استنبول کینال مضبوط ترکی کا ضامن

منگل 29 جون 2021

Saif Awan

سیف اعوان

آج کل عالمی میڈیا پر استنبول کینال شہ سرخیوں میں ہے۔استنبول کینال کے بننے سے امریکہ اور روس کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ترکی میں حزب اختلاف کی جماعتیں ،ترک بحریہ کے چند ریٹائرڈافسران اور ترک صدر رجب طیب اردوغان کے کچھ ناقدین اس منصوبے پر کھولے عام تنقید کررہے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں چند سال قبل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پاکستان میں ہمسایہ ملک چین کے تعاون سے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔

پاک چین اقتصادی راہداری پر سب سے زیادہ تنقید موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے کی۔وقت بدلتے ہی آج عمران خان سی پیک کو گیم چینچر منصوبہ تسلیم کررہے ہیں۔اس منصوبے کیلئے انہوں نے باقاعدہ سابق جنرل عاصم سلیم کی سربراہی میں اتھارٹی قائم کردی ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ روزترک صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول کینال کا باقاعدہ افتتاح کردیا ہے۔

ترک صدر نے اس منصوبے کا افتتاح ایک بڑے سائز کے پل کا سنگ بنیاد رکھ کر کیا۔استنبول کینال کا بنیادی مقصد آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کا دباؤ کم کرنا ہے۔استنبول کینال پر ٹوتل 15ارب ڈالر لاگت آئے گی۔نہر استنبول کی گہرائی 25 میٹر، لمبائی 45 کلومیٹر ہو گی اور اس سے ہر روز تقریباً 160 بحری جہاز گزر سکیں گے۔ ترک صدر استنبول کینال کو آبنائے باسفورس کا متبادل قرار دیتے ہیں۔

آبنائے باسفورس وہ واحد بحری راستہ ہے جو بحیرہ اسود کو بحیرہ روم سے ملاتا ہے جہاں اکثر بحری جہازوں کی بھیڑ رہتی ہے۔اس راستے سے پہلے ہی سالانہ 43 ہزار کے لگ بھگ بحری جہاز گزرتے ہیں جبکہ حکام کے مطابق ماحولیات کو زیادہ نقصان نہ پہنچانے کی غرض سے یہاں سے صرف 25 ہزار بحری جہاز سالانہ گزرنے چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں کو بعض اوقات طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اردوغان حکومت نے رواں برس مارچ میں استنبول کینال کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ یہ نہر آبنائے باسفورس کے مغرب میں واقع ہو گی اور اس کا بہاوٴ استنبول کے شمال سے جنوب کی جانب ہو گا اور یہ 45 کلومیٹر طویل ہو گی۔بلیک سمندر سے گزرنے والے ہر جہاز کو استنبول شہر کے درمیان سے گزرنا پڑتا ہے ۔جس کو دنیا آبنائے باسفورس کے نام سے جانتی ہے۔اس سمندر سے روس،بلغاریہ،جارجیا،رومانیہ ،یوکرائن سمیت کئی قریبی ملکوں کے تجارتی جہازگزرتے ہیں ان ممالک کو بلیک سمندر کے علاوہ اور کوئی سمندری راستہ نہیں لگتا۔

لہذا ان ممالک کیلئے ترکی کی بڑی اہمیت ہے۔اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں نے 1936میں ترکی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔تمام ممالک کے تجارتی جہاز آبنائے باسفورس سمیت دیگر ترکی کے پانیوں سے گزر سکتے ہیں۔معاہدے کے مطابق ترکی ان جہازوں سے کوئی فیس بھی نہیں لے گا اور نہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالے گا۔اس معاہدے میں صرف ترکی کو ایک اختیار حاصل تھا کہ جنگ کے دنوں میں وہ ہر قسم کے جہازوں کی آمد ودرفت پر پابندی لگاسکتا ہے۔

آبنائے باسفورس سے سالانہ پچاس ہزار جہاز گزرتے ہیں جبکہ امریکہ کی پاناما کینال سے 12ہزار اور مصر کی نہر سوئس سے سالانہ 15ہزار جہاز گزرتے ہیں۔
استنبول کینال شہر کے مغرب کی جانب بنائی جارہی ہے اس نہر کے قریب ہی استنبول ایئر پورٹ بھی ہے۔ترک صدر طیب اردغان بڑے اور شاندار منصوبوں کے دلدادہ جانے مانے جاتے ہیں۔ترکی کا وسیع و عریض استنبول ایئر پورٹ ،باسفورس کے نیچے انتہائی خوبصورت ٹنل،ترکی کی سب سے بڑی مسجد سمیت کئی بڑے پروجیکٹ انہی کے دور میں ہی مکمل ہوئے ہیں۔

ماضی میں انہی شاندار منصوبوں کی بدولت طیب اردغان کو الیکشن میں کامیابیاں ملتی رہی ہیں۔لیکن استنبول کینال ان سب منصوبوں سے بڑا منصوبہ ہے۔صدر اردوغان 2023تک ان منصوبے کو ہر صورت مکمل بھی کرنا چاہتے ہیں اور ترکی کا جی ڈی پی گروتھ 2ٹریلین ڈالر تک بھی لے جانا چاہتے ہیں۔جس کے بعد ترکی کا شمار دنیا کی دس بڑے معاشی طاقتوں میں ہوگا۔استنبول کینال سے گزرنے والے جہازوں سے ہی صرف سالانہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی حاصل ہو گی۔

اس منصوبے سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ترک حکومت استنبول کینال کے دونوں طرف دو لاکھ لوگوں کیلئے خوبصورت اپاٹمنٹس،تفریح گاہیں،ہسپتال اور یونیورسٹیاں بھی بنانا چاہتی ہے۔جن سے سالانہ تین ارب ڈالر کی آمد ن کی بھی توقع ہے۔اس کیلئے ترک حکومت یورپی اور عرب ممالک کو یہاں سرمایہ کاری کرنے کیلئے متوجہ کررہی ہے۔ترک میڈیا کے مطابق قطر کے شاہی خاندان نے استنبول کینال کے اطرا ف زمین کا ایک بڑا رقبہ بھی خرید لیا ہے۔

استنبول کینال کے مالی فوائد تو اپنی جگہ ہیں لیکن ترک تجزیہ کاروں کے مطابق ترک صدر کی خطے میں ترکی کی دفاعی حیثیت کو بھی بڑھانا ہے۔طیب اردوغان سمجھتے ہیں آبنائے باسفورس سمیت تمام قریبی سمندری راستوں پر صرف ترکی کا حق ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی سامراجی طاقتوں نے دباؤ ڈال کر یہ معاہدہ کیا۔مونٹی معاہدہ ترکی کے مفادات کیخلاف تھا۔اردوغان حکومت اس منصوبے کو 2023میں ہر صورت مکمل کرنا چاہتی ہے۔طیب اردوغان کا موقف ہے کہ یہ منصوبہ ترکی کو سپر پاور بنادے گا۔تاکہ آئندہ الیکشن میں اس منصوبے کی بنیاد پر وہ دوبارہ کامیاب ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :