مشترکہ مفادات کونسل کا اہم اجلاس

جمعرات 26 دسمبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں مردم شماری کے مسائل، پیٹرولیم پالیسی میں ترمیم اور پانی کی آمدنی کی تقسیم کافارمولا زیربحث آیا۔ 
پانی کا مسئلہ ابھی بھی صوبوں اور شہروں کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے اپنی جگہ موجود ہے، شہر کراچی کے لیے پانی کی کمی کئی سالوں سے وجہٴ اختلاف ہے، واٹر بورڈ کے مطابق کراچی کو روزانہ 1200 کیوسک پانی درکار ہے۔

لیکن ہر طرح کی رکاوٹ کے بعد ضرورت سے آدھا پانی دستیاب ہے۔ اس کمی کو پورا کرنا حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے، کیونکہ ارسا کے مطابق وفاق کی جانب سے صوبوں کا حصہ مقرر کیا گیا ہے اور اپنے شہروں کو پانی کی فراہمی کا فارمولا طے کرنا صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ 
وفاق اور خاص طور پر تحریک انصاف کی حکومت کراچی کے عوام کے مسائل کا حل اور پانی کے مسئلے پر خاطر خواہ پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

کراچی کے اراکینِ اسمبلی اس سلسلے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں ۔
مردم شماری کے نتائج میں سب سے زیادہ تحفظات بھی شہر کراچی کے تھے بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سندھ کے شہری مکمل طور پر تحفظات کا شکار ہیں۔ سندھ دیہی اور شہری کی آبادی میں بہت فرق آچکا ہے۔ لیکن مردم شماری کی نتائج مختلف آنے پر ایم کیو ایم خاص طور پر سراپا احتجاج رہی، اگر سندھ شہری کی حقیقی آبادی کا تعین کردیا جائے تو واضح طور پر وہاں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد سندھ دیہی سے زائد ہونے کا امکان ہے۔

اس کے بعد صوبہ سندھ کی وزارت اعلیٰ سندھ دیہی کے ہاتھ سے نکل جانے کے قوی امکانات ہیں۔ کراچی کی آبادی 25 ملین سے زائد بتائی جارہی ہے اسی لحاظ سے اس کو وسائل مہیا کرنے ضروری ہیں۔ کراچی کا اس حوالے سے مقدمہ بہت مضبوط ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ کرنے میں تاخیر سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتی ہے اور اس میں سیاست کی منفی سوچ بھی کارفرما ہے۔ 
اب جبکہ سندھ شہری ایک سیاسی جماعت کے زیراثر نہیں تو اس میں ملا جلا مینڈیٹ موجود ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ وفاق پاکستان اس حوالے سے حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہے۔ 
وزیراعظم عمران خان رواں ہفتے کراچی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر وہ تشریف لائے تو حسب سابق وہی مسائل زیربحث ہونگے جو گذشتہ کئی برسوں سے التواء کا شکار ہیں۔ ابھی تک ان مسائل کے حل کا کوئی قابل قبول فارمولا طے نہیں ہوسکا، صوبے اور وفاق میں تعلقات کا اتار چڑھاؤ، سیاسی پارٹیوں کے تنازعات اور نیب کی کاروائیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار رہے ہیں۔

عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی کسی سے تعاون پر تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے، کئی منصوبے آہستہ آہستہ وسائل کا ضیاع کرکے بند کیے جاچکے ہیں، جن میں کراچی سرکلر ریلوے اور K-IV کا منصوبہ نمایاں ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ آ ئین پاکستان میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیارات بلدیات اور صوبائی حکومت کے درمیان وجہٴ تنازع بن جاتے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ماہرین کا ایک گروپ اس پر کام کررہا ہے تاکہ آئین میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا جاسکے۔ ان کے مطابق ان کی پارٹی آرٹیکل 190A میں ترمیم کے لیے وفاق اور دیگر پارٹیوں کو یہ مسودہ پیش کرے گی اس کے بعد وفاقی صوبائی افسران کے کیڈر کے ساتھ بلدیاتی افسران کا کیڈر بھی متعارف کروانے کا مطالبہ کیا جائے گا کیونکہ دنیا بھر میں عوامی مسائل کے حل میں بلدیات ہی کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنائی جانے والی متنازع سزا کی مذمت میں ایک ریلی کا اہتمام کیا اور اس حوالے سے ان کے قائدین نے پرویز مشرف کے حق میں تقاریر کیں اور انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کے فیصلے سے پیراگراف 66 حذف کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔ 
سابق صدر پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا ساتھ کوئی ڈھکا چھپا نہیں، یہ سابق صدر ہی تھے جنہوں نے اپنے دور اقتدار کے آغاز میں ہی ایم کیو ایم کی سرپرستی شروع کی اور اسے دوبارہ طاقتور بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، جب سابق صدر کو ان کے ساتھ کی ضرورت تھی تب ایم کیو ایم پیچھے ہٹ گئی تھی، اب وہ سیاسی کفارہ ادا کررہی ہے۔

 
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی برسی پر راولپنڈی میں بڑا جلسہ کرنے اور اہم اعلانات کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں پیپلز پارٹی کو فعال کرنے کی بہت کوشش کررہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا کہ دوسری سیاسی جماعت انہیں اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ ایک نقطہٴ نظر کے حامل ہیں اور اسے عوام تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے متحرک کرنا اب مشکل ہے اگر وہ نوجوان نسل کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل کرسکے تو ان کی پوزیشن مستحکم ہونے کی طرف جاسکتی ہے۔ پنجاب کی نوجوان نسل کو متاثر کرنا ان کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ جس میں کامیابی کے لیے انہیں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 
کراچی میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی اور ٹیسٹ کرکٹ کا انعقاد دنیا میں بہت بڑا پیغام ہے اور امن و استحکام پاکستان کی علامت ہے۔

دیگر کھیلوں پر بھی توجہ کی ضرورت ہے خاص طور پر کراچی میں فٹبال اور ہاکی کے میدانوں میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمد یقینی بنانی چاہیے۔ 
آرٹس کونسل کراچی میں سیاسی رنگ بہت غالب آچکا ہے، برسر اقتدار لوگ سیاست کا سہار لیتے ہوئے اپنے بہت سے متنازع معاملات پر صوبائی حکومت کی آشیر باد حاصل کیے ہوئے ہیں۔ آرٹ اور کلچر کے اداروں میں سیاسی افراد کا اس طرح عمل دخل اس کی روح کو مجروح کررہا ہے۔

شہر کے دانشور، شاعر، ادیب اور مصور اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جو کہ تشویش کا باعث ہے۔
ملک کی اقتصادیات مثبت اعشاریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے نظر آ رہی ہے، اور بہتری کے آثار نمایاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جون 2019میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستان روپیہ 164پر ٹریڈ کررہا تھا، اس میں آ ہستہ آہستہ کمی واقع ہورہی ہے۔ رواں سال مجموعی طور پر ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی گرانی 12فیصد رہی ہے۔

پی آئی اے جیسا ادارہ خسارے سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس ادارے کے آڈٹ نہ ہونے سے ساکھ متاثر ہورہی تھی۔ ادارے کے سربراہ ایئرمارشل ارشد نے دعویٰ کیا ہے کہ تین سال کے حسابات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ روس کی جانب سے مثبت اشارہ مل رہا ہے کہ پاکستان اسٹیل بھی بحالی کا سفر جلد شروع کرے گی۔ 
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ، مدارس کے حوالے سے عملدرآمد کیے گئے اقدامات پر رپورٹ مانگ رہا ہے، صوبہ سندھ میں بھی کئی مدارس کی فہرست تیار ہوئی تھی، وزارت داخلہ سندھ نے اس حوالے سے کوئی رپورٹ جاری نہیں کی۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :