معرکہ گلگت بلتستان

جمعرات 5 نومبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

گلگت بلتستان کا دنگل اس وقت پورے جوبن پر ہے۔سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نوا زگلگت میں دوبارہ حکومت بنانے کیلئے پرامید ہے۔جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے بھی گلگت میں اپنا مورچہ سنبھال رکھا ہے۔دوسری جانب پاکستان کی موجودہ حکمراں پارٹی تحریک انصاف بھی اس مرتبہ پوری پاور کے ساتھ گلگت میں اپنی انٹری دینے کیلئے تیار ہے۔

اگر گزشتہ دو الیکشن کا جائزہ لیا جائے تو 2009کے الیکشن میں گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی اکثریت جماعت بن کر سامنے آئی تھی ۔2009کی گلگت اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے واضع اکثریت حاصل کی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی کیونکہ اس وقت پاکستان میں حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی ۔2015 میں پاکستان پر مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی ۔

(جاری ہے)

لہذا مسلم لیگ نواز نے دوتہائی اکثریت سے جیسے 2013کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی ایسے ہی گلگت بلتستان میں بھی دوتہائی اکثریت حاصل کی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔

مسلم لیگ(ن) نے گلگت،استور اور گانچھے میں کلین سویپ کیا تھا۔اس الیکشن میں پیپلزپارٹی کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا پیپلزپارٹی بامشکل گلگت میں ایک ہی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔پیپلزپارٹی کے امیدوارعمران ندیم جن کا تعلق گلاب پور سکردو سے تھا وہ اپنے سیٹ نکالنے میں کامیاب رہے جبکہ موجودہ حکمراں جماعت تحریک انصاف بھی گلگت سے 2015کے انتخابات میں ایک ہی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

تحریک انصاف کے امیدوار جہانزیب خان غذر سے اپنے سیٹ نکالنے میں کامیاب رہے۔یہ گلگت بلتستان کی دس سالہ سیاسی صورتحال کا ایک مختصر سا جائزہ تھا ۔یہاں دیگر چھوٹی جماعتوں بھی ن ظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جن میں مجلس وحدت مسلمین جس نے گزشتہ الیکشن میں دو نشستیں حاصل کی تھی ۔مجلس وحدت مسلمین کے رضوان علی ہنزہ نگار سے اورامتیاز حیدر خان علی آباد سکردو سے کامیاب ہوئے تھے۔

جبکہ جمعیت علماء اسلام کے حاجی شاہ بیگ چلاس دیامر سے کامیاب ہوئے۔
لیکن اس مرتبہ صورتحال کچھ مختلف ہے۔اس وقت ماضی کی دونوں حکمران جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی پاکستان میں حزب اختلاف میں ہیں ۔2015کے گلگت الیکشن میں ایک سیٹ حاصل کرنے والی تحریک انصاف پاکستان میں اقتدار میں ہے۔وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے قومی دن پرگلگت میں جاکر گلگت کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا دوسری جانب وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور بھی مسلسل گلگت کے دورے پر کہی چھپ کر ملاقاتیں کررہے ہیں اور کہی عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کررہے ہیں۔

وفاقی حکومت ،وزیراعظم عمران خان سمیت الیکشن کمیشن کے طے کردہ ضابطہ کار کی خلاف کررہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کو الیکشن رولز کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کردیا ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز بھی گلگت بلتستان پہنچ گئی ہیں جہاں ان کا صوبائی قیادت نے پرتپاک استقبال کیا ہے۔مریم نواز سات روزہ دورے پر گلگت روانہ ہوئی ہیں ۔

مریم نواز کی گلگت آمد سے قبل مسلم لیگ نواز کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے گلگت میں متوالوں کو لہو گرم کردیا ہے۔مریم نواز ایک حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ وہ منتخب رکن اسمبلی نہیں ہیں اگر وہ اسمبلی کی رکن ہوتی تو الیکشن کمیشن کی جانب سے شاید ان کو بھی نوٹس جاری کردیا جاتا ۔لیگی حلقوں کی مطابق مریم نواز کا دورہ گلگت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

گلگت میں مسلم لیگ نواز کا ووٹ بینک موجود ہے۔گلگت کے عوام بھی سابق وزیراعلی حافظ حفیظ الرحمن کی کارکردگی سے بھی مطمئین اور خوش ہیں۔اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نوازشریف کی گلگت میں ذاتی دلچسپی رہی ہے۔نوازشریف نے گلگت بلتستان میں بے شمار میگا پروجیکٹس مکمل کیے۔نوازشریف حکومت اور حافظ حفیظ الرحمن کے دور حکومت کے بیشتر پروجیکٹ پر آج بھی کام جاری ہے۔


سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے گلگت بلتستان میں سی پیک پٹرولنگ پولیس ہیڈ کوارٹرز کا افتتاح کیا۔اس پٹرولنگ پولیس کیلئے چین کی طرف سے تحفہ کے طور پر 25 گاڑیاں بھی نوازشریف کے کہنے پر چین دی۔نواز شریف نے عطاء آباد جھیل پر شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو منصوبہ بھی مکمل کیا ۔اس منصوبے پر ساڑھے 27ارب روپے لاگت آئی ۔یہ منصوبہ گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ 8 ارب روپے سے 3گنا بڑا تھا۔

نوازشریف نے عطاآباد سرنگ اور بحال کی گئی شاہراہ قراقرم کا منصوبہ بھی مکمل کیا۔ یہ سرنگ شاہراہ کے ان حصوں کی بحالی کیلئے تعمیر کی گئی ہے جو جنوری2010 میں مٹی کا تودہ گرنے سے مہندم ہوگئے تھے۔ 7 کلومیٹر طویل پانچ سرنگیں نئی تعمیر کی گئی 24 کلومیٹر طویل شاہراہ کا حصہ ہیں۔ اس شاہراہ پر 2 بڑے اور 78 چھوٹے پل تعمیر کئے گئے ہیں اور یہاں سے ہر روز کم از کم 15 ہزار چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں۔

یہ مسلم لیگ نواز کے دور کے چند ایک منصوبے ہیں ۔
گلگت بلتستان کے انتخابات اس وقت دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ گلگت اسمبلی کی دس سالہ تاریخ دوبارہ دوہرائی جاتی ہے یا گزشتہ الیکشن میں ایک سیٹ حاصل کرنے والی جماعت تحریک انصاف پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں ۔اس بارمریم نواز کا بھی امتحان ہے کہ وہ گلگت میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :