بڑھتی چلی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ جن شہروں میں زیادہ آبادی کے ساتھ فیکٹریوں کی بھی بہتات ہے اور وہاں درخت کم ہیں۔

ان علاقوں کے مکینوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور جن علاقوں میں درختوں کی بہتات ہے وہاں نہ صرف ماحول خوشگوار ہوتا ہے بلکہ اس کے مثبت اثرات انسانی زندگیوں پر بھی پڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج درختوں کی اہمیت کے پیش نظر دنیا بھر میں درخت اور پودوں کو لگانے کی مہم چلائی جاتی ہے اور عوام کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔پچھلے دنوں ”سموگ“نامی گردآلودھندنے ہفتوں تک بھارت‘پاکستان اور چین کے علاقوں کو گھیرے رکھا ماہرین کے مطابق زہرآلودہ مادوں سے بھری ہوئی گردآلوددھند کے پیچھے بھی ماحولیاتی تبدیلیاں کارفرما تھیں لوگوں نے کئی ملین ڈالراس دوران دوائیوں پر خرچ کرڈالے مگر کوئی بھی ماہرین کی دہائیاں سننے کو تیار نہیں کہ اگر وقت پر بارشیں ہوجاتیں تو یہ صورتحال نہ ہوتی ‘بارشوں کی کمی کا براہ راست تعلق درختو ں سے ہے ‘پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک میں دوبڑے مسائل انسانی بقاء کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور پانی کی کمی ان دونوں مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے اگر ہم عہد کرلیں کہ ہم درختوں کے قتل عام کو روک کر ہنگامی بنیادوں پر نئے درخت لگائیں گے-حکومت کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اوپرگذارشات کرچکا ہوں کہ کس طرح اس خطرے سے نمٹا جاسکتا ہے جو ہر لمحے قریب سے قریب ترآرہا ہے جبکہ عوام کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ ہے وہ درخت کاٹنے کے عمل کو روکنے میں کردار اداکریں ہمارے مذہب میں درخت لگانے کا صدقہ جاریہ کہا گیا تو آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہر فرد اپنے حصے کا کم ازکم ایک درخت لگائے گااگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج سے ہی اس پر عمل شروع کرنا ہوگا-قرآن کریم اور احادیث مبارکہﷺ میں انسان کے کئی اعمال کو جنت میں درخت لگانے کے برابر قراردیا گیا -نعوذبااللہ اللہ سبحان وتعالی قادرنہیں کہ ان کے ایک حکم سے جتنے درخت چاہیں زمین پر درخت اگ آئیں مگر انسان کو ترغیب دی گئی ہے ‘اسے درختوں کی افادیت سے آگاہ کرنے کے لیے بار بار اشجار کا ذکر کیا گیاتو ہمیں حکم کی بجاآوری کے لیے آگے بڑھیں علماء وخطیب حضرات کی ذمہ داری ہے وہ کم ازکم دس سے پندرہ منٹ ہر خطبہ میں اشجار کی اہمیت سے لوگوں کوآگاہ کریں یہ ہماری ملی ہی نہیں دینی ذمہ داری بھی ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :