فطرت کا انتقام کیسے روکیں ؟

اتوار 8 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

عالمی ادارے جن بڑے خطرات کا عندیہ دے رہے ہیں، ان میں ابادی کا بڑھتا ہوا ھجوم، ماحولیاتی تبدیلی، نیوکلیئر جنگ، اور اب "فیک نیوز" کو بھی ان خطرات میں شامل کر لیا گیا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں نے انسانی، حیوانی اور سمندری اور فضائی سب مخلوق کو مشکل میں ڈال دیا ھے، بدقسمتی سے ان بڑے خطرات کا موجب بھی خود انسان ھے، جس نے فطرت سے بغاوت کر رکھی ہے، اس بغاوت میں فطرت بھی چن چن کر انسان سے بدلے لیتی ہے، ماحول کو پراگندہ کرنے سے قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے، تیزابی بارشیں، سردی، گرمی کی شدت اور دیگر مسائل جنم لے چکے ہیں، کرہ ارض کو تنگی دینے والا انسان، براہ راست فطرت کے بھیانک انتقام کا شکار ہے، بین الاقوامی ادارے اس ماحولیاتی تبدیلیوں پر معاہدے بھی کرتے ہیں، زور و شور سے سمینار اور کانفرنسیں بھی ھوتی ھیں مگر اہداف کے حصول میں خود رکاوٹ بھی بن جاتے ہیں ، 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا، جو 2015ء میں پیرس میں ھوا تھا، عین امریکی انتخابات کے روز امریکہ باقاعدہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہو گیا، یہ انتہائی حیران کن بات ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کا سب سے زیادہ دعویدار خود عالمی ماحول تباہ کرنے کے درپے ہے۔

(جاری ہے)

پیرس میں ھونے والے معاہدے میں طے پایا تھا کہ اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھا جائے گا اور اسے 1.5ڈگری تک لے جانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔پیرس میں ھونے والے معاہدے کو "کیوٹو"کے نام سے جانا جاتا ھے،صدر کلنٹن کے ھوتے ھوئے 1997ء میں کیوٹو کو امریکی سینیٹ سے منظوری نہیں ملی تھی، اس لئے یہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا جو 2015ء میں پیرس ماحولیاتی کانفرنس میں طے پایا تھا۔

سب امریکہ کی اندرونی سیاست نے اس معاہدے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے، امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی مواد، فضلے اور مشینوں کے ذریعے ماحول میں خلل ڈال رہا ہے، ایٹمی فضلہ دنیا کے کئی غریب ممالک کے فطری مظاہر میں پھینکا جاتا ہے، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کی زندگی اجیرن ھے۔اس معاہدے سے الگ ہو کر اس نے ثابت کر دیا کہ وہ عالمی قوانین یا بندھن سے آزاد ایک دنیا چاہتا ہے۔

جہاں سب اس کی مانیں اور وہ کسی کی نہ مانے، علمی اور تحقیقی کمزوریوں نے دنیا کو عملی طور پر اسی نہج پر ڈالا ھوا ھے، اور یہ تب تک ھوتا رہے گا جب تک علمی اور تحقیقی فرق ختم ہو جائے گا۔1800ء سے آغاز میں دنیا کی ابادی 1 ارب تھی جو آج 7.5 ارب سے تجاوز کر گئی ھے، اور 2100ء تک دس ارب تک پہنچ جائے گی، اس بڑے خطرے نے بجٹ ماحول میں کاری ضرب لگا رکھی ہے، یہ خود بھی ایک بڑا خطرہ ہے، پاکستان کے ایک نامور سائنسدان اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے 1952ء میں عالمی ایٹمی کانفرنس میں شرکت کی تھی اور لکھا تھا کہ میں نے آئن سٹائن کو اسی ایٹمی ایجاد پر پریشان دیکھا اور ھیرو شیما اور ناگاساکی کی تباھی پر کف افسوس ملتے وہ پریشان تھے، بظاہر انسانی فائدے کے لیے ایجاد کی جانے والا ایٹم اس کی تباہی کا باعث بنا، امریکہ ان خطرات کا مقابلہ تو کر لے گا لیکن باقی دنیا اور خصوصاً پاکستان کو ماحولیاتی تباہ کاریوں کا سب سے زیادہ سامنا ھے، جس کی روک تھام کیلئے بہت جدوجہد کی ضرورت ہے، 2015ء میں میاں نواز شریف پیرس میں کھڑے کہہ رہے تھے کہ"پاکستان ماحولیاتی تباہ کاریوں میں سب سے زیادہ متاثر ملک ھے، اور عالمی حدت پیدا کرنے والی گیسوں میں کمی کے لئے پر عزم ھے"یہ شاید لکھی ہوئی تقریر اور محض روایتی بیان تھا جو اسٹیج سے اترنے کے بعد پاکستان نہیں پہنچ سکا، جنگلات کا بے تحاشا کٹاؤ، صنعتوں میں اقربا پروری اور قوانین کا مذاق، پلاسٹک کا غیر ضروری استعمال اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، عمران خان نے خیبرپختونخوا میں ملین ٹری کا منصوبہ شروع کر رکھا تھا، جس کو عالمی ادارے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے مگر مرکز میں حکومت اس پر طنز کرتی تھی، آج عمران خان کے لگائے گئے پودے تناور ھو گئے عمران خان بھی ترقی کرتا مرکزی حکومت میں پہنچا اور کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کے تحت بلین ٹری منصوبہ شروع کر رکھا ہے، آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ بل گیٹس نے اس منصوبے پر بے مثال تعریفیں کیں اور کہا صرف پاکستان نے ماحولیاتی خطرے کو بھانپا ھے اور دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، خود عمران خان کے اعلان کے بعد پاکستان بھر میں لاکھوں لوگوں نے خود درخت لگائے، یہ سلسلہ جاری رہے تو ھم پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں میں کمی لانے کا بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں، پلاسٹک اور خصوصاً شاپنگ بیگ کے بے جا استعمال سے ماحول کو شدید خطرہ ہے، موجودہ حکومت نے اسلام آباد میں شاپنگ بیگ پر پابندی لگائی کچھ عرصہ اس پر عمل ھوا مگر آج حالات وہیں ہیں اس پر توجہ کی ضرورت ہے، ھمارا سیارہ زمین شدید ترین ماحولیاتی بحران، اور گلوبل وارمنگ کا شکار ہے، جس سے زمین کے گرد حفاظتی تہہ اوزان لیر میں شگاف پڑ چکا ہے، جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، موسم تبدیل ہو کر رہ گئے، گذشتہ کئی سال سے بے وقت بارشوں اور موسم کی شدت نے فصلوں کو متاثر کر رکھا ہے، جبکہ انسان، نباتات اور حیوانات بیماریوں کا شکار ہیں، ان حالات میں تحقیق، تربیت، شعور اور بر وقت ادراک کی ضرورت ہے جو حکومت اور عوام کو مل کر کرنی ھو گی، پاکستان نے حال ہی میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے  کام شروع کر دیا ھے جس کے تحت 2030ء تک تیس فیصد گاڑیاں بجلی پر منتقل ہو سکیں گی، جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی ممکن ہے، ماحولیاتی آلودگی میں  صنعتیں، دھاتیں، نائٹریٹ، پلاسٹک، زہریلے فاسد مادے، تیل کا اخراج، زیریلی گیسیں اور سلگتے ایندھن کا دھواں  بڑا حصہ دار ھے، جنگلات کا کٹاؤ روک کر یا نئے درخت اگا کر کسی حد تک ھم یہ خطرہ کم کر سکتے ہیں، دنیا ان خطرات کو نہیں روکے گی تو تباھی سامنے کھڑی ہے، ھماری بائیس کروڑ ابادی بے ہنگم بھی ہے اور ماحول کو تباہ کرنے میں معاون بھی ھے، امریکہ مرضی کا مالک ہے مگر فطرت تو کسی انسان کا حکم نہیں مانے گی وہ اپنا انتقام جلد یا بدیر ضرور لے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :