
جمہوریت اور سیاسی رویے
جمعرات 16 جنوری 2020

سلمان احمد قریشی
(جاری ہے)
ووٹ کو کس نے عزت دینی ہے،سیاسی رہنماؤں نے اور سیاسی جماعتوں نے۔
مگر وہی ووٹ قابل عزت ہیں جو مرضی، منشاء اور ذاتی سیاسی نظریہ کے حق میں ڈالے گئے۔ مخالفت میں پڑنے والے ووٹ قابل عزت نہیں، ان ووٹوں کے پیچھے سازش اور خفیہ ہاتھ نظر آتے ہیں۔ لیڈر شپ پارٹی ورکر کو عزت نہیں دیتی، سیاسی جماعتوں میں اجارہ داریاں ہیں۔ پارٹیوں کے اندر جمہوریت ہے نہ لیڈروں کا انداز جمہوری ہے۔ جمہوریت تو نام ہی برداشت کا ہے۔ سنجیدگی سے، شرافت سے، بصیرت سے عوامی مسائل کے حل کی کوشش جمہوریت ہے مگر جمہوریت صرف وہ اچھی لگتی ہے جس میں اقتدار نصیب ہو۔ اپوزیشن کی اہمیت کرداراور اس کو برداشت کرنے کا کلچر ہماری جمہوریت میں نہیں۔ جمہوریت اور جمہوری روح کے برخلاف عمل کے بعد ووٹ کو عزت دو کا نعرہ میری فہم سے تو بالا تر ہے۔ ہاں رائج سیاسی نظام میں یہ نعرہ عام فہم ہے جس کا مطلب ہے اقتدار مخصوص سیاسی ٹولے ہی کا حق ہے۔ سیاسی مخالفین کو کرپٹ، غدار اور ملک دشمن جیسے القابات سے نواز کر سیاسی شہرت کا حصول ہی جمہوری طرز عمل ہے۔ ہماری سیاسی نظام کی یہ وہ کمزوری ہے جس سے انتخابات تو جیتے جا سکتے ہیں جمہوری نظام استحکام نہیں مل سکتا۔جنرل ضیاء الحق کا اقتدار ٹھیک، جنرل جیلانی اور جنرل درانی کی معاونت درست،مگر پرویز مشرف قابل قبول نہیں۔ جب سیاسی مخالفین کو ملک توڑنے والے اور سکیورٹی رسک قرار دیاجائے تو ایسے سیاسی ماحول میں جمہوریت کیسے پروان چڑھتی۔اقتدار کی میوزیکل چئیر کا خاتمہ صدر پرویز مشرف کی صورت ہی میں نکلنا ہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں سیاسی جماعتیں میثاق جمہوریت پر مجبور ہوئیں۔ 14مئی 2006کو لندن میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بینظیر کی وطن واپسی کے نیتجہ میں جدہ میں مقیم جلا وطن جمہوری خاندان کی پاکستان بر سر اقتدار آنے کے لیے تشریف لایا۔ پرویز مشرف کے دور میں سیاسی استحکام بھی تھا، معیشت بھی بہتر تھی اور میڈیا بھی آزاد۔ خطے میں افغانستان کے حالات کے نتیجہ میں دہشتگردی کا سامنا ضرور رہا۔بینظیر کی شہادت کا واقعہ نہ ہوتا تو پرویز مشرف کے اقتدار کا خاتمہ بھی نہ ہوتا۔ملک میں الیکشن ہوئے پی پی پی پر سر اقتدار آئی، پھر کیا تھا میثاق جمہوریت ایک طرف، میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا تو قائد جمہوریت نے کالا کوٹ زیب تن کر لیا۔ افتخار چوہدری کی مہربانی سے اقتدار بھی مل گیا۔ان سیاسی حالات میں عمران خان تیزی سے مقبول ہوئے۔اب 3سیاسی جماعتیں جمہوریت کیلئے مصروف عمل تھیں۔ جمہوریت کیلئے قربانیاں دینے والی پیپلز پارٹی،تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی اور ووٹ کو عزت دلوانے کی دعویدار ن لیگ، کیا سیاسی منظر ہے کرپشن کے مقدمات الزامات، گالی گلوچ، اوئے توئے، لاڑکانہ، لاہور کی سڑکوں پر الٹا لٹکانے کی باتیں۔ جمہوریت تو چل رہی ہے، رویے بھلے جمہوری نہ ہوں۔جنہیں الٹا لٹکانا تھا وہ چل کر خود لٹکانے والوں کے گھرپہنچ گئے اور لٹکانے کے خواہشمند 50روپے کے اشٹام پر آج لندن جا پہنچے۔ تبدیلی آ ئی، تو تبدیلی والے بر سر اقتدار آگئے۔ پرویز مشرف کی کابینہ سے فارغ ہوئے تو آصف علی زرداری کے ساتھ کام کرنے کے بعد جمہوریت کے کچھ امین تبدیلی قافلے کا حصہ بن گئے۔ آج اسلام آباد میں اقتدار کے حصہ دار ہیں۔ جمہوریت زندہ باد۔۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلمان احمد قریشی کے کالمز
-
گفتن نشتن برخاستن
ہفتہ 12 فروری 2022
-
نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا عزم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
کسان مارچ حکومت کیخلاف تحریک کا نقطہ آغاز
پیر 24 جنوری 2022
-
سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت
بدھ 12 جنوری 2022
-
''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل
بدھ 29 دسمبر 2021
-
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ
اتوار 19 دسمبر 2021
سلمان احمد قریشی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.