''حکومت کہیں نہیں جارہی''

ہفتہ 4 جولائی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

اپنے نظریے پر کھڑا ہوں، حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرونگا۔مجھے ناکام کرنے کی سازش ہورہی ہے مگر کچھ نہیں ہوگا۔مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو سب اچھا ہوگا اگر9لوگوں سے سمجھوتا کرلوں تو 5سال آسانی سے پورے کر سکتا ہوں۔یہ ملک کو تباہی کے دھانے پر لے آئے، ان سے کیسے ہاتھ ملاوں۔۔۔؟
قارئین کرام! یہ تھے الفاظ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے جب وہ ارکان اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ اور ملاقات کے دوران اظہارخیال کر رہے تھے۔

انھوں نے مسلم لیگ (ن) کو مافیا کی سرپرست جماعت قرار دیا۔انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے نظریات سے ہٹ کر تباہ ہوئی۔اس ملک کو صرف اور صرف تحریک انصاف ہی بدل سکتی ہے۔
آج پاکستان جس معاشی بدحالی، اقتصادی بحران، سیاسی ابتری اور اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہے اسکے یوں تو کئی اسباب ہیں لیکن ایک دوسرے پر غلبہ اور زیادہ سیاسی اقتدار کی خواہش سب سے اہم وجہ ہے۔

(جاری ہے)

خود غرضی اور سستی سیاسی شہرت حاصل کرنے کے لیے متفقہ پالیسی یا سیاسی تعاون کو اپنی سیاست کے خاتمہ قرار دینا ہرگز جمہوری رویہ نہیں۔
اتحادی حکومت ہمیشہ مفاہمت پر مبنی رویہ اختیار کرتی ہیں۔ مگر پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے خلاف الزامات کے حوالہ سے سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہے۔ الیکشن 2018ء میں عمران عددی اکثریت حاصل نہیں کرسکے، انہیں اتحادی حکومت قائم کرنا پڑی، الیکشن سے قبل پی ٹی آئی میں مختلف الخیال سیاسی شخصیات شامل ہوئیں اور ایک نئی پی ٹی آئی الیکشن میں گئی۔

عمران خان حکومت بنانے میں تو
 کامیاب ہوگئے مگر ایک سیاسی جماعت کا بہتر تاثر قائم نہ کر سکے۔ پارٹی کے نظریاتی کارکنان میں اضطراب، وفاقی وزراء میں اختلافات، اب اتحادیوں کی ناراضگیوں جیسے اندرونی چیلنجز درپیش ہیں تو ملکی سطح پر اقتصادی مشکالات موجود ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور حکومت کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔اقتصادی حالات مشکل، سیاسی ساکھ خراب اور عوامی مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

وہ تبدیلی جسکی توقع کی جارہی تھی نظر نہیں آرہی۔
وزیراعظم عمران خان سازش کی بات کرتے ہیں، سازش تو اندر سے ہوتی ہے، اپوزیشن تو حکومت کی کھلی مخالفت ہی کرتی ہے۔ گڈ گورننس اور عام آدمی کے لیے ریلیف کے اقدامات تو حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس طرف توجہ دیں۔ مسلم لیگ (ن) مافیا کی سرپرست ہے تو ان مافیاز کو کنٹرول کرنا بھی حکومت ہی کا فرض ہے۔

اب مسلم لیگی قیادت کے خلاف محض بیان بازی سے زیادہ عرصہ کام نہیں چلایا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے اہم مسائل پر مشاورت اور متفقہ پالیسی سامنے لائی جائے۔ حکومت کی رہنمائی میں سیاسی قیادت کو قدم آگے بڑھاناہوگا۔سیاسی عمل میں عام آدمی کی زیادہ سے زیادہ شرکت ضروری ہے۔ صرف اختلاف، الزام تراشی سے کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔

پی ٹی آئی نے جب مختلف سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت قائم کی تو اب مقصد آئینی مدت پوری کرنا ہے یا بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنا ہے۔۔؟ یہ سوال اہم ہے۔کورونا وائرس کے پھیلاو کی روک تھام کے حوالہ سے بھی حکومت یکسو نظر نہ آئی۔پہلے سندھ سرکار کی پالیسی کو اختیار کیا گیا اور مکمل لاک ڈاون ہوا۔جب عالمی سطح پر وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی تعریفیں ہونے لگیں تو وزیراعظم عمران خان لاک ڈاون کے خلاف بولنے لگے۔

اسلام آباد سے لیکر پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، جی بی، اے جے کے ہر جگہ مکمل لاک ڈاون ہوا۔
جیسے ہی لاک ڈاون ختم ہوا ملک میں کورونا کا پھیلاو شدت اختیار کرتا گیا۔پھر سمارٹ لاک ڈاون ہوا جس پر وزیر اعظم فخر کرتے ہیں کہ کورونا سے پیدا شدہ بحرانی کیفیت میں ملک کو درست سمت رکھنے کے لیے یہ تدبیر کام آئی۔ حکومت کے مطابق کورونا کیسز کم ہورہے ہیں جبکہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹرز ایسویسی ایشن کا کہنا ہے سمارٹ لاک ڈاون کا کوئی فائدہ نہیں،حکومت ایمرجنسی کا اعلان کرکے عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق مکمل لاک ڈاون کا اعلان کرے۔

کورونا کیسز کم نہیں ہوئے بلکہ حکومت کی جانب سے کورونا ٹیسٹوں کی تعداد میں ہی کمی لائی گئی ہے۔جس کی وجہ سے مریضوں کی کم تعداد سامنے آرہی ہے جب تک حکومت کل آبادی کے 2فی صد کی رینڈم ٹیسٹنگ نہیں کرتی اصل حقائق سامنے نہیں آئیں گے۔بڑے شہروں میں دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاون ناگزیر ہے۔ سیاسی معاملات ایک طرف اس آزمائش میں بھی حکومت ماہرین کی سننے کی بجائے اپنے موقف پر ہی ڈٹی ہوئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان آپ ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں مگر عام آدمی نہیں۔ ایک طرف مہنگائی دوسری طرف صحت کے مسائل اب جذباتی نعروں اور باتوں سے کام نہیں چل سکتا۔ آپ کرپشن کے خلاف آگے بڑھیں مگر عام آدمی کے مسائل بھی تو حل کریں۔پٹرول مہنگا ہونے پر مسلم لیگ (ن) بھی اسی انداز میں اپنے فیصلے کا دفاع کرتی تھی جیسے آج پی ٹی آئی کی حکومت عالمی سطح پر قیمتیں بڑھنے اور پاکستان میں اب بھی دیگر ممالک سے سستا پٹرول کی دلیلیں دیتی نظر آتی ہے۔

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے عام آمی کے لیے کوئی خوشخبری نہیں آئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسامہ بن لادن کو شہید کہہ کر سیاسی ماحول کو تلخ اور دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ کوشش کی۔ پی پی پی کے چیرمین بلاول بھٹو کی طرف سے بجٹ اجلاس میں یہ کہنا کہ جس اسامہ بن لادن نے پاکستان کے بچوں کو شہید کیا افواج پاکستان کے جوانوں کو شہید کیا اسے شہید کہنا بزدلی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان احسان اللہ احسان اور حکیم اللہ محسود جو طالبان کے دہشت گرد تھے انکے خلاف نہیں بول سکتے۔کورونا کی وجہ سے ہمارے مسائل، بجٹ اجلاس اور حکومت اپوزیشن ایک پیج پر تو کیا ہوتی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں نیا موضوع ہی چھیڑ دیا۔اسکے کیا محرکات ہیں اور حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ہیں وہ بنیادی سوالات جس کا جواب حکومت کو دینا ہیں۔

آج نہیں تو کل حکومت اس رویہ پر ضرور شرمسار ہوگی۔ بلاشبہ حکومت کرپشن پرسمجھوتہ نہ کرے مگر سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کی ذمہ داری کا احساس تو کرے۔بجٹ پر اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر کے بجٹ کا پاس ہونے میں حکومت کے لیے خوشی کا پہلو ہے مگر بجٹ میں غریب کے لیے خوشی یا اطمینان کا کوئی جواز نہیں۔حکومت کہیں نہیں جارہی درست۔۔۔مگر درست سمت میں تو آگے بڑھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :