آؤ بچوں سیر کریں نئے پاکستان کی

پیر 10 اگست 2020

Muhammad Riaz

محمد ریاض

25 جولائی 2018کی سہانی رات جس دن خطہ ارض پاک کے باسیوں نے پرانے پاکستان سے آزادی حاصل کرتے ہوئے نئے پاکستان میں قدم رکھا، تحریک نیا پاکستان کی جدوجہد کی لازوال داستان جوکہ اب مطالعہ نیا پاکستان کا حصہ بھی بن چکی ہے۔
 نئے پاکستان بننے کے ٹھیک دو سال بعد سوچا کہ بچوں کو نئے پاکستان کی سیر ہی کروادی جائے، جس نئے پاکستان کی جدوجہد میں روڈ بلاک، دھڑنے، مارکٹائی، لاک ڈاؤن، سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز، گیس و بجلی کے بلوں کو جلانا، ٹال ٹیکس پلازوں پر نوجوانان نیا پاکستان کا بغیر ٹال ٹیکس ادا کئے اور دھمکیاں لگاتے ہوئے گزر جانا، ڈی جے بٹ کی دھنوں پر ٹھمکے لگاتی ہوئی نوجوان نسل، گونواز گو کے شاندار نعرے، عطاء اللہ خان عیسی خیلوی کے خون میں جوش پیدا کرنے والا ترانہ ”جب آئے گا عمران،،، بنے گا نیا پاکستان“ ، عمران اسماعیل کا ”تبدیلی آئی رے تبدیلی آئی رے“ کا خون گرمانے والا ترانہ نے میڈم نورجہاں کے 1965 کی انڈیا پاکستا ن جنگ کی یاد تازہ کی۔

(جاری ہے)

نئے پاکستان کی جدوجہد میں رکاوٹ ڈالنے والے پولیس کے نوجوانوں و آفیسرز کی پھینٹی تک لگا دی گئی، یہا ں تک کہ پرانے پاکستان کی چور ڈاکوؤں والی پارلیمنٹ پر حملہ کردیا گیا، اور رہی سہی کسر پرانے پاکستان کے قومی ٹی وی چینل PTV پر حملہ کرکے پوری کردی گئی۔
آؤ بچوں سیر کریں پھر نئے پاکستان کی اور دیکھیں کہ ہم نے نئے پاکستان میں کیا کچھ حاصل کیا جوکہ ہم پرانے پاکستان کے کرپٹ، چور ڈاکو حکمرانوں کے دور حکومت میں حاصل نہ کرسکے تھے:
یاد رہے پرانے پاکستان کے حکمران چور بھی تھے، کرپٹ بھی تھے، کک بیکس بھی لیتے تھے، انڈیا کے یار بھی تھے، ملک دشمن بھی تھے، سیکورٹی رسک بھی تھے، اقربا پروری بھی کرتے تھے، لوٹ ماربھی کرتے تھے، مگر نئے پاکستان کے حکمران نہایت شریف، دیانتدار، سخی، کرپشن سے پاک ہیں، تو پھر ہوجائے نئے پاکستان کی سیر:
تین ماہ پہلے پکنے والی گندم کا ریٹ 1,400 روپے سے شروع ہوکرٹھیک تین ماہ بعد 2,100 تک پہنچ چکا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ وزیر خوراک کو بھی نہیں پتا چل رہا ہے کہ 60 لاکھ میٹرک ٹن خریدی گئی گندم کہاں چلی گئی، اللہ نہ کرے کہ کہیں سردیاں آنے تک وطن عزیز میں گندم کی قلت کا شدید بحران نہ پیدا ہوجائے۔
آٹا چکی مارکیٹ میں 65 روپے سے 75 روپے فی کلوگرام پر پہنچ چکا ہے۔
بازار میں روٹی ، نان کی قیمت نے غریب بندے کی جیب پر بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔
چینی80روپے سے 90 روپے فی کلوگرام میں مل رہی ہے۔


آٹافلورملز والا سرکاری ریٹ 860 روپے فی 20 کلوگرام مگر مارکیٹ سے مشکل ہی سے ملتا ہے۔
گھی 215 روپے سے زائد فی کلوگرام مل رہا ہے۔
مرغی کا گوشت225 روپے فی کلوگرام سے نیچے ہی نہیں آرہا۔
مرغی کا انڈا گرمیوں میں بھی 10 روپے سے کم پر نہیں ملتا۔
500 روپے کا نوٹ لے کر بازار دال ماش، دال چنا، دال مسور، بیسن خریدنے نکلیں تو واپس آپکے ہاتھ میں Lay's کی چپس خریدنے کے ہی پیسے بچتے ہیں۔


گلی کوچوں، سڑکوں کی صفائی ستھرائی کی حالت ناقابل بیان ہوچکی ہے۔
ایک تولہ سونا 115,000 روپے میں مل رہا ہے۔سونا مردوں پر تو حرام تھا ہی اب عورتوں کے لئے بھی حرام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ڈالر167 پاکستانی روپے میں مل رہا ہے۔
پاکستانی روپے کی بے قدری اس حد ہوچکی ہے کہ افغانی روپیہ بھی پاکستانی روپیہ کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے مذاق اُڑا رہا ہے۔


اسٹاک ایکس چینج 100انڈیکس35,000 سے 37,000 تک دھکے کھار رہا ہے۔ یاد رہے پرانے پاکستان میں 100 انڈیکس 53,000 کی بلندیوں کو چھو رہا تھا مگر اس وقت اسی اسٹاک ایکس چینج میں کرپٹ حکمران کے خلاف ” گو نواز گو“ کے نعرے لگا کرتے تھے۔
مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو ایک پوائنٹ سے نیچے صفرکو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے منفی رجحان کی طرف گامزن ہے۔
پاکستان انڈسٹریل پروڈکشن انڈیکس گروتھ اس وقت منفی سطح پر آچکی ہے۔


فارن ڈرایکٹ انوسٹمنٹ تنزلی کا شکار ہوچکی ہے۔
بیرونی قرضہ جات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔نیا پاکستان کی حکومت نے پچھلے سال ملکی تاریخ میں سے سے زیادہ 13 ارب 20 کروڑ ڈالر کا بیرونی قرضہ لیا اور ایک سال میں سب سے زیادہ بیرورنی قرضہ لے کر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام رجسٹر کروانے کی کوشش میں ہے۔
ٓادویات کی قیمتیں آئے روز بڑھ رہی ہیں۔

حکومتی کنٹرول نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
بجلی کے بلوں سے عوام کا کچومر نکالا جارہا ہے۔
گیس کے بل نے گرمیوں میں بھی عام بندے کو سکون نہیں لینے دیا۔
ُپٹرول کے ایک لٹرقیمت میں پچاس فیصد ٹیکس لیا جارہا ہے۔
مزدور کی کم از کم اجرت یا تنخواہ میں ایک روپیہ کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا
سرکاری ملازمین کو سالانہ انکریمنٹ نہیں دیا گیا۔


ملازمین کی تنخواہ کے ٹیکس ریٹ میں انتہا درجہ کا اضافہ کردیاگیا۔
پاکستان ریلوے نے بیک گئیر لگالیا ہے، آئے روز حادثات، مالی خسارہ مزید بھرتا جا رہا ہے، یاد رہے پرانے پاکستان میں اگر ریلوے حادثہ ہوتا تھا تو نئے پاکستان کے لیڈران اسکی ذمہ درای ریلوے کے پرانے پاکستان کے وزیر اور وزیراعظم پر ڈالا کرتے تھے، مگر آج کل حادثات کی ذمہ دار خود عوام ہیں۔


وفاقی وزیر کے بغیر تحقیق کے بیانات نے پہلے ہی سے زبوحالی کا شکار پی آئی اے کو بیرونی دنیا میں مزید رسواء کردیا گیا
وفاقی وزیر کے الٹے سیدھے بیانات نے پی آئی اے اوربیرونی ممالک میں اپنی خدمات سرانجام دینے والے پائلٹس کو اپنی روزی روٹی کو برقرار رکھنا مشکل کردیا۔پوری دنیا میں پاکستانی پائلٹس اور پاکستانی اداروں کی بدنامی ہوئی۔


بہت سے نیم سرکاری اداروں سے ملازمین کی فارغ کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان جس معاملہ کابھی نوٹس لیتے ہیں وہ الٹا ہوجاتا ہے، جیسا کہ ادویات کی قیمت، چینی، آٹا، بجلی قیمت، پٹرول قیمت وغیرہ ان سب کا محترم وزیراعظم صاحب نے نوٹس لیا نتیجہ آپ سب کے سامنے آچکا، اب لوگ دعا کرتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کسی معاملہ کا نوٹس نہ ہی لیں تو بہتر ہے۔


پرانے پاکستان میں حکمران چور تھے باقی سب ایماندار تھے مگر نئے پاکستان میں حکمران ایماندار ہیں باقی سب چور اور مافیا نظر آتے ہیں۔ پرانے پاکستان میں ہر برے کام کے ذمہ وار حکمران ہوا کرتے تھے مگر نئے پاکستان میں ہر برائی، کرپشن، لوٹ مار کے ذمہ وار عوام، مافیا ہیں نہ کہ نیک حکمران۔
نئے پاکستان کی سیر کرتے ہوئے اک اور انکشاف بھی ہوا کہ نئے پاکستان کی 10 کروڑ سے زائد آبادی کے صوبہ پنجاب کو ایسے بندے کے حوالہ کردیا گیا جسکے پاس ماضی میں اک چھوٹی سی وزارت چلانے کا بھی تجربہ نہیں تھا۔

واہ رے ہماری قسمت۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اک عام، چھوٹی سی نوکری پر بھی کسی کو رکھنے کے لئے بھی کچھ ضوابط، کچھ معیارات ہوتے ہیں، مگر سب سے زیادہ حیرانی کے بات کہ اک ناتجربہ کار بندے کو پوری 10 کروڑ عوام کا حاکم بنا دیا گیا۔اور اسکا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
سب سے اہم بات اگرکسی صاحب کو نئے پاکستان میں اب بھی مہنگائی نظر نہیں آتی تو انکے لئے یہ قول زریں ہی کافی ہوگا کہ:
” خرید کر کھانے والوں کو پتا چلتا ہے کہ مہنگائی کتنی ہے۔ورنہ مانگ کر کھانے والوں کو کیا پتامہنگائی کا “
توپیارے بچوں کیسی لگی آپکو نئے پاکستان کی سیر۔ اپنی آرا سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :