مولانا فضل الرحمان اور کراچی کا جلسہ

بدھ 1 ستمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

مولانا فضل الرحمان صاحب نے غسل صحت فرمانے کے بعد ، پی ڈی ایم کو پھر سرگرم کر دیا، کراچی میں جلسہ کر ڈالا اور پھر لانگ مارچ، حکومت کو دفن اور خود اقتدار کے لیے کرسی چھیننے کا عزم دہرایا ہے، لانگ مارچ وہ اکیلے بھی کر چکے ہیں، وہ کراچی سے اسلام آباد پہنچے، راستہ بھی مل گیا، لیکن کارکنوں سمیت کچھ ھم خیالوں کی امیدوں پر پانی پھیر گئے، "کسی وعدے" یا اپنے ارادے سے واپس چلے گئے، پی ڈی ایم بنا تو پہلے دن سے لانگ مارچ، استعفوں اور حکومت کو نہ مانے کا اعلان کر دیا، جس کا نتیجہ وہی نکلا کہ،"ھم حکومت کے لئے کوئی محاذ خالی نہیں چھوڑیں گے، سینٹ الیکشن میں شکست دیں گے"حالانکہ وہ اس سینٹ یا اسمبلی کو جعلی قرار دے چکے تھے ایسے ہی جیسے بے نظیر بھٹو کی حکمرانی کو حرام قرار دے چکے تھے، موصوف 2002ء میں امریکہ کے خلاف نہ بولنے کی شرط پر خیبرپختونخوا کی حکومت حاصل کر چکے ہیں، اسی "تناظر میں" وہ امریکیوں کو یقین دلاتے رہے کہ وہ وزیر اعظم بن کر ان کے ساتھ چلیں گے، آیک سفارت خانے کے پولٹیکل سیکرٹری بتا رہے تھے کہ اس دور میں جتنا مولانا فضل الرحمن صاحب امریکیوں کو قریب لانے اور خود قریب آنے کی کوشش کر رہے تھے، کوئی اور سایستدان نہیں تھا، اسی فائدے کے لیے انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے بھی سمجھوتہ کر رکھا تھا، حکومت بھی کی، افغان جنگ میں خاموش بھی رہے ، یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے، دکھ اس بات کا ھے کہ اس کا جواز وہ دین سے ڈھونڈ لیتے ہیں، بدقسمتی سے یہ ھماری مذہبی سیاست کا المیہ ہے کہ وہ ہر غلط بات، حکمت عملی اور سیاسی مفاد کا جواز مذھب سے ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ بندہ حیران، پشیمان ہو جاتا ھے،" قولا صدیدا" کا تصور ہی مٹا کر، حکمت کا نام دے دیا گیا ہے، کاش ایسا نہ ھوتا! کراچی جلسے میں پھر لانگ مارچ کا اعلان ھوا ھے اللہ خیر کرے، مولانا صاحب کو افغانستان میں طالبان کے غلبے سے ایک نیا اعتماد ملا ھے، بڑی تیزی سے انہوں نے طالبان رہنماؤں کو تہنیتی خط لکھ ڈالا، اس کو پائے استقلال میں لغزش کہیں یا حق گوئی کہ وہ ادھر بھی ہیں اور ادھر بھی، مگر قوم کو آج تک نہیں پتہ لگا کہ وہ کدھر ھیں، پہلی دفعہ عمران خان نے لوگوں کو بتایا کہ وہ دراصل کہاں ھیں؟ یہی ان کا سب سے بڑا دکھ ھے، دوسرا دکھ انہیں بہتر ھوتی ہوئی معاشی اور معاشرتی صورتحال کا ھے، خوف یہ ہے کہ کہیں 2023ء کا الیکشن بھی ھاتھ سے نہ نکل جائے، کیا عوام پی ڈی ایم کے اس فیصلے کو مانیں گے؟ کیا ماضی کوئی گواہی فراہم کرتا ہے کہ پی ڈی ایم نے کوئی سچ کر دکھایا ھو؟، صرف ایک ہی اعتماد مولانا صاحب کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ ھے "طالبان کی فتح" اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ نہیں؟ کیونکہ 2002ءمیں تو مولانا صاحب آگے پیچھے ہو گئے تھے،
پی ڈی ایم پہلے ٹوٹ چکا ہے، رہی سہی جماعتوں میں بھی اختلاف ہے، مریم نواز اور شہباز شریف الگ الگ چل رہے ہیں، کیا عمران خان درست نہیں کہہ رہے کہ" یہ این آر او مانگ رہے ہیں" اب تو اس موقف کو اور تقویت مل رہی ہے، عمران خان کو سیاست کرنا نہیں آتی، وہ بھی کرکے دکھا دی, اب حکومت بھی آخری سالوں میں داخل ھو چکی، بہتر تھا کہ وہ قوم کو کوئی پلان دیتے، صرف لانگ مارچ کی کال میں اب جان نہیں پیدا ھو گی، کورونا کے باوجود پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر رہی، شرحِ نمو چار فیصد تک پہنچی، قانون سازی ھوئی، مینوفیکچرنگ، برآمدات اور پیداواری صلاحیت بڑھ چکی ہے، گندم، چاول، آم، مالٹا اور دیگر زرعی اجناس کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ھوا ھے، ہر شعبہ بہتری کی طرف گامزن ہے، اپوزیشن مہنگائی، سماجی بہتری اور مستقبل کا کوئی منصوبہ لاتی تو عوام کان دھرتے، ایسے تو ممکن نہیں لگتا، شہباز شریف صاحب کراچی کے مسائل پر آبدیدہ، ھو رہے تھے مگر کیا وہ" شرمندہ" بھی ھوں گے؟ کیونکہ 1985ء سے لے کر 2018ءتک تقریباً 35 سال وہی لوگ اقتدار میں رہے کراچی کے بنیادی مسائل کیوں نہیں حل کیے؟ کوئی پوچھے گا، کوئی بتائے گا؟کل ہی مراد علی شاہ صاحب فرما رہے تھے، اس دفعہ ھم نے چالیس سال کے مسائل حل کر دئیے ہیں، پیپلز پارٹی 2008ء سے اب تک مسلسل اور جنرل پرویز مشرف کا دورانیہ چھوڑ کر 1990ء سے حکومت میں ہے کیا وہ کراچی کی ابادی، پانی، صفائی، سیکورٹی اور امن و امان کے مسائل حل نہیں کر سکتی تھی، جو اب کرے گی؟ اب جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے زیادہ جھوٹ اور دھوکا دہی نہیں آگے بڑھ سکتی! مسائل حل کرنے ھوں گے اور کراچی سمیت ملک کو کچھ دینا ھو گا، خطے کے حالات خطرناک ہیں، یہ بھی خیال رکھیں کہ" حملے کے لئے اڈے نہ دینے اور واپسی کا راستہ دینے میں کتنا فرق ہے؟ اس ایشو پر زیادہ سیاست نہیں کی جا سکے گی، شہباز شریف صاحب کو این آر او مل بھی جائے تو حالات بدلنے والے نہیں، عمران خان کو نکال کر آپ حکومت نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ تو اپوزیشن میں زیادہ خطرناک ہے، مل کر مسائل حل کریں گے تو آپ کا نام پھر عوام میں بن پائے گا، تضادات ، فسادات میں بدلنے کا خطرہ ہے۔

اس سے گریز ہی کریں تو بہتر ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :