مریم نواز کا سیاسی سفر

اتوار 1 نومبر 2020

Mohammad Bashir

محمد بشیر

محترمہ مریم نواز سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی بڑی صاحبزادی ہیں جو اس وقت سیاست کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے میں مصروف ہیں۔ عام جلسوں میں ان کی تقاریر  مخصوص طرز تخاطب اور پر اعتماد لہجے کے باعث ناظرین اور سامعین کو اپنا گرویدہ بنا رہی  ہیں۔ پرکشش شخصیت کی مالک مریم نواز کا انداز خطابت ایک طرف عوام میں جوش و جذبہ پیدا کررہا ہے اور دوسری طرف ایوان اقتدار کے مکینوں کی نیندیں اڑانے میں مصروف ہے۔

حکومتی ترجمان اور  وزرا  یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسز کرکے ان پر طنز و تنقید کے نشتر برسانے میں مصروف رہتے ہیں لیکن وہ ان کے تمام الزامات کو نظر انداز کرکے صبر اور استقامت کے ساتھ اپنے والد کے بیانیے کو أگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔  وہ نہ گھبراہٹ کا شکار دکھاہی دیتی ہیں اور نہ غصہ ان کے چہرے پر دکھاہی دیتا ھے۔

(جاری ہے)

اور یہی خوبی ان کو وزیراعظم اور ان کے رفقاء پر ممتاز کرتی ہے۔

مریم نواز اور دیگر اپوزیشن لیڈر اپنی تقاریر میں دن بدن بڑھتی ہوٸ مہنگاہی اور حکومتی ناکامی  کا ذکر کرتے ہیں لیکن حکومتی ترجمان  ان کو ملک دشمن, بھارت نواز اور غدار ثابت کرنے میں اپنی تواناہیاں صرف کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت بری قیادت اور نااھل ٹیم  کی وجہ سے ہر میدان میں خواہ معاشی ہو اقتصادی ہو یا خارجہ امور ہو یا عوام کو ریلیف دینا ہو بری طرع ناکام ہوچکی ہے۔

اسی لہیے وزراء اور ترجمانوں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا لہذا وہ اپوزیشن پر ذاتی نوعیت کےالزام لگانے میں مصروف رہتے  ہیں۔
اگر أہین کی کتاب کو کھول کر پڑھا جاہے تو مریم نواز یہ بات کہنے میں حق بجانب دکھاہی دیتی ہیں کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر اپنے فراہض منصبی ادا کرنے کا پابند ہے ۔ اور کوہی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے امور میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

۔ قاہداعظم محمد علی جناح نے بھی سٹاف کالج کوہٹہ میں افسروں سے خطاب کرتے ہوہے عسکری اداروں کی حدود طے کردی تھیں۔ لیکن ملک میں پے در پے مارشل لا نافذ ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود سے تجاوز کرکے حکومتی امور میں بے جا مداخلت کرتی رہی ہے ۔ اپوزیشن یہ بھی الزام عاہد کرتی ھے کہ اسٹیبلشمنٹ عدالتی فیصلوں پر بھی اثرانداز ہونے لگی ہے۔

اگر ملک کو ترقی کےراستے پر ڈالنا ہے اور معیشت کو بہتری کی طرف لے جانا مقصود ہے تو اسٹیبلشمنٹ  کو انتظامی امور سے علیحدگی اختیار کرکے صرف دفاعی امور پر اپنی توجہ مرکوز کرنی پڑے گی۔ یہ بات حکومت اور ادارے کو پیش نظر رکھنی ہوگی  کہ سیاستدانوں کا احتساب صرف عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ذاتی دشمنی اور عناد کو بنیاد بنا کر  یکطرفہ احتساب انصاف اور قانون کے معیار پر کبھی پورا نہیں اتر سکتا۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ نیب پوری طاقت کے باوجود کسی سیاستدان پر لگاہے گہے الزامات ثابت نہیں کرسکا اور نہ کسی کو سزا ہوہی اور نہ مبینہ طور پر لوٹی ہوٸ دولت برأمد کی گہی۔ سپریم کورٹ کا ایک بنچ بھی  خواجہ سعد رفیق کے مقدمے میں نیب کی سرزنش کرچکا ہے۔
حکومت کی طرف سے جب مریم نواز اور ان کے والد کو   مجرم اور سزایافتہ قرار دیا جاتا ہے تو وہ ان کے الزام کو یہ کہہ کر رد کردیتی ہیں کہ سزا دینے والے جج نے حکومتی دباٶ میں أکر سزا سناہی تھی جس کا ذکر سزا سنانے والے جج ارشد ملک ایک وڈیو میں کرچکے ہیں۔

نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل اسلام أباد ہاہی کورٹ میں داہر ہو چکی ہے جس کا فیصلہ مستقبل کی سیاست کے لیے بہت اہم ہوگا۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی الیکشن 2018 کے بعد سے چلی أرہی ہے۔ لیکن اب معاملات میں خرابی پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے جسے سلجھانے کے لہے تمام فریقین کو مل بیٹھ کر بات چیت کرنی پڑے گی ورنہ سیاسی ماحول خراب سے خراب تر ہوتا  جاہے گا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی  نیشنل ڈاہیلاگ کے ذریعے ایک نیا سوشل کنٹریکٹ بنانے کی ضرورت پر زور دیا ھے۔ وہ پچھلے کہی دنوں سے  تمام اداروں  بشمول فوج, اینٹیلجنس ایجنسیز , انتظامیہ , عدلیہ اور سیاستدانوں کے درمیان بات چیت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں تاکہ موجودہ  ڈیڈ لاک کی صورتحال سے نکلا جاسکے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف اس تجویز  پر أن بورڈ ہیں یا نہیں یہ  بہت جلد سامنے أجاہے گی۔


ن لیگ کی قیادت  ماضی میں مقتدر قوتوں  کے ساتھ بات چیت کرکے مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنے لہےکوہی رول پیدا کرنے کی خواہاں تھی لیکن اسے بوجوہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے نوازشریف اور مریم نواز نے مذاحمت کی سیاست کا راستہ اختیار کر لیا۔ بعض مبصرین  یہ دعوع کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی بات چیت اب بھی چل رہی ہے۔چونکہ فوج  کے خلاف نواز شریف کے بیانیے سے ن لیگ کے اکثر لیڈر متفق نہیں ہیں اس لٸے وہ فوج کے ساتھ کسی ممکنہ مفاہمت کے خواہاں ہیں
 گذشتہ روز سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے قومی اسمبلی میں ابھی نندن کی رہای کے بارے دیے گہے بیان پر ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔

سابق سپیکر نے یہ بیان مراد سعید کی طرف سے اپوزیشن راہنماٶں کو غدار کہنے کے بعد دیا تھا۔ ایاز صادق کے بیان کا جواب دیتے ہوہے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پلوامہ واقعے کا ذکر کرکے ایک نہی بحث چھیڑ دی ہے کیونکہ بھارتی میڈیا فواد چوہدری کے بیان کو بنیاد بناکر پاکستان پر الزام تراشی کرنے میں مصروف ہے۔ تنقید نگاروں کے مطابق وفاقی وزرا اور معاون خصوصی سردار ایاز صادق کے بیان کو پریس کے سامنے دھرا کر ایک ہیجان پھیلا رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ھے کہ حکومت فوج اور اپوزیشن کو أپس میں لڑانا چاہتی ھے۔

وفاقی وزرا اور ترجمانوں کا جارحانہ رویہ اور اس طرع کے نامناسب بیانات جلتی پر پٹرول ڈالنے کے مترادف ہیں۔ فواد چوہدری کے پلوامہ واقعے پردیا گہے  بیان کو بھارتی میڈیا اچھالنے میں مصروف ہے۔ اس طرع کا بیان صرف  وزیر خارجہ یا وزیر دفاع کو دینے کا اختیار ہے ۔ وفاقی وزرا کے حد سے زیادہ جارحانہ اور بے تکے بیانات نے ملک میں ایک انتشار کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے جو ملکی سلامتی اور جمہوریت کے لٸے نیک شگون نہیں ہے۔ ان بیانات سے یہ ظاہر ہورھا ھے کہ وہ ابھی تک کنٹینر پر کھڑے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ  اپنے وزرا کو کنٹرول  کرے  تاکہ سیاسی ماحول پرسکون  ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :