”اعلان ابراھام“۔۔۔اسرائیل ۔متحدہ عرب عمارات‘ کیا امن لاسکتاہے؟

پیر 17 اگست 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

مکاری کی سب سے خوفناک شکل کا نام سفارت کاری ہے۔ سفارت کاری کا کمال ہے کہ اس کی تمام اصطلاحیں اپنے معنوں سے بالکل الٹ تصاویر بناتی ہیں۔ ظاہری مناظر کے پیچھے کتنی متضاد اور خوفناک فلمیں چل رہی ہوتی ہیں اسکا اندازہ یا تو سفارتی کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہلانے والوں کو ہوتا ہے یا پھرکئی دھائیوں بعد اگلی نسلوں کو کلاسفائیڈ دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے ہوتا ہے۔

عالمی سیاسی منظرنامے پر ایک نئی سفارت کاری نے بظاہر پوری دنیا کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہے ماضی کے بظاہر ”دودشمن ممالک“ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی دوستی کا معاہدہ‘ جس نے مشرق وسطی ،جنوب ایشائی،وسط ایشیا سمیت دنیا کے مختلف خطوں کی سفارتی بساطوں کو اتھل پتھل کردیا ہے۔    اس دلچسپ مگر بہت ہی مکروہ سفارت کاری کاسہرا بھی عالمی مسخرے کادرجہ حاصل کرلینے والی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے سرپر باندھنے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس نئی جنگی حکمت عملی کو امن کی طرف سفر قراردیا جارہا ہے۔
13اگست 2020‘کے دن اسرائیل اور متحدہ عرب عمارات کے مابین”نئے تعلقات“ کا آغازبزریعہ ”معاہدہ ابراھام“کیا گیا ہے۔امریکہ کے توسط سے ہونے والے اس سفارتی معاہدے کا اعلان کرتے وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔

اس موقع پر صدر ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے ایک مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا کہ یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطی میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو ”التوا میں ڈال دے گا۔

معاہدے کے مطابق آنے والے دنوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وفود کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گا جن میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست فضائی معاہدوں، سکیورٹی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات اور ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں سفارت خانے کھولنے کے معاملات طے کیے جائیں گے۔ اس نام نہاد تاریخی معاہدے پر اسرائیل،یو اے ای،امریکہ ،سعودی عرب،بھارت،اومان،مصر،اردن،ایتھوپیا،بحرین اور یورپی مماک میں بہت گرم جوش ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے جواب میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے عبرانی زبان میں ٹویٹ کی ”تاریخی دن“۔امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ”یہ سفارتکاری اور خطے کی جیت ہے،انھوں نے کہا یہ عرب اسرائیلی تعلقات میں اہم پیش رفت ہے جس سے کشیدگی کم ہوگی اور مثبت تبدیلی آئے گی“۔ یعنی ایران کے گھیراؤ اور خطے کے دیگر ممالک پر دباؤ بڑھانے والی حکمت عملی کو ”کشیدگی “ کم کرنے والی پالیسی قراردیا جارہا ہے۔

اسرائیل کے ”امارات“ کیساتھ سفارتی تعلقات دراصل سعودی عرب کے ان درپردہ تعلقات کا کھلا اظہار ہے جو کئی دہائیوں سے قائم تھے۔ اسی طرح امارات کے اسرائیل سے تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھے بس عیارانہ عنوان نہیں تھا۔ جب کہ مخالفانہ رد عمل بھی منافقت اور عیاری میں اپنی مثال آپ ہے۔ مثلا سب سے شدید ردعمل ترکی کا ہے،ترکی کے سرکاری ترجما ن کا کہنا تھا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر اتفاق رائے ایک "منافقانہ عمل" ہے جسے تاریخ نا کبھی فراموش نہیں کرے گی اور کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔

ترکش وزارت خارجہ نے کہا کہ فلسطینی عوام اور انتظامیہ معاہدے کے خلاف سخت رد عمل کا اظہارکا حق رکھتے ہیں،انہوں نے اس معاہدے کو فلسطینیوں سے غداری قراردیا۔ یادرہے کہ ترکی نے قیام کے فوری بعد1949 میں اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ مسلمان اور عرب ممالک اکثر ترکی پر زور دیتے رہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے مگر ایسا تب ہوا جب ترکی اور اسرائیل کے تعلقات باہمی بنیادوں پر خراب ہوئے ۔

بہر حال ایک وجہ اسرائیل کے اس حملے کو بھی قراردیا جاتاہے جس میں اس نے غزہ فلوٹیلا پر حملہ کیاتھا۔ اسرائیل کے مطابق اس فلوٹیلا کا انتظام کرنے والی ترک تنظیم کے تعلقات حماس اور القاعدہ سے تھے،اس قدم سے ترکی کی عسکری حمیت کوزک پہنچی تھی۔فلسطین کے مسئلے کی آڑ میں دراصل پراکسی جنگوں اور چھوٹے یا بڑے سامراجی مقاصد ہمیشہ پیش نظررہے ہیں ۔

فلوٹیلا پر حملے کے بعد اسرائیل نے ترکی کو ہرجانہ ادا کرنے کی پیشکش کی تھی،اسی طرح دیگر اقدامات سے ترکی کے ساتھ تعلقات کو معمول کے مطابق بنانے کی کوشش کی۔ ترکی ناصرف اسرائیل کے ساتھ بلکہ امریکہ اور مغرب کے خلاف بیان بازی کے عقب میں بیک ڈور ڈپلومیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ترکی ،امریکہ،روس،سعودی عرب حتہ کہ اسرائیل کے ساتھ ملکر کر بھی عراق اور شام میں بہت سے آپریشنز میں حلیف رہا ہے۔

ماضی میں عراق میں داعش کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی فراہمی ترکی کے ذریعے ہوتی رہی ہے،اسکے بدلے میں داعش کے دہشت گرد ترکی کو عراقی تیل سپلائی کرتے تھے، اس معاملے میں نئے نام نہا د ارطغرل اردوان کے داماد کا اہم کردار رہا ہے۔ ترکی ایک طرف ناٹو کا رکن اور اسکی تمام پالیسیوں میں نیم دلی سے شریک کار بھی چلا آرہا ہے دوسری طرف خود بھی الگ سے کسی چھوٹے سے سامراجی کردار کا خواہاں ہے،جس بنا پر اسکا کہیں ناکہیں ٹکراؤ امریکی اور اسکے حلیفوں سے ہوتا رہتا ہے۔

مگرجہاں ایک طرف پچھلے سالوں میں ترکی کا وزیر خارجہ اسرائیل کادورہ کرچکا ہے وہیں ترکی کی اسرائیل سے تجارت کا حجم5ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ امریکہ نے ایرانی سے اسرائیل کی طرف داغے جانے والے میزائلوں کا پتا چلانے والا ریڈار۔میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ترکی میں ہی نصب کیا ہے۔ ترکی‘ ملیشیا اور پاکستان کے ساتھ ملکر مسلمان ممالک کی ایک غیر موثرتنظیم ”اوآئی سی“ کے متوازی تنظیم بنانے کا ارادہ ظاہرکرتا آرہا ہے۔

اس ضمن کوالامپو رمیں ہونے والی کانفرنس میں تمام ”سرگرم ارطغرلوں“کو اس وقت بہت صدمہ ہوا جب پاکستان جیسے اپنے ارادوں پر قدرت نارکھنے والے ملک نے سعودی عرب اور امریکہ کے دباؤ میں آکر اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔اسی طرح پاکستان کا رد عمل جس میں وزارت خارجہ نے ایک دن اور ایک رات کی سوچ بچار کے بعد اس معاہدے پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے اسکو مضمرات کا حامل معاہدہ قراردیا ہے۔

اگر چہ پاکستانی وزارت خارجہ کا بیان کا متن فلسطینی مسئلہ پر لفاظی پر مشتمل ہے،ظاہر ہے صرف لفظوں کا کھیل ہی کھیلا جاسکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایران معاہدے کے سب سے گہرے نتائج اگر کچھ ممالک پر مرتب ہونگے تو یہ ایران،قطر،چین اور پاکستان ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی (اگر ہے تو) صرف ایک نقطے گرد گھومتی ہے ۔پاک ،بھارت حالت جنت ‘ کے ذریعے ملک میں” مخصوص گرفت“کو ہر حال میں قائم رکھنا اور اسکے ذریعے جنگی بجٹ اوردیگر مدات کے ذریعے رقم حاصل کرکے ’ملکی سلامتی ‘کاتحفظ کرنا، اسکے لئے امریکہ،چین ،عرب ممالک،عالمی مالیاتی اداروں سے مدد،قرض لینا اور مذکورہ قوتوں کی ہدائت کے مطابق خارجہ پالیسی کے اسٹیرنگ کو گھماتے رہنا۔

مگر اسی ایک ہی نقطے میں وہ تمام تضادات موجود ہیں جو متذکرہ بالا ممالک کی پالیسیوں کے باہم ٹکراؤ سے معرض وجود میں آتے ہیں۔ پاکستان خودمسلم امہ اتحاد کا داعی وپرچارک کہلاتا ہے مگر یمن پر سعودی ۔حوثی جنگ میں وہ سعوی عرب کی سرکاری پوزیشن لینے پر مجبور ہے۔اسی طرح ایران سے سستی تجارت ،گیس لائین کی تنصیب ،پرامن اور دوستانہ تعلقات کے مقاصد حاصل نہیں کرپاتا کیونکہ سعودی عرب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور پھر امریکی پابندیاں ایران سے زیادہ پاکستان کو مجبور اور پابند کرتی ہیں۔

پاکستان سویت یونین کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کرسکا کیونکہ اس وقت امریکہ اورسویت یونین میں سرد جنگ تھی۔ ہندوستان کے بٹوارے کو برطانوی سامراج نے اس طرح سے ڈیزائن کیا تھا کہ اس میں کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہی ”جنگی حالت“ کو برقرار کرسکے۔پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات 48,ء65,ء71ء کی تین جنگوں اورسیاچن،کارگل اورفروری2019ء کے معرکوں پراستوار ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل اور بھارت عسکری،معاشی،تجارتی شعبوں سمیت تحقیق،تعلیم،سیاحت کے ذریعے گہرے روابط استوار کرچکے ہیں،ان تعلقات کا گرم جوش موڑ 1992ء میں نرسیماراؤ کی حکومت سے شروع ہوا۔بھارت ‘روس کے بعد سب سے زیادہ اسلحہ اسرائیل سے خریدرہا ہے ۔دونوں ممالک کاتجارتی حجم 4.44ارب ڈالر سے تجاوز کرچکاہے۔1971ء کی پاک بھارت جنگ میں اسرائیل نے بذریعہ ایران بھارت کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات اور بھارت کے تعلقات بھی مثالی ہیں۔ خلیج ٹائم کے مطابق بھارت اور امارت کی باہمی تجارت 2018-19میں 60ارب ڈالر تک تجاوز کرچکی ہے۔ یوں اس نئے’ معاہدہ ابراہام‘ سے اس نئے بلاک کو مزید تقویت پہنچے گی جس میں پاکستان کی کشمیر پالیسی کے مزیدخطرے میں پڑنے کاامکان ہے۔ سفارتی محاذپر پاکستان کیلئے اس لئے بھی بڑی پریشانی ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سوائے(جزوی طورپر) چین کے‘ پاکستان کا کوئی حلیف نہیں ہے۔

ایران سے تعلقات کی راہ میں ہمیشہ سعودی عرب اورامریکہ حائل رہتا ہے،مگر سعودی عرب پھر بھی پاکستان کی توقعات پر اس طرح سے پورا نہیں اترتا جیسے کہ امید کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود کی جھنجھلاہٹ ،اس پر سعودی ،حکومتی اوراپوزیشن شخصیات کاردعمل ،نامراد خارجہ پالیسی کی پچیدگیوں اور مسلسل ناکامیوں کا مظہر ہے۔

ترکی کی پالیسی نعرہ بازی کے ساتھ اپنے مفاد کی طرف بڑھو جیسی ہے۔ملائشیا کی اندرونی کہانی پاکستانی سیاست کی طرح کرپشن اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ ایران کوامریکی صدر ٹرمپ کی پابندیوں کے بعد چین کے معاشی معاہدوں سے ایک راستہ ملا تھا مگر ان معاہدوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایران کی بجائے چینی مفاد ات کو تقویت پہنچاتے ہیں،اسی قضئے کے گرد حالیہ دنوں میں ایران میں شدید مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

، مگر ان حالات میں جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ایران کا معاشی ناطقہ بند کیا ہوا ہے ایران کے پاس اور راستہ ہی کیا بچتا تھا۔ ایران ،بھارت کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے تعلقات ،اور گوادر پورٹ پر چینی کنٹرو کے تناظر میں‘ چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے سے بھارت کو الگ کرچکا ہے۔ مگر دوسری طرف ایران،چین،پاکستان،قطر،ترکی کے مبینہ بلاک بننے کی راہ میں فیصلہ کن مشکلات حائل ہیں۔

آنے والے دنوں میں پہلے مرحلے میں اومان اور بحرین کے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے امکانا ت ہیں،اس ضمن میں پچھلے سال اسرائیلی وزیراعظم ’بنجمن نیتن یاہو‘ اومان کا دورہ کرچکے ہیں۔سعودی عرب اعلان کریے یا نا کریے اسکے امریکہ کے بعد اسرائیل کے ساتھ کسی بھی ملک سے زیادہ مضبوط تعلقات ہیں۔مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیلی دھشت کے سامنے سرنگوں ہوچکے ہیں۔

پھر امارات کی اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات کی کہانی 13اگست 2020ء سے شروع نہیں ہورہی بلکہ کئی برسوں سے یہ تعلق درپردہ چل رہا تھا جس کا 13اگست کو فقط اعلان کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزراء اور وفود کے تبادلے امارات میں ہوررہے تھے۔ایران مخالف قراردادوں میں اسرائیلی اور امارتی سفارت کارایک ہی پیج پر رہے ہیں۔”نئے سفارتی تعلقات“پر مبنی ’اعلان ابراہام‘ جس میں اب کھلے عام اسرائیلی اورامارتی شہری دونوں ممالک کے شہروں میں آجاسکیں گے ‘بس درپردہ سفارت کاری کی بے پردگی کا مظہر ہے۔

    امارات اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا ردعمل بے بسی پر مبنی ہے۔فلسطنی صدرمحمودعباس نے ایک دفعہ پھر پرانے اور چلے ہوئے کارتوس کو چلانے کی کوشش کرتے ہوئے ۔انہوں نے امارات اور اسرائیل سفارتی تعلقات کو فلسطینیوں اور بیت المقدس کے ساتھ بے وفائی قراردیا ہے۔ محمودعباس کی تنظیم الفتح اور تنظیم آزادی فلسطین ایسی بے وفائی برسوں پہلے خود کرچکی ہے۔

پھر اب سب کو سمجھ جانے کی ضرورت ہے کہ مذہبی کارڈ اور نعرے صرف محدود مدت کیلئے اور کچھ مخصوص اہداف تک پہنچنے کیلئے تو کارگر ہوسکتے ہیں مگر ان میں ہمیشہ ایک جیسی جان اور کشش نہیں رہتی۔ فلسطینی لگ بھگ ایک صدی سے اپنے ہی خطے میں دربدرہیں۔ اسرائیل کے قیام کی سازش نے فلسطین اپنے رہنے والوں کیلئے جہنم بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیلی صہونیت کے پیچھے امریکہ اور مغربی سامراجی ممالک کی مالی،عسکری،سفارتی حمائت موجودرہی ہے۔

مسئلہ فلسطین بہت الجھا ہوا مسئلہ ہے اور ان مذہبی،فرقہ ورانہ، قومی،علاقائی،نسلی الجھنوں کی ڈوریں عرب وعجم سے لیکر امریکی سامراج کی انگلیوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔         شیعہ الجھن سنی الجھن کو کھلنے نہیں دیتی،عیسائیوں کے چرچ بھی منقسم ہیں۔ یہودی اورعرب اور یورپین آبادکاروں میں تضادات موجودہ،گہرے اور سماجی تفاوت پرمبنی ہیں۔ یہ مسئلہ توکم ازکم صرف شیعہ سنی تضادات کو ایران سے لبنان اور رملہ سے یورشلم تک آگ میں دھکیلنے کیلئے کافی ہے۔

دنیا میں دو ممالک بھی مذہب کی بنیادپر بنائے گئے اتفاق سے وہ دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں۔پھر عرب نیشنل ازم کا گھوڑا مصر،شام،اردن،لبنان کی شکست کے بعد بدک کر کسی اور جانب نکل چکا ہے ۔ایرانی عرب نہیں ہیں بلکہ عربوں کی انکے ساتھ تاریخی مخاصمت بلکہ دشمنی چلی آرہی ہے وہ مسئلہ فلسطین کو استعمال میں لاتے ہوئے اب فلسطین، لبنان اور شام میں ایک فریق سمجھے جاتے ہیں ،لہذا عرب قومی آزادی کا فارمولہ وحدت کی بجائے انتشار اور جنگ وجدل کاراستہ ہے۔

نام نہادعالمی برادری ایک دھوکے کانام ہے، صرف طاقتورہی فیصلہ کن طاقت ہوتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین برطانوی سامراج کی نامراد کوکھ سے نکلا وہ ناسور ہے جس کی پیدائش میں امریکہ کے ساتھ سٹالن ازم کا جرم بھی برابر کا شریک کاررہا ہے۔اس مسئلے کے حل میں سب سے اہم عامل مشرق وسطی کا محنت کش طبقہ ہے جس کو اسکے ابھار سے پہلے کی ہر سفارت کاری،اعلان،معاہدے اور مذاکرات میں نذرانداز کرتے ہوئے دھتکار دیا جاتا ہے۔

جب ہم اسرائیل کی بات کریں تو ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اسرائیلی صہونیت کی مکاری اور ایران سے عربوں کے درجنوں ممالک کے حکمران کی گیڈربھبھکیاں ایک جیسے نتائج ہی وضع کرتی ہیں۔جب ایران یا حز ب اللہ کی طرف سے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جو اسرائیل کا سفاک حکمران طبقہ اس دھمکی کے ذریعے اسرائیلی محنت کش طبقے کو ”مادروطن“ کی حفاظت کیلئے اکساتا ہے۔

ایسی اشتعال انگیزی جس سے پورے خطے کے حکمران اور انکے مفادات مضبوط ہوتے ہوں کے اندر سے ہی فلسطین اور عالم عرب کی نجات کا فارمولہ منظر عام پر آسکتا ہے۔ مصرمیں عرب بہار کے بعد تل ابیب میں اٹھنے والے مزدوروں کے مظاہروں میں بینرز پرنعرے عربی زبان میں لکھے تھے۔”مصریوں کی طرح لڑو“ کی تمثیل وہ کنجی ہے جو مذہبی،فرقہ ورانہ،صہونیت،قوم پرستی اور حکمران طبقے کی چالوں کے تالوں کو کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

صرف طبقاتی یکجہتی کا راستہ ہی اسرائیل سے لیکر پورے مشرق وسطی اور ایران تک کے محنت کشوں کوفتح یاب کراسکتاہے۔مشرق وسطی کی سوشلسٹ فیڈریشن کا نعرہ اور پروگرام‘ تمام تعصبات اور حکمرانوں کے حربوں کو شکست دینے صلاحیت رکھتا ہے۔ ’اعلان ابراہام ‘ ان طاقتوں کے مابین ہوا ہے جو امن کی بجائے جنگ، ترقی کی بجائے تباہی،بھائی چارے کی بجائے نفاق اور دھونس پر یقین رکھتی ہیں۔

یہ ایک نئی سردجنگ کے آغاز کا اعلان ہے جو کسی بھی مرحلے پر سرد کی بجائے آتشیں ہوسکتی ہے۔ یادش بخیر 13اگست2020سے ٹھیک 32سال اور چار دن پہلے 17اگست 1988ء کو چولستان کے ریگستانوں میں امریکہ بہادر کے بنائے ہوئے”ابراہام ٹینک“کی عملی مشق میں”ابراہام ٹنک “سے 9اہداف پر فائرکئے گئے تھے، عجب بات تھی ایک بھی اپنے ٹھکانے پر نہیں لگا تھا، البتہ ٹھیک دو گھنٹے بعد”ابراہام ٹینک“ کادلال امریکی سفیر”رافیل“ اور اسکے پاکستانی ”نیکو کار“ دوستوں کا جہاز بستی لال کمال کے قریب ایک دھماکے سے پھٹ کر زمین بوس ہوگیا تھا، اور زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ پھٹنے والے جہاز پر کہیں باہر سے کسی گولے یا میزائل کے چلنے کے شواہد آج تک نہیں ملے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :