آئی ایم ایف، غلامی یا حکومتوں کی نااہلی

بدھ 5 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

وزیر خزانہ شوکت ترین کا بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے ضمنی بجٹ اور آئی ایم ایف سے معاہدے کی بات واضح کی کہ کیوں قرض کے حصول کے لیے سخت شرائط ماننی پڑیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کا دباؤ ھے اس لئے اس آئی ایم ایف نے کڑی شرائط رکھی ہیں، معیشت، قرض اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ایک ایسی کہانی ھے کہ آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی، پہلے یہ سوچیں کہ آخر قرض لینا کیوں پڑتا ہے؟
پاکستان اپنے آغاز سے ہی بجٹ خسارے کا شکار ہے جس کو پورا کرنے کیلئے قرض لیا جاتا رہا، جب کہ ادائیگیوں کا توازن بگڑ جائے یا انٹرنیشنل کرنسی کا شارٹ فال ھو ان سب صورتوں میں قرض لینا پڑتا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ 1947ء سے لے کر 1990ء تک اتنا قرض نہیں لیا گیا جتنا اس کے بعد تیس سال میں لیا گیا ہے، تین سال کا جواب پی ٹی آئی کی حکومت کو دینا ہے، جو یہ کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف نہیں جائیں گے، اس لئے پوچھنے کا رخ زیادہ پی ٹی آئی کی طرف ھے, البتہ موزانہ کیا جائے تو پیپلز پارٹی آٹھ مرتبہ اور ن لیگ چار مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گئی، بلکہ ان کا معیشت چلانے کا فارمولا ہی یہ تھا، اقتدار میں جیسے تیسے آئے، قرض لیا آدھا لگایا، آدھا کھایا چلے گئے، اسی فارمولے کی تصدیق ہر ادارہ اور ہر ماہر اقتصادیات کرتا ہے، ن لیگ کے دور میں ڈالر 120 روپے تک گیا تو اسحاق ڈار صاحب نے قرض کے ڈالر مارکیٹ میں پھینکے اور ڈالر سو تک لے آئے گویا یہ ایک مصنوعی طریقہ تھا، جس کی تصدیق ماہرین معیشت بھی کرتے ہیں اور حال ہی میں ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی پروگرام" آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ" میں کیا ھے، انہوں نے تسلیم کیا کہ مارکیٹ میں پھینکا جانے والا ڈالر اگر ترسیلات زر، برآمدات یا سرمایہ کاری سے حاصل کی کیا گیا ھو تو ٹھیک ہے مگر قرض سے حاصل کیا گیا ڈالر مارکیٹ میں ڈالنے سے مصنوعی معیشت جنم لیتی ہے جس نے کبھی معیشت کو پختہ بنیاد نہیں دی اور اسحاق ڈار نے ایسا ہی کیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ درست طریقہ ھے، ھم ھوتے تو بھی ایسے ہی کرتے، پختہ بنیاد، پیدوار، برآمدات، اور سرمایہ کاری بڑھانے سے ہی ھوتی ھے، جو پیپلز پارٹی اور نہ لیگ کے دور میں مسلسل گراوٹ کا شکار تھی، یہاں تک کہ 2018ء تک بیلنس آف پیمنٹ کا بڑا بحران سامنے کھڑا تھا، پیپلز پارٹی کا ایک اور طریقہ بھی تھا کہ اسٹیٹ بینک کو اپنی ایما پر کرنسی چھاپنے پر لگا دیتے اور پیسہ ڈی ویلیو ھوتا، جس سے افراط زر اور کاغذی معیشت جنم  لیتی موجودہ  حکومت آئی تو اس کے سامنے اپنا "وعدہ اور منشور"  سامنے تھا اور ملک کا دیوالیہ بھی، ان دونوں میں سے کسی ایک کو چننا تھا، پہلے منشور پر ورکنگ شروع کی گئی، سعودی عرب اور چین سے مدد طلب کی گئی، جس سے بمشکل ایک سال نکالا جا سکا اور یوں منشور کی بجائے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدے ھوئے، اس وقت تک۔

(جاری ہے)

امریکی حکومت سے بھی تعلقات اچھے تھے اور آئی ایم ایف بھی قائل ھو گیا،  آئی ایم ایف جانے کی ایک اور وجہ بھی ہوتی ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری،صنعتی ترقی اور ملک میں کاروبار چلنا شروع ھو جاتا ھے دوسرے عالمی مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار  متاثر ہو کر کسی نہ کسی طرح پروگرام میں شامل ھو جاتے ھیں، ایک اعتماد بڑھتا ہے تیسری بات ایک بڑا حصہ ادائیگیوں کا توازن درست کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر پہلے اور آج میں فرق کیا ہے؟
ڈاکٹر عشرت حسین سابق گورنر نے کہا کہ "اصل مسئلہ کرٹببلٹی کا ھے، سابقہ حکومتوں نے آئی ایم ایف سے اعتمادی سازی کو ختم کیا، قرض لے کر واپسی اور اصلاحات نہیں کی گئیں، نہ ریونیو کولیکشن کا ٹارگٹ پورا ھوا، نہ سرمایہ کاری ھوئی، نہ صنعت لگی اور نہ ہی برآمدات میں اضافہ ھوا ہر شخص درآمد شدہ چیزیں استعمال کرنے کا عادی ںن گیا اب آئی ایم ایف جب بھی قرض دیتا ہے اس کے کچھ اپنے اور کچھ پرفیشنل اہداف ھوتے ھیں۔

جن کے حصول کے لیے وہ کریبلیٹی کے مطابق شرط رکھتا ہے، جب آپ کسی بندے کا قرض واپس نہ کریں تو کیا وہ آپ کو دوبارہ قرض دے گا؟ ہر گز نہیں اگر دے گا تو اس سے کڑی شرائط رکھے گا، سو اس مرتبہ بھی سابقہ اعتماد، امریکہ سے تعلقات اور اصلاحات کو سامنے رکھا پھر قرض دیا گیا، اسی پروگرام میں مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ یہ باتیں بالکل درست ہیں، اس حکومت اور سابق میں فرق یہ ہے کہ اس نے جو بھی معاہدہ کیا ، سب کو کھل کر بتایا بھی ھے ، پہلے بتانے کا رواج بالکل نہیں تھا، عوام آئی ایم ایف کے ساتھ ھونے والے معاہدات سے بے خبر تھے  موجودہ حکومت نے برآمدات 18 فیصد تک بڑھا دی ہیں، ٹیکس کلچر میں اضافہ ایک بڑی  بات ہے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک کو وہ خود مختاری دی جو دنیا بھر کے اسٹیٹ بینکس کو حاصل ہے تاکہ حکومت غیر ضروری کرنسی چھاپنے اور قرض لینے کا اختیار استعمال نہ کرے، اصل بات یہ ہے کہ سیاسی رہنما صرف سیاسی بیانات کی حد تک آئی ایم ایف، اور اب تو خواجہ آصف نے ایسٹ انڈیا کمپنی بنا دیا، ایک بات یاد رکھیں جب تک ھماری برآمدات، سرمایہ کاری، زراعت اور صنعتی ترقی میں اضافہ نہیں ہوگا ھمیں آئی ایم ایف جیسے اداروں کے پاس جانا پڑے گا، بعض لوگوں کی منطق ھے کہ آئی ایم ایف جہاں گیا وہاں تباہی آئی یہ بھی صرف لاعلمی ھے، ترکی کی زندہ مثال آپ کے سامنے ھے، خود کئی یورپی ممالک بھی ایسے ہیں، تباہ زیادہ تر وہ ممالک ھوئے ھیں جہاں حکومتیں براہِ راست کرپشن میں ملوث تھیں،یا طویل آمریت اور بادشاہت تھی، وہ قرض لے کر واپسی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے تھے، نہ ہی انہیں عوام کے سامنے جانا پڑتا اور نہ ہی ترقی، پیدوار کی انہیں ضرورت تھی، جس سے ملک تباہ ھوئے، بھوک اور پسماندگی میں اضافہ ھوا، موجودہ پاکستان حکومت نے 32 ارب ڈالر تک قرض سود سمیت واپس بھی کیا اور 55 ارب اس مالی سال واپس کرنا ہے جس میں برآمدات میں اضافے، ٹیکس نیٹ، مینوفیکچرنگ اور ترسیلات زر میں اضافے کا نمایاں کردار ھے، کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں آ رہی اور نہ ہی آزادی چھن رہی، صرف قرض واپسی کے لیے برآمدات، پیدوار، زراعت اور صنعت میں ترقی کی ضرورت ہے، معیشت،درست ھو جائے گی، مہنگائی بھی دم توڑ جائے گی، یہ سب کرنے کے لیے بجلی ،  گیس اور پٹرول کی ضرورت پوری کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ذخائر اور وسائل دونوں پر کام جاری ہے، امید ہے جلد بہتری آئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :