ویلڈن نواز شریف !!

اتوار 17 مارچ 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اگست کے آخر میں قائد اعظم کی صحت اچانک خراب ہو گئی ، ایک دن انہوں نے فاطمہ جناح کی آنکھوں میں غور سے دیکھا اور بولے ”فاطی اب مجھے زندہ رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔“یکم ستمبر کو ڈاکٹر الہی بخش نے انکشاف کیا قائد اعظم کو ہیمریج ہو گیا ہے انہیں کراچی لے جانا چاہییے کوئٹہ کی بلند ی ان کے لیے اچھی نہیں ہے، پانچ ستمبر کو بلغم کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایا بلغم میں نمونیہ کے جراثیم موجود ہیں۔

انہیں کراچی لے جانے کے لیے سٹریچر پر ڈال کرطیارے تک لایا گیاتو عملہ انہیں سلیوٹ کرنے کے لیے قطار میں کھڑاتھا، قائد نے بمشکل ہاتھ اٹھا کر ان کے سلام کا جواب دیا ۔کراچی پہنچنے پر ان کے ملٹری سیکرٹری کرنل جیفری ناولز نے ان کا استقبال کیا ۔قائدکو سٹریچر پر لٹا کر ایمبولینس تک لایا گیا، ایمبولینس نے ابھی تین چار میل کا سفر ہی طے کیا تھا کہ وہ اچانک رک گئی ۔

(جاری ہے)

فاطمہ جناح کو بتایا گیا کہ ایمبولینس کا پٹرول ختم ہو چکا ہے۔فاطمہ جناح ایمبولینس میں داخل ہوئیں تو قائد نے ہاتھ کو حرکت دی اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا،فاطمہ جناح نے جھک کر کہا ”ایمبولینس کا انجن خراب ہو گیا ہے “اور قائد نے آنکھیں بند کر لیں۔ کراچی میں عموما تیز سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے درجہ حرارت قابل برداشت رہتا ہے لیکن اس دن ہوا بھی بالکل بند اور گرمی نا قابل برداشت تھی۔

بے شمار مکھیاں قائد کے چہرے پر بھنبنا رہی تھیں اور ان کے ہاتھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ مکھیوں کے حملے سے خود کو بچا سکیں۔ قریب ہی مہاجرین کی سینکڑوں جھگیاں موجود تھیں جہاں مہاجرین اپنے کاموں مصروف تھے، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کا وہ قائد جس نے ان کو ایک وطن دیا ان کے درمیان ایک ایسی ایمبولینس میں بے یار و مددگار پڑا ہے جس کا پٹرول ختم ہو چکا ہے۔

ایمبولینس کے پاس سے گاڑیاں ہارن بجاتی گزر رہی تھیں اور قائد ایک ایسی ایمبولینس میں بے حس و حرکت پڑے تھے جو ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھی۔ خدا خدا کرکے ایک اور ایمبولینس آئی ، قائد کو نئی ایمبولینس میں منتقل کیا گیا اور یوں یہ قافلہ گورنر جنرل ہاوس کی طرف روانہ ہو ا۔گورنر جنرل ہاوٴس پہنچنے کے بعد ڈاکٹرز نے ان کا طبی معائنہ کیا اور آرام کا مشورہ دے کر چلے گئے۔

قائد دو گھنٹے تک بے حس و حرکت پڑے رہے ، دوگھنٹے بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں ، مس فاطمہ جناح کی طرف دیکھا ، سر اور آنکھوں کے اشارے سے انہیں قریب آنے کا کہا اور زیر لب بڑبڑائے ”فاطمی خدا حافظ “ اور اس کے ساتھ ہی تاریخ کا ایک سنہری باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ۔
یہ وہ قائد اعظم تھے جن کی اصول پسندی کی تاریخ گواہ ہے ، ایک ایسا انسان جس کا کرداربرف سے بھی اجلا، صاف اور شفاف تھا لیکن ہم نے اس عظیم انسان کے ساتھ کیا کیا ، ہم نے آخری وقت میں خراب ایمبولینس بھیج کر اسے فٹ پاتھ پر ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کر دیا ۔

آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہم نے ہمیشہ اپنے محسنوں اور اپنے ہیروز کے ساتھ بد سلوکی کا مظاہرہ کیا ، برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد کا سہرا محمد بن قاسم کے سر جاتا ہے ، اگر آج ہم مسلمان ہیں تو اس کی وجہ محمد بن قاسم ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ محمد بن قاسم کا انجام کیا ہوا تھا ۔اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک حجاج بن یوسف کو سخت ناپسند کرتا تھااور محمدبن قاسم حجاج بن یوسف کا بھیجا تھا، سلیمان نے عنان حکومت سنبھالتے ہی یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بناکر بھیجا اوراسے حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو۔

محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے دمشق بھیج دیاگیا، سلیمان نے پہلے انہیں واسط کے قید خانے میں قید کیااور پھر ان کے قتل کے احکامات جاری کر دیے ، حضرت عمربن عبدالعزیز کے سمجھانے پر نادم ہوااور قتل کے احکامات کی واپسی کا خط لکھ کر حضرت عمربن عبدالعزیز کے حوالے کردیا، عمربن عبدالعزیز واسط کے قریب پہنچے تو دیکھا لوگ جنازہ اٹھائے آرہے ہیں، پتا چلا کہ محمد بن قاسم کو جیل میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا ہے ۔

آپ طارق بن زیاد کو دیکھ لیں ، طارق بن زیاد اسلامی تاریخ کا مشہور جرنیل تھااورہم آج تک طارق بن زیاد کی بہادری کی مثالیں دیتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ خلیفہ ولید بن عبد الملک نے طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر دونوں کو آخری عمر میں معزول کر دیا تھا اور طارق بن زیاد نے اپنے زندگی کے آخری ایام مساجد کے باہر بھیک مانگتے گزارے تھے۔

آپ دور نہ جائیں پاکستان کو دیکھ لیں ، ہم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھنے والے بھٹو کے ساتھ کیا کیا، ہم نے امریکہ کو افغانستان میں الجھا کر چپکے سے ایٹمی طاقت پر کام کرنے والے ضیا ء الحق کے ساتھ کیا کیا اور ہم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے اصل ہیر و ڈاکٹر عبد القدیر کے ساتھ کیا کیا ۔میں نواز شریف صاحب کو اسلامی تاریخ کے ان عظیم کرداروں کے مماثل قرار نہیں دیتا لیکن میں انہیں اس سلوک کا مستحق بھی نہیں سمجھتا جو ان کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے ۔

بادی النظر میں ان پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا، صرف منی ٹریل نہ دینا ایسا جرم نہیں کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے انسان کو اس طرح عبرت کا نشان بنا دیا جائے ۔ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کا اصل جرم طاقت کے مراکز میں اپنا حق مانگنا ہے، آئین توڑنے سے بڑھ کر اور جرم کیا ہو سکتا ہے لیکن کیا پاکستانی عدالتیں بغاوت کے مجرم کو پاکستان لا کر اسے اس طرح عبرت کا نشان بنا سکیں گی۔

نواز شریف صاحب عزیمت کے جس راستے پر چل نکلے ہیں امید ہے و ہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، اگر ہٹیں گے بھی تو انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا سوائے اس کے کہ اب تک جن اصحاب بصیرت کے دلوں میں ان کا مقام بڑھا ہے وہ دھڑام سے نیچے گر جائے گا۔ حالات یہی بتا رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب میں اصل لیڈر کی سپرٹ پیدا ہو چکی ہے ، وہ اپنے رب پر بھروسہ کر کے خو د کو حالات کے سپرد کر چکے ہیں ، بار بار اپنوں کے سمجھانے کے باوجود وہ اس موڈ میں نہیں کہ موجودہ حکومت سے علاج کی بھیک مانگیں ، وہ جیل سے باہر علاج کرواکرذلت کا طوق گلے میں ڈال کر زندہ رہنے کی بجائے جیل میں مرنے کو تیار ہیں دوسرے لفظوں میں وہ گیڈر کی سوسالہ زندگی کی بجائے شیر کی ایک دن کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور جب کسی لیڈر میں یہ سپرٹ پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ہرا نہیں سکتی ۔

نواز شریف صاحب کے ساتھ جو ہو رہا ہے شاید یہ حوادث زمانہ کی چال تھی اور ایسی چالیں ذیادہ دیر تک نہیں چلا کرتیں ، یہ انسان کے صبر اور طاقت کا امتحان لے کر رخصت ہو جاتی ہیں ا ور نواز شریف صاحب اس امتحان میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ میرا حسن ظن ہے کہ ملک کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ آج بھی نواز شریف صاحب کو مظلوم سمجھتا ہے اور ان کے موٴقف کو درست سمجھتا ہے وہ الگ بات ہے کہ حالات کے جبر نے انہیں خاموش رہنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔

میرا نہیں خیال کہ یہ سطور نوازشریف صاحب تک پہنچیں گی لیکن میں پھر بھی ان کی ہمت اور جرائت کو سلام کرتا ہوں ،ا نہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اور جس طرح کے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اس رویے نے ان کے سیاسی مخالفین کو بھی پریشان کر دیا ہے ۔ سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ مگر ہمیں کسی کی عظمت کردار کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :