دہشتگرد۔۔۔یہ کون لوگ ہیں؟

جمعہ 10 مئی 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

جب روس اور امریکہ کی سرد جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کیلئے پاکستان اور افغانستان سے مدد طلب کی تب امریکہ نے 1960ء میں مذہبی انتہا پسندی کو کیمو نزم کا توڑ بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس منصوبہ کو عملی شکل دینے کیلئے امریکہ پاکستان میں موجود مذہبی جماعتوں کو مدد فراہم کرنے لگا۔1980ء کی دہائی میں یہ سلسلہ واضح ہو گیا سوویت یونین کیخلاف مسلح جدوجہد کے آغاز سے اس خطہ میں امریکی اہداف اور اسلحہ کی ترسیل میں تیزی آگئی پاکستان سے ایک بڑے قبائلی گروہ نے افغانستان میں حصہ لینا شروع کر دیا جنرل ضیاء اور امریکہ انکی پشت پر کھڑے ہو گئے امریکی تعاون سے یہ سلسلہ تعلیمی اداروں، مدارس اور مذہبی وسیاسی جماعتوں تک پھیل گیا۔

1988ء میں امریکہ نے پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان سے انخلاء پر مجبور کر دیا۔

(جاری ہے)

پھر افغانستان جنگ کے دوران لاکھوں افغانی مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی منتقلی سے اس دھرتی پر نشہ آور اشیاء اسمگلنگ،اغواء اور ہتھیاروں کی خریدوفروخت کا سلسلہ چل نکلا افغانستان جنگ کے بعد عسکریت پسندوں کی کارروائیاں پاکستان اور افغان حکومت کیخلاف شروع ہو گئیں۔

حصول اقتدار کیلئے افغانستان میں دھڑے بن گئے خانہ جنگی انتہا کو پہنچ گئی۔1995ء میں افغانستان میں پہلی بار طالبان کا نام منظر پر آیا طالبان کا نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کی بیشتر آبادی نے مدد فراہم کرتے ہوئے ساتھ دیا دیکھتے ہی دیکھتے پورا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آگیا۔وہی طالبان جنکو افغان دھرتی کے باسیوں نے سر آنکوں پر بٹھا کر اقتدار بخشا تھاانہی طالبان نے اقتدار میں آتے ہی انسانی حقوق کو روندھنا شروع کر دیا۔

طالبان نے غیر ممالک میں موجود انتہا پسند مذہبی جماعتوں سے روابط مضبوط کرنا شروع کر دئیے اور افغانستان میں اُسامہ بن لادن جیسے عسکریت پسندوں کو پناہ دینا شروع کر دی اسی دوران 2011ء میں نائن الیون کا واقعہ ہو گیا۔ جب دہشت گردی کی آگ نے امریکہ کے تن کو جلایا تو امریکہ نے اس واقعہ کی تمام تر ذمہ داری القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن پر ڈال دی اُسامہ کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے پر امریکہ نے افغانستان کیخلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا۔

سلامتی کونسل میں طالبان حکومت کیخلاف قراردادیں منظور ہوئیں افغانستان میں موجود طالبان حکومت کی مدد کیلئے فاٹا، صوبہ سرحد اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے عسکریت پسندوں نے مغربی قوتوں کیخلاف اعلان جنگ کر دیا۔ القاعدہ کے متعدد راہنماؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے لی جن میں غیر ملکی شدت پسند بھی شامل تھے۔ پاکستان کی وہ عسکریت پسند تنظیمیں جو ضیاء الحق دور میں پروان چڑھی دو دہائیوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی پھر پاکستان میں طالبان نے اپنا وجود منوایا لیا۔

2004ء میں پاکستانی حکومت نے روپوش عسکریت پسندوں کو پاکستان کے دیگر علاقوں میں دراندازی سے روکنے کیلئے اور انکے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کیلئے پاک افغان بارڈر اور وزیر ستان ایجنسی میں آپریشن شروع کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں عسکریت پسندوں کی جوابی کارروائیوں کے نتیجہ میں اس دھرتی کے مختلف علاقوں میں خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

2007ء میں لال مسجد میں ہونیوالے سائلنس آپریشن کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات طول پکڑ گئے۔ قبائلی علاقوں سے یہ سرطان سوات کے پہاڑوں تک آن پہنچا آج یہ سرطان پشاور سکول، چارسدہ، باچا خان یونیورسٹی، گلشن اقبال پارک، مردان، کوئٹہ، کراچی، لاہور اور سہیون شریف میں سینکڑوں زندگیاں نگل گیا۔ دہشت گرد دشمن ہمارے تعلیمی اداروں، مساجد اور مذہبی درگاہوں تک آن پہنچا ہے۔

اب پھر دو رمضان المبارک کو صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر ایک خود کش بمبار نے داتا دربار کے گیٹ نمبر دو پر کھڑی ایلیٹ فورس کی گاڑی کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو اڑا لیا جس کے نتیجہ میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت گیارہ افراد شہیداور پچیس افراد زخمی ہوگئے۔یہ دوسرا موقع ہے جب دہشتگردوں نے لاہور میں کسی مزار کو نشانہ بنایا اس سے قبل دو جولائی2010ء کو دہشتگردوں نے صوبہ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں واقع معروف صوفی بزرگ حضرت سید علی ہجویری کے مزار پر دو خود کش دھماکے کئے تھے جس میں 37سے زائد افراد شہید اور ایک سو ستر کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

اب پھر یہ مزار دہشت گردی کا شکار ہوا ہے۔دہشتگرد سیہون کے مقام پر بزرگ صوفی لعل شہباز قلندر‘مزار حضرت سخی سرور‘مزار صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی‘مزار مشہور صوفی شاعر رحمان بابا‘مزار مشہور پشتو شاعر امیر حمزہ خان شنواری‘مزار ابو سید بابا‘مزار عبدالشکور ملنگ بابا‘مزار بری امام کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں اور ان حملوں میں ہم سینکڑوں قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں ۔

دہشتگردوں کی جانب سے کئے جانیوالے حملوں کے دوران ملک میں ہزاروں افراد دہشتگردانہ کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔پاکستان دہشتگردی کی جنگ لڑتے لڑتے ستر ہزار جانیں بھی قربان کر چکا ہے اور دنیا کو یہ پیغام بھی دے چکا ہے کہ ہم دہشتگردی کے خلاف عالمی دنیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔اس کے باوجود صوبہ بلوچستان میں دہشتگرد کھل کر دشمن کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے وہاں کے شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلوچستان کے رستے زخموں سیبارود کی بو آرہی ہے آخر کب تک یہ قوم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کے لاشے تڑپتے دیکھے گی۔

ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث دشمن کھل کر دہشتگردی کے ذریعے اس ملک کے شہریوں کو بے دریغ نشانہ بنا رہا ہے پوری قوم دہشتگردی کے اس ناسور کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے اور دہشتگردی کا یہ آسیب آہستہ آہستہ انسانی جانوں کو نگلتا چلا جا رہا ہے ۔تاریخ کے حقائق کو مسخ نہیں کیا جا سکتا ہم نے پرائی جنگ اس انداز میں لڑی کہ پوری قوم آج دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہی ہے دہشتگردی نے اس قوم کی خوشیاں تک چھین لی اور یہ قوم خوش ہونا بھول گئی۔

جب تک دہشتگردی پیدا کرنے والی سیاسی معشیت کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک یہ دہشتگرد ملک اور سماج کو لہو میں نہلاتے ہوئے اس کے امن کو تاراج کرتے رہیں گے۔اسی ملک کی دھرتی پر دشمن کے سہولت کار موجود ہیں جو اس دھرتی ماں سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں جن کو باقاعدہ فنڈنگ کی جاتی ہے ان کا قلع قمع کرنا وقت کی ضرورت ہے اپنے ہی ہاتھوں سے دہشت و وحشت کی بنیاد رکھنے کی تاریخ آپ کیسے بھول سکتے ہیں ہزاروں جانیں گنوا کر اور کھربوں روپے کا نقصان کروانے کے باوجود دہشتگردی کے آسیب سے ہم اپنی جان نہیں چھڑوا سکے۔

طاقتور‘اعلی دماغ‘چالاک اور سرمایہ دار دشمن انسانی جانوں کو بارود میں بھسم کر کے روندتا چلا جا رہا ہے ۔بم دھماکوں‘خودکش حملوں‘ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت کے ہتھیاروں کی زد میں آکر اس دھرتی پر گرتے لاشوں کو دیکھ کر ہم سوچ رہے کہ یہ دہشتگرد ۔۔۔کون لوگ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :