فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہے

بدھ 28 اپریل 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

سیاست ذہنی ریاضت سے آتی ہے، یہ جسمانی مشقت کا کام نہیں ہے، سوچ بچار، سمجھ بوجھ سیاست کا بنیادی اصول ہے، اسی لیے قانون دان، آئین کی سمجھ رکھنے اور دلیل پر مبنی گفتگو کے فن سے آشنا ماہر افراد ہی اس میں کامیاب دکھائی دیے ہیں، جسمانی زور آزمائی پر یقین رکھنے والے افراد کبھی بھی سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتے، سیاست میں عمران خان کی پہلی اٹھان ضیاء دور میں ہوئی، جب انہیں کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت سے رابطے کے لیے استعمال کیا گیا اس کے بعد 92 کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کیش کرانے کی کوشش ہوئی اورا نہیں اس میدان میں قبلہ حمیدگل میدان میں آئے اور انہیں ڈھال فراہم کی،92 سے1995 تک کے عرصہ میں عمران خان کی تمام تر توجہ شوکت خانم ہسپتال تک مرکوز رہی، ہستپال بن گیا تو اس کریڈٹ کے ساتھ تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی، اور 1996سے 2013 تک کا سفر سترہ سال کی کہانی ہے اس دوران ملک میں2013,2008,2002,1997 میں چار عام انتخابات ہوئے،2008 میں تحریک انصاف نے بائی کاٹ کیا، دیگرتین انتخابات میں حصہ لیتی رہی،مگر عوام نے تحریک انصاف کی قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قابلیت پر بھروسہ نہیں کیا، عوام کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوا، عمران خان خود بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں1992 کے بعد کس طرح سیاسی میدان کے لیے تیار کیا گیا، وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہ بات انہی کے متعدد انٹرویوکے ذریعے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں نہیں آئے، اقتدار میں آنے کے لیے ان کی رائے کیا تھی، انہیں علم تھا کہ اقتدار کے لیے بیساکھی چاہیے، سو یہ دعوی کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے، خود ایک سوالیہ نشان ہے،2002 میں ملک میں عام انتخابات جنرل مشرف کی نگرانی میں ہوئے، عمران خان ان کے پسندیدہ تھے، حتی کہ تحریک انصاف نے ان کے ریفرنڈم کی حمائت بھی کی اور اس کے لیے کام بھی کیا، مگر بعد میں راہیں اس لیے جد ہوگئیں کہ جنرل مشرف انہیں اسمبلی کی نشستیں ان کی خواہش کے مطابق نہ دے سکے بقول جنرل پرویز مشرف عمران خان اُن سے اپنے حصّے سے بہت زیادہ مانگ رہے تھے 2018 میں انہیں کامیابی ملی، اب وہ اس کامیابی کو اپنی سیاسی جدوجہد قرار دے رہے ہیں مگر ان کے مخالف سیاسی کیمپ میں سلیکٹڈ وزیرِ اعظم کی اذان دی جارہی ہے، گویا ان کے سیاسی مخالفین کی رائے تبدیل نہیں ہوئی، اس ملک کی سیاسی تاریخ واقف ہے کہ یہاں ایوب خان کیسے صدر منتخب ہوئے تھے، جنرل ضیاء کے ریفرنڈم میں ووٹ کہاں سے آئے، جنرل مشرف کے ریفرنڈم میں تو اتنے ووٹ ڈالے گئے کہ خود جنرل مشرف کو ٹی وی یہ کہا پڑا کہ ان کے ساتھیوں نے کچھ ذیادہ ہی کام کردیا، یہ تمام واقعات ملک کی سیاسی تاریخ ہیں، عمران خان چونکہ کھلاڑی رہے ہیں، کھلاڑی جسمانی مشقت پر یقین رکھتا ہے، اس کے بغیر اس کی فٹنس نہیں رہتی، کھیل کے میدان میں ایک کونے میں کھڑا ہوکر ذہن سے نہیں سوچتا بلکہ جسمانی قوت سے آگے بڑھتا ہے، میچ میں ہر قیمت پر کامیابی چاہتا ہے حتی کہ مخالف کھلاڑی کو زخمی بھی کرنا پڑے تو کوئی ہرج نہیں سمجھتا، اس کے برعکس سیاست گفتگو، دلیل اور ذہنی سوچ بچار کا کام ہے، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی اپنے زمانے کے بہترین قانون دان تھے،گفتگو کا فن جانتے تھے، اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء علیہ سلام کو بھی لیڈر شپ کوالٹی دی، انہیں خوش اخلاق بنایا، یہی لیڈر شپ کی پہچان ہوتی ہے، مگر آج کل ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے، ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں، ہمارے سیاسی رہنماء دنیا کے بہترین جگت باز ہیں، اس میں کسی کو استثناء نہیں ہے، عمران خان جب سے سیاست میں آئے ہیں، سیاست میں کرکٹ کی اصطلاح لائے ہیں، ان سے پہلے اختر رسول اور سرفراز نواز بھی انتخابی عمل میں شریک رہے ہیں مگر ان دونوں نے کبھی کھیل کی اصطلاحات اپنی انتخابی کارنر میٹنگز استعمال نہیں کی تھیں، عمران خان نے بات کی ایمپائر سے شروع کی کہبس اب ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے والی ہے، اسی طرح وہ باؤنسر، ایل بی ڈبلیو جیسی اصطلاحات بھی استعمال کرتے رہے، عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ کرکٹ میں غیر جانب دار ایمپائر کا تصور وہی لائے، باالکل ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ ان دنوں عالمی کرکٹ میں مسائل تھے، غیر جانب دار ایمپائر کا مطلب مقامی ایمپائر پر عدم اعتماد تھا، اگر آج ہم دنیا کر کرکٹ کی نظر سے دیکھیں تو2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کے دورے سے واپسی پر کہا کہ انہیں ایسی کامیابی مل گئی جو کر کٹ کے عالمی کپ سے بھی بڑی ہے، ان کی وطن واپسی کے چند ہفتوں کے بعد پانچ اگست2019 آگیا، جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر ڈاکٹر خالد محمود اسے کشمیر کی تقسیم کی ابتداء کہتے ہیں، آذاد کشمیر کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس بارے میں اپنی رائے ضرور عوام کے سامنے رکھیں، تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ آخر ہے کیا؟ اور یہ عالمی کپ کس کے ہاتھ میں ہے، عمران الیون نے اقتدار میں آنے سے پہلے کوہِ ہمالیہ سے بھی بلند و بالا دعوے کیے پہلے سو دنوں میں ہی کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دیں گے،صحت اور تعلیم مفت کر دیں گے، گرین پاسپورٹ کو دنیا میں اعلیٰ مقام دلائیں گے۔

(جاری ہے)

لوگ باہر سے نوکریاں کرنے پاکستان آئیں گے، اب تین سال گزر جانے پر لگ رہا ہے کہ یہ اعلانات شاید حفیظ شیخ جیسے لوگوں کے لیے تھے جنہیں پاکستان میں نوکری ملی، پاکستان میں ان تین سالوں لاکھوں محنت کش، مزدور بیروزگار ہوئے ہیں، یہاںآ زادی اظہار پر پابندیاں، جی ڈی پی منفی اعشاریہ چار پر ،کرپشن میں 7 درجے اضافہ اور گرین پاسپورٹ کی قدر میں چار درجے کمی ہو گئی، معیشت یوں تباہ حال ہوئی کہ 71 سالوں میں جتنی مہنگائی ہوئی صرف تین سالوں میں اس میں چار گنا اضافہ ہوگیا،مودی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا اور ہماری خارجہ پالیسی روایتی دیرینہ دوستوں سے بھی محروم،اپوزیشن کے خلاف نفرت انتقام اور گالی گلوچ کی سیاست کے باعث ملک کو شدید سیاسی عدم استحکام سے دوچارہے اچھی ٹیم بنانے کے ماہر ہونے کے دعویدار کھلاڑی بدل بدل میچ کھیل رہے ہیں کرکٹ کی زبان میں بات کریں تو حکومت بوکھلاہٹ میں بیسیوں مرتبہ ہٹ وکٹ ہوچکی ہے اپنی ہر ناکامی پچھلی حکومتوں کے سر تھوپی جارہی ہے، اب تاریخ کے ایمپائر کے فیصلے کا انتظار ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :