ترقی کا سفر ریل کے ذریعے

پیر 25 نومبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

ملکی معیشت میں بہتری لانے کیلئے موجودہ حکومت مصروف عمل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق انہیں اپنی معاشی ٹیم پر فخر ہے اور گزشتہ چار ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اٹھائے گئے عملی اقدامات کی نتیجہ میں ترقی سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے کی تردید یا تائید کرنے کی بجائے راقم الحروف حکومت کی توجہ پاکستان ریلویز کی جانب مبذول کروانے کا خواہشمند ہے۔

میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں ''ریلوے کا سفر، حقائق سے حقیقت تک ''کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا تھا۔ اب تبدیلی سرکار کے سامنے اپنی گزارشات رکھناضروری سمجھتا ہوں۔
پوری دنیا میں سفر کے بہت سے زرائع استعمال کئے جاتے ہیں لیکن محفوظ اور سستا ترین ذریعہ ریل گاڑی کو سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ سفر کا عوامی ذریعہ ہے جس پر پوری دنیا میں توجہ دی جاتی ہے۔

بد قسمتی پاکستان میں ریلویز کا نظام زوال پذیر ہے.پاکستان ریلویز ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ریلوے کی بحالی پاکستان کی خوشحالی ہے۔
ملکی معیشت کی بہتری اور عوامی سہولیات میں بہتری لانے کیلئے ریلوے میں اصلاحات ضروری ہیں۔ مسلم لیگ ن کی ترجیحات میں ریلوے کبھی شامل ہی نہیں رہا کیونکہ بہتر انفرا سٹرکچر کیلئے موٹر ویزکی تعمیر ن لیگ کی قیادت کے نزدیک اہم تھی۔

ریلوے کو بہتر کیا ہوتا تو ملکی وسائل بھی کم خرچ ہوتے اور سفری سہولیات بھی بہتر اور زیادہ آبادی کو میسر ہوتی مگر مسلم لیگ ن کی سیاست نئے نمائشی منصوبہ جات کے بغیر ادھوری ہے۔ریلوے کا نظام تو خطہ میں 1861ء سے قائم ہے جب کراچی سے کوٹری تک 169کلو میٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔قیام پاکستان کے وقت برطانوی راج کا قائم کردہ نارتھ ویسٹرن ریلوے 8122کلومیٹر کا نظام بھی ہمارے حصہ میں آیا۔

ریلوے میں بہتری لانے سے مسلم لیگ ن کریڈٹ کس بات کا لیتی۔۔؟ دوسری طرف جب اورنج ٹرین کا ذکر ہو گا شہباز شریف کی ترقی اور حکومت کے کارناموں کی تشہیر ممکن تو ہے۔نوازشریف کے پہلے دورے اقتدار قتدار میں 1990کے عشرے سے پاکستان میں موٹر ویز کی تعمیر شروع ہوئیں مگر ریلوے ڈبل ٹریک جیسے منصبوبہ جات شروع نہ کئے گئے۔ ریلوے اپنے بہترین ماضی کو لئے بد ترین مستقبل کی جانب بڑھتا رہا۔

میاں محمد نواز شریف کا ریلوے کی بہتری میں دلچسپی کا یہ عالم تھا جب نومبر 2015ء میں ساہیوال سے رائیونڈ ریلوے ٹریک مکمل ہوا تو وزیر اعظم اسلام آباد سے رائیونڈ تشریف نہ لا سکے۔ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور شہباز شریف نے منصوبے کا افتتاح کیا۔ جبکہ رہائش کیلئے میاں نواز کا حسن انتخاب رائیونڈ ہی ہے۔
سابقہ ادوار میں مسلسل عدم توجہی نے پاکستان ریلویز کو روبہ زوال کیا۔

اب تبدیلی سرکار سے امید کی جا سکتی ہے کہ بڑے پیمانے پر سستی، تیز رفتار، آرام دہ سفری سہولت کی فراہمی کیلئے ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ کیونکہ موٹر ویز کی تعمیر کو عمران خان نے کبھی اپنی ترجیح قرار نہیں دیا۔ ایک قوم بنانے کی بات کی۔ پاکستان ریلویز پورے پاکستان کو ایک لائن، ایک پٹری سے جوڑتی ہے۔ آج 78031افراد ریلوے میں ملازم ہیں، 1224ریلوے اسٹیشنز ملک بھر میں قائم ہیں۔

ریلوے بہتر ہو گا تو اتنے شہروں میں ایک ساتھ بہتری آئے گی۔ ہزاروں افراد کے گھر میں خوشحالی اور عام آدمی کو بہترین سفری سہولیات میسر ہوں گی۔
پورے ملک کے وسائل لاہور شہر پر خرچ کر کے ترقی کے دعوے کرنے کی ضرور ت نہیں پڑے گی۔ چاروں صوبوں میں مساوی ترقی ہوگی۔ ریلوے کی بہتری سے ہی ترقی ممکن ہے۔ ریلوے کا پہیہ جتنا تیز چلے گا پاکستان اتنی تیزی سے ہی ترقی کرے گا۔

مال برداری کیلئے ریلوے کو استعمال کر کے حکومت پاکستان آمدن کا ذریعہ بڑھا سکتی ہے، بصورت دیگر مال برداری کا تمام بوجھ سڑکوں پر اور ٹرانسپورٹرز کی چاندی رہے گی۔میاں نواز شریف کی تعمیر کردہ موٹر ویز پر ٹریفک رواں دواں رہے گی لیکن ملکی خزانے میں اضافہ ریلوے کی ترقی سے ہی ممکن ہے۔
ریلویز کا آغاز کراچی سے کوٹری تک ریلوے لائن سے ہوا، کیونکہ تجارت بندرگاہ سے ملک کے دیگر حصوں کی طرف ہوتی ہے۔

جبکہ موٹر وے کی تعمیر لاہور سے شہر ایوان اقتدار اسلام آباد کی طرف ہوئی۔ موٹر وے کی تعمیر کی ترجیحات تو اس فیصلہ ہی سے واضح ہیں۔1990 کے پہلے دور اقتدار کے سترہ سال بعد لاہور ملتان موٹر 30مارچ 2019ء کو عا م ٹریفک کیلئے کھولی گئی، لاہور سے کراچی تک موٹر وے کب مکمل ہوتی ہے اسکا جواب تو اورنج ٹرین، میٹرو بس، موٹر ویز بنانے والے حکمرا ن بہتر دے سکتے ہیں۔

قارئین کرام! میرا مقصد اورنج ٹرین پر تنقید یا طنز نہیں، معاملہ ترجیحات کا ہے۔ کراچی میں سرکل ریلوے قائم تھی جو بند ہوئی اور کراچی کو لاہور سے زیادہ ٹرانسپورٹ کی ضرورت تھی اور ہے مگر اورنج ٹرین لاہور میں قائم ہوتی ہے۔ میٹرو بس سروس بھی لاہور ہی سے شرو ع ہوتی ہے۔ یہ عوامی منصوبے پنجاب حکومت نے اپنے وسائل سے تو مکمل نہیں کئے وفاقی حکومت کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ کراچی بلآخر پاکستان کا حصہ ہے اور یہاں کے رہائشی ٹرانسپورٹ کی سہولت کے حقدار ہیں۔

سائیں سرکار کو ذمہ دار ٹھہرا کر نواز شریف کی حکومت اور مرکز میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت بری الزمہ نہیں ہو سکتے۔ کراچی سندھ کا نہیں پورے پاکستان کا ہے، کراچی کے وسائل پورے پاکستان کے تو پھر کراچی کے مسائل کی ذمہ دار صرف سائیں سرکار ہی کیوں۔۔۔ اس لیے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی ترقی کیلئے ریلوے کی بہتری ضروری ہے اور میرے یہ تمام اعتراضات کا بہتر جواب بھی ریلوے کی بحالی سے ممکن ہے۔


معذرت کے ساتھ تبدیلی سرکار نے سینیئر سیاستدان شیخ رشید کو ریلوے کا قلمدان سونپا، جن کے بارے اگر یہ ضرب المثل استعمال کی جائے تو غلط نہ ہوگا ''گلیں باتاں میں بڑی، کرتوتاں بڑی جیٹھانی''۔۔ سیاست میں غیر شائستہ، غیر اخلاقی گفتگو اور مخالفین پر ذاتی وار کرنے پر تو شیخ رشید اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر اپنی وزارت میں انکی کارکردگی صفر /صفر ہے۔

وزیر اعظم عمران خان ماضی میں ان کو چپڑاسی رکھنے پر بھی تیار نہ تھے۔بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔
خدا کریریلوے کی حالت بھی بدلے۔
وزارت ریلوے کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ محکمہ کے 15313ایکڑ زمین پر تجازوات قائم ہیں۔ رمیشن لال کنوینر ریلوے ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات بتائی گئی کہ کراچی ڈویژن میں 964ایکڑ اراضی پر تجاوزات قائم ہیں، 237ایکڑ پر رہائشی جبکہ 692پر زرعی تجاوزات و دیگر 35ایکڑ بھی تجاوزات کی نظر ہے۔

سکھر ڈویژن میں 1927ایکڑ پر تجاوزات قائم ہیں جبکہ ملتان ڈویژن میں 200ایکڑ اراضی پر قبضہ ہے۔ ریلوے حکام نے اجلاس کو بتایا جنوری سے اکتوبر تک 2019کے دوران 10ہزار ایکڑ اراضی واگزار کرائی گئی۔ ریلوے اراضی پر تجاوزات کے 152مقدمات سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور سول کورٹس میں زیر سماعت ہیں جن میں سے 20پر حکم امنتاعی جاری کیا جا چکا ہے۔ اجلاس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ریلوے کا اینٹی اینکروچمنٹ سیل ہی نہیں تو تجاوزات کیسے ہٹائیں۔

سٹاف بیلچے، کڑچھے لیکر تجاوزات ہٹا رہا ہوتا ہے۔
پاکستان ریلوے ریلویز کی بہتری کیلئے وسائل نا بھی ہوں صرف ریلوے کی زمینیں ہی واگزار کروا کر اتنی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے کہ محکمہ ریلوے نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے بلکہ ملکی معیشت میں ریلوے کا کلیدی کردار بھی نظر آئے گا۔ تبدیلی سرکار کو چاہئے کہ ایسی جامع حکمت عملی تیار کرے اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے ریلوے کی زمینوں کو استعمال میں لایا جا سکے۔

کراچی کی سرکلر ریلوے کو ترجیحی بنیادوں پر بحال کیا جائے اور نمائشی منصوبہ جات کو ختم کیا جائے۔کثیر سرمایہ سے اوکاڑہ میں ماڈل ریلوے اسٹیشن تعمیر ہوا۔ جبکہ اوکاڑہ میں صرف 6ٹرینیں رکتی ہیں۔ اسٹیشن کے ساتھ ہوٹل، پارک، شاپنگ مال، ملٹی سٹوری پلازہ، کمرشل مارکیٹ، سینما، بنک برانچ کی تعمیرات کا منصوبہ شامل تھا۔ جن کا اب کوئی نام نشان نہیں، یہ ہوتے ہیں کاغذی منصوبے، وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے اسٹیشن پر افتتاح کی تختی تو لگا دی مگر خوبصورت عمارت میں مسافروں کیلئے پینے کیلئے صاف پانی، بیٹھنے کیلئے بہتر جگہ کا مناسب انتظام بھی نہیں۔

اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن کی خوبصورت وسیع عمارت کا 90فیصد حصہ آج بھی زیر استعمال نہیں۔ اتنی بڑی عمارت کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سیعمارت بھوت بنگلہ بنتی جارہی ہے۔ اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کو دیکھنے کے بعد ذی شعور پاکستانی اس منصوبہ کو قومی وسائل کا ضیاع ہی قراردے گا یہاں ٹرینیں تو روکتی نہیں اتنی بڑی عمارت کس کام کی۔

خواجہ سعد رفیق کو سستی شہرت مبارک، اوکاڑہ کے عوامی نمائندوں کو ریلوے اسٹیشن کی تعمیر مبارک۔۔ مگریہی کثیر سرمایہ اگر اوکاڑہ کی عوام کی مرضی کے مطابق طبی اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کیلئے خرچ ہوتا تو یقینا اوکاڑہ کے مریضوں کو علاج کیلئے لاہور نہ جانا پڑتا اور طالبعلم حصول تعلیم کیلئے لاہور کا رخ کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔ راقم الحروف بھی ن لیگ کی ترقی کے دعوں کو درست سمجھتا۔

میاں محمد نواز شریف لاہور تو کیا علاج کیلئے لندن بھی جا سکتے ہیں مگر عام پاکستانی کو اسکے ضلع میں کتے کے کاٹنے کے علاج کیلئے ویکسینشن بھی دستیاب نہیں۔تو پھر کیسی ترقی، کیسی حکومت؟؟
 72سال گزر گئے ایوب خان کی ترقی، اور نواز شریف کی تعمیرات بہتر معشیت کے دعوے، آج حالت یہ ہے کہ ریلوے کی زمینوں پر قبضہ، بد حالی ہے۔لاہور ریلوے اسٹیشن سے 29ٹرینیں ملک بھر کیلئے روانہ ہوتی ہیں جبکہ 14ٹرینیں آج بھی معطل ہیں جو کبھی ریلوے کا حصہ تھیں۔

یہ سب کچھ ہونے کے بعد عام آدمی نے اپنی زندگیوں میں بہتری کے لیے تبدیلی سرکار کو ووٹ کیا اب یہ تبدیلی سرکار کی ذمہ داری ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے عملی اقدامات کرے۔
 نمائشی منصوبوں کی جگہ عام آدمی کی بہتری کیلئے اقدامات کرے۔ معشیت کے لیے پالیسی مرتب کرتے ہوئے ریلوے کی بحالی کو سر فہرست رکھا جائے کیونکہ بہتر سفری سہولیات کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس سہولت کی کامیاب فراہمی سے قومی آمدن میں اضافہ ہوگا۔ معیشت میں بھی بہتری آئے گی۔ترقی کا سفر ریل کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :