دوحہ معاہدہ،کس کی جیت؟

ہفتہ 29 فروری 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

امریکہ اور طالبان کے درمیان طویل مذاکرات اور کشیدگی کے بعد معاہد ے میں طے پایا کہ امریکہ اور اتحادی چودہ ماہ میں مکمل فوجی انخلا کا عمل مکمل کریں گے اور اس کا دارومدار طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی پاسداری سے ہو گا،مذاکرات نے پاکستان نے سہولت کاری کا اہم کردار ادا کیا اور عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے ہی کہتے تھے کہ اس مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے بلکہ دورہ امریکہ کے دوران وہ پالیسی ساز ادارے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کے جنگ مسئلے کا حل نہیں اور اب پاکستان کسی کی جنگ کے لئے اپنے ملک کی سرزمین استعمال نہیں ھونے دے گا،یہی موقف پاک فوج کا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو پہلی مرتبہ بیرون ملک عزت بھی ملی اور بات ماننی بھی پڑی۔


اگرچہ اس کے پیچھے پاک فوج اور عوام کی وہ قربانی بھی شامل تھی جو دہشت گردی کے خلاف لڑ کر دنیا کو کامیاب حکمت عملی کی صورت میں دکھائی گئی۔

(جاری ہے)

ہارے ہوئے سے کوئی بات نہیں کرتا سب جیت والے کے پیچھے دوڑتے ہیں اور خوش قسمتی سے پاکستان جیتا ھوا تھا تو اس کی بات طالبان مذاکرات میں اور امریکہ کی کشمیر پالیسی میں تبدیلی کی صورت میں مانی گئی۔

دوسرا طالبان کی جیت بھی نمایاں تھی کیونکہ اتنی طویل جنگ کارپٹ بمنگ کے باوجود طالبان کھڑے تھے اور انتخابات کے باوجود عملاً کابل سے باہر طالبان کا قبضہ تھا۔ان حالات میں معاہدہ ہی وہ واحد آپشن تھا جس کی ضرورت تھی۔اس مذاکرات کے سارے عمل میں زلمے خلیل زاد کی پاکستان آمد آرمی چیف اور وزیراعظم سے مشاورت بھی کئی جاتی رہی لیکن افغان حکومت اس سے لاتعلق نظر آج ایک دم اشرف غنی اور مائیک پومیو کے درمیان ملاقات اور پریس کانفرنس معاہدے کو مزید مضبوطی کا عندیہ ھے۔

تاہم طالبان میں اب بھی کچھ تحفظات باقی ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو حصہ دار نہیں سمجھتے دوسری طرف بھارت کی یہ مسلسل کوشش ہے کہ معاہدہ کامیاب نہ ہو کیونکہ وہ طالبان کی کامیابی کو پاکستان کی کامیابی سمجھتا ہے حالانکہ فیصلے اور فاصلے بڑھ چکے ہیں اسلام آباد،ماسکو،اوع بیجنگ میں بھی معاہدے کی جزویات اور طریقہ کار پر اختلاف پایا جاتا ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ معاہدہ ہونا چاھئے اس پر سب متفق ہیں افغان حکومت نے اسے تاریخی قرار دیا ہے لیکن بھارت اور افغان حکومت میں شرارت کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔

 دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی فکر اور عمل میں کتنا فرق ہے یا القاعدہ داعش اور طالبان کے درمیان کتنے فاصلے ہیں،کیذ طالبان وہی فکر رکھتے ہیں جو بامیان میں بدھا کے مجسمے گرا کر اظہار کیا گیا تھا یا فٹبال میچ پر پابندی اور گراؤنڈ میں سر قلم کرنے کی سزا دے کر اپنے آپ کو دنیا ث لیے متنازع بنایا۔
افغان مسئلہ کا دیر پا حل صرف غیر جانبدار انتخابات کے بعد مکمل اصلاحی حکومت کے قیام سے ممکن ہے وگرنہ ایک شدید انتشار کا بھی خطرہ ہے جس کو فی الحال امریکہ پہلے کی طرح پلٹ کر بھی نہیں دیکھے گا۔

ایک اور ایجنڈا بھی پس پردہ پل رہا ہے اور وہ ھے سی پیک کو ناکام کرنا جس میں امریکہ اور انڈیا دونوں ایک خفیہ سوچ رکھتے ہیں لیکن داد ھے طالبان کو کہ جس نے اتنی بڑی فوج اور طویل جنگ کو شکت دی آج ملا برادر اور زلمے خلیل زاد نے امن معاہدے پر دستخط کیے یہ وہی ملا برادر تھے جو پاکستان کی قید میں تھے جنہیں مذاکرات کے لیے رہا کروایا گیا ان کو ٹیررسٹ کی فہرست سے نکالا سج 19 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ آخر کار مذاکرات سے ہوا کیا بھارت۔

 کشمیر میں اس معاہدے سے سبق حاصل نہیں کرے گا۔؟ امریکہ کی واپسی پاکستان کی کوشش سے ہو پا رہی ث اسی لیے تو ٹرمپ انڈیا میں کھڑے ہو کر پاکستان اور عمران خان کو دوست کہتا ہے بات ایک بندے نے سوچی اور بہتر سوچی اس لئے کامیاب معاہدہ ہوا پاکستان کی سفارتی کوششوں کے بدلے کیا ملتا ہے یہ تو بعد کی بات ھو گی لیکن طالبان کی ثابت قدمی اور پاکستان کی کوشش کی جیت ہوئی جسے مکمل فائدے مند بنانے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ھو گی تاکہ سی پیک بھی آگے بڑھے اور 40 سال سے پاکستان میں مقیم ھمارے مہمان بھی واپس وطن جا سکیں کیونکہ کہ افغان باقی کہسار باقی۔الحکم للہ!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :