پیپلز پارٹی صرف صوبہ سندھ تک محدود

ہفتہ 11 جنوری 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

 بے نظیر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اختیار کی گئی جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آئیں اور 1988ء میں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ ان انتخابات میں بھٹو کی شخصیت اور ان کا تیار کردہ منشور جس کی بنیاد روٹی، کپڑا اور مکان تھے کے تحت بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اکثریتی نشستیں حاصل کیں۔
 عوام بے نظیر، بھٹو کی تصویر کے نعرے پر پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہی تھی مگر پیپلز پارٹی نے اپنے بانی چےئر مین کی روایات سے انحراف کرنا شروع کر دیا۔

پرانے کارکنوں اور رہنماوٴں کو نظر انداز کر کے غیر سیاسی ماضی رکھنے والے اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت سے تعاون کرنے والوں کو عہدے دیے گئے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کو میرٹ پر فراہم کرنے کے بجائے فروخت کرنے کی اپروچ کو بنیاد بنایا گیا۔

(جاری ہے)

صنعتوں کو نجی تحویل میں دینے، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو مارکیٹ کے سپرد کرنے کی پالیسی کی حمایت کی جانے لگی۔

بھٹو نے عوام کی سیاست پر بالادستی کے جس اصول کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو منظم کیا تھا اس اصول کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں پیپلز پارٹی اور عوام میں فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ 
بے نظیر دوسری بار جلاوطنی ختم کر کے 2007ء میں دوبارہ ملک واپس آئیں تو لاکھوں افراد نے بے نظیر بھٹو کو خوش آمدید کہا، 27 دسمبر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انہیں شہید کر دیا گیا۔

بے نظیر کی مشکوک وصیت کے تناظر میں آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور وہ ملک کے صدر بن گئے۔ اس طرح پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے وژن سے دور چلی گئی۔
 پیپلز پارٹی آج سیاسی جد و جہد کے فلسفے سے محروم ہے اور اس کی قیادت بحران کا شکار ہے۔ بلاول کے پاکستان کی سیاست میں آنے سے کہیں پہلے اس کے نانا کو عدالتی قتل کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، ماں کو شہید کر دیا گیا اور یوں بلاول کی ساری نظریاتی اور عملی تربیت ان کے والدِ گرامی کے زیرِ سایہ ہوئی جو ابھی تک جاری ہے ۔

 بلاول اپنے سیاسی استاد آصف زرداری کے اس گرادب میں موجود رہ کر ان کے نظریاتی کردار و عادات کے معیارات اپنانے اور ان پر پورا اترنے کی جد و جہد میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ چےئر مین بلاول بھٹو زرداری نے آصف علی زرداری کی قیادت و رہنمائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے فلسفہ و سیاست میں اضطراب اور کنفیوژن پیدا کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔

یہ وہ پارٹی تھی جس نے ہمیشہ تشدد برداشت کیا، ظلم و زیادتی کے پہاڑوں تلے پیسی جاتی رہی، جس نے پاکستان کو خود مختاری کی طاقت سے ہمکنار کیا، جس نے عورتوں، مزدوروں، کاشت کاروں، ہاریوں، اقلیتوں، طالب علموں، عالمی برادری، دانشوروں اور عام عوام میں آئین، جمہوریت اور عزتِ نفس کے اصولوں کی بنیاد رکھی۔ لیکن بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف زرداری کے دور میں اپنے محور سے ہٹ گئی اور وہ طرح طرح کے الزامات کی زد میں آئی۔

 آج پھر اس کی وہی صورتحال ہے، جعلی اکاوٴنٹس اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی زد میں ہے۔ آصف علی زرداری جو کہ بے نظیر بھٹو کا خاوند ہونے کے ناطے ایک زمیندار تھے آج سندھ میں 17 شوگر ملوں کے مالک ہیں ۔پیپلز پارٹی کے وزراء پر بڑے پیمانے پر بد عنوانیوں کے الزامات لگائے گئے، ریلوے، پی آئی اے،اسٹیل مل اور دوسرے اکثر ادارے مسائل کا شکار ہوئے۔

تعلیم اور صحت کے مسائل کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس صورتحال کی ذمہ داری کسی نادیدہ قوت پر عائد کرتی رہی مگر حقیقت یہ ہے کہ محض میرٹ پر فیصلے نہ کرنے، عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازنے کی پالیسی اور ہر سطح پر شفافیت کے عمل کو یقینی نہ بنانے کی بناء پر یہ ادارے بحران کا شکار ہوئے۔ 
اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ پنجاب کے ہر شہر میں پارٹی کا عہدہ دینے کے لئے منادی کرانا پڑتی ہے کہ ہے کوئی جو ضلعی صدر بننا چاہتا ہے۔

فیصل آباد جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی مزدور دوست پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا جس کے اس شہر میں کئی دفاتر ہوا کرتے تھے، ہر دفتر میں عہدہ حاصل کرنے کے لئے ایڑے چوٹی کا زور لگانا پڑتا تھا۔ آج اس جماعت کی فیصل آباد میں یہ حالت ہے کہ بڑی مشکلوں سے اس جماعت نے شہر میں غیر مقبول سے لوگوں کو لے کر ایک دفتر بنایا ہے، یہی صورتحال ملتان اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر آج بے نظیر زندہ ہوتیں تو پیپلز پارٹی کا یہ حال نہ ہوتا۔ اشرافیہ اور عام عوام کے درمیان اس قدر فاصلے نہ ہوتے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عروج کے زمانے میں اس کا ڈنکہ چاروں صوبوں میں بجتا تھا۔ اس کی جماعت سندھ میں بھی حکمران نہ ہوتی اگر بے نظیر بھٹو نے قربانی نہیں دی ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اگر ایسا بھی ہوتا تو پارٹی کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی اپنا اثر کھو بیٹھی ہے۔

سندھ دیہی میں پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت کی وجہ اس کی بیڈ گورنس ہے۔ دیہی عوام مسائل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔اسی لیاقت باغ میں جہاں بلاول نے جلسہ کیا ہے آج سے 12سال پہلے اپنے خطاب میں بے نظیر نے کہا تھا کہ ایک بھٹو میں ہوں، ایک بھٹو تم ہو ۔ بی بی کے مخاطب لاکھوں عوام کو یاد دلا کر بی بی نے آزادی کا علم عوام کے ہاتھوں میں دے دیا تھا ۔

لیکن کیابی بی کے جانشینوں کے پاس کچھ ہے کہ وہ عوام کے سامنے پیش کر سکیں۔
 بلاول بھٹو اگر پیپلز پارٹی کو دوبارہ مقبول جماعت بنانا چاہتے ہیں تو انہیں پارٹی میں سیاسی کلچر بحال کرنا ہو گا، اپنی گورنس کم از کم سندھ میں بہتر بنانا ہو گی، پارٹی کو شفافیت کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق چلانا ہو گا۔ مزدوروں، کسانوں، خواتین اورا قلیتوں کے حقوق کے لئے عملی جد و جہد کو لازمی قرار دینا ہو گا۔ پیپلز پارٹی اب بھی غریب آدمی کی امید بن سکتی ہے۔ جد و جہد اور شفافیت کی بناء پر وہ عوام کی امیدوں پر پورا اتر سکتی ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :