''غریب اورکہاں تک ستم کی زد میں رہے''

بدھ 22 جولائی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

ابر رحمت کیا برسا! کراچی، لاہور، پشاور سب شہر جل تھل۔۔۔پنجاب میں ایک ہی روز میں بارش کے دوران حادثات کے نتیجہ میں 20 انسانی زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے۔مون سون میں ہر سال ملک بھر میں ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گلیاں، محلے، بازار، اہم شاہراہیں،نشیبی علاقے سب زیرآب، ہر طرف پانی ہی پانی۔
خادم اعلی شہباز شریف دس سال مسلسل بلاشرکت غیرے وزارت اعلی کے منصب پر فائز رہے۔

انکی ذوق تعمیرات اور طرز حکمرانی کا ایک زمانہ معترف ہے۔پنجاب کا سارا بجٹ صرف لاہور پر لگاتے رہے۔ مگر آج بھی بارش کے بعد دارالحکومت میں جل تھل ایک ہے۔باقی صوبہ کی کیا بات کریں۔شہباز شریف کے لانگ شوز تو میڈیا نے مشہور کردیے لیکن نکاسی آب کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔وقت بدلہ حکومت بدلی اب وزیر اعلی عثمان بزدار بھی بغیر سیکیورٹی کے خود گاڑی چلا کر بارش میں سڑکوں پر گھومتے ہیں۔

(جاری ہے)

حاکم بدلے مگر رویہ نہ بدلا، طور طریقے وہی پرانے، حکمران، افسران کو محض کیمرہ کے سامنے فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایات دیتے نظر آتے ہیں۔ ''جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے ''، یہ پانی غریب کے گھروں تک پہنچ جاتا ہے۔مالی وجانی نقصان ہوتا ہے مگر خان اعظم، عمران خان قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو کے بارش کے حوالہ سے بیان کی نقلیں اتارتے نظر آتے ہیں۔

اتنا وسیع القلب اور اہل علم وزیراعظم جسکو بارہ موسموں کا ادراک ہو وہ پانی کے غریب کے آشیانوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کی بجائے نقلیں اتارنے پر ہی خود کو ہیرو سمجھے تو پھر ہمارے حالات کیوں کر بدلیں گے۔۔۔؟73سال بیت گئے مگر بنیادی سہولیات زندگی سے محروم عوام ہر حکمران سے امید لگائے پانی میں بھی زندہ باد، مردہ باد کرنے کو تیار ہیں۔


ایک طرف ہمیں ہر سال سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ پیلی ٹیکسی، میٹروبس، اورنج لائن اور موٹرویز یہ ہیں ہماری ترجیحات۔۔۔۔برسات سے قبل انتظامات کے دعوے، ندی نالوں، سیوریج سٹم کی صفائی کے احکامات، اس مد میں کروڑوں کے اخراجات،آج بھی جمہوری پاکستان میں سڑکیں زیر آب ہیں۔
نیشنل میڈیا پربارش کی صورتحال پر کوریج کچھ اس انداز سے ہوتی ہے ''کراچی میں بارش،حکومتی دعووں کا پول کھل گیا،زندگی مفلوج''- جہاں چشم پوشی مقصود ہو وہاں کی خبر اس طرح نشر ہوتی ہے۔

شہر میں بارش، سٹرکیں زیر آب، پانی کی فوری نکاسی کے لیے عوامی نمائندے افسران سمیت سڑکوں پر موجود، احکامات پر فوری عمل درآمد کی ہدایت۔ موسم سے لطف اٹھانے کے لیے من چلے سڑکوں پر نکل آئے۔۔۔۔اللہ اللہ خیر صلہ۔30منٹ کی بارش کراچی کے حکمرانوں کی کارکردگی کا پول کھول دیتی ہے مگر 73سال سیان مسائل کے ذمہ دار اب بھی ان بنیادی مسائل سے ناآشنا ہیں۔

ہر نئی حکومت سے امید اور جانیوالے پر تنقید، یہ ڈھور مرے نہ کوا کھائے کے مصداق ہے۔
پنجاب کے حوالہ سے تبدیلی سرکار کی کارکردگی کے حقائق چشم کشا ہیں۔مالی سال -20-2019ء کے ترقیاتی بجٹ کا صرف 44%خرچ ہوا۔جبکہ کے پی کے میں بجٹ کا صرف 35%ہی خرچ ہوا، 65%بغیر استعمال ہوئے واپس خزانے میں چلا گیا-
 پنجاب حکومت کی کارکردگی کے بارے سپیشل برانچ کی رپورٹ بھی قابل غور ہے۔

پنجاب میں 36اضلاع میں سے35اضلاع میں گندگی کے ڈھیر، صفائی کا نظام ناقص، جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پڑا ہے۔ سالانہ اربوں روپے صفائی کے نام پر خزانے سے خرچ ہوتے ہیں۔لیکن صفائی کرنے والے محکمے اور
 ذمہ دار ان ناکام ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا آبائی شہر میانوالی، صوبائی دارلحکومت لاہور اور وزیراعلی عثمان بزدار کا ضلع ڈیرہ غازی خان میں بھی گندگی کے ڈھیر ہیں۔

جبکہ فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، اوکاڑہ سمیت 35اضلاع میں صفائی کے انتظامات انتہائی ناقص قرار دیئے گئے ہیں۔میونسپل ورکرز کے پاس صفائی کی اہلیت ہی موجود نہیں۔ضلعی انتظامیہ صفائی کے معاملات کو بہتر بنانے میں دلچسپی بھی لیتی نہیں۔ یہ رپورٹ وزیر اعلی پنجاب کو پیش کردی گئی ہے۔صرف گوجرانوالا کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا گیا۔
قارئین کرام! کراچی کے کوڑا پر سیاست کرنے کی کوشش کرنے والی پی ٹی آئی کے لیے یہ رپورٹ شرمندگی کا باعث ہے۔

راقم الحروف میونسپل کارپوریشن اوکاڑہ کی اس بری کارکردگی کے حوالہ سے پہلے ہی مایوسی کا شکار ہے۔ساوتھ سٹی اوکاڑہ کی صفائی کی ابتر صورتحال پر تحریری درخواست ڈپٹی کمشنراوکاڑہ کو گزاری، مگر صد افسوس چیف آفسیر میونسپل کارپوریشن ہدایت صرف پی ٹی آئی کے مقامی رہمناوں سے ہی لیتے ہیں انھیں عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔میڈیا کو اشتہارات دے کر شہر کو گرین اینڈ کلین پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔

حقیقت میں ریلوے روڈ پر گٹروں کا گندہ پانی ایک سال سے کھڑا ہے جابجا گندگی کے ڈھیر، صفائی ستھرائی کے لیے تعینات عملہ ہر گھر سے پیسے لینے کے باوجود کام نہیں کرتا۔ یہ سرکشی چیف آفیسر کی خصوصی شفقت کا نتیجہ ہے۔بلدیاتی نمائندوں کے نہ ہونے کی وجہ سے چیف آفیسر کی چاندی ہے۔ حکومت سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ جبکہ عام آدمی کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔


12کروڑ آبادی پر مشتمل پنجاب میں 7سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں قائم ہونے کے باوجود معاملات جوں کے توں ہیں۔لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں چھ مینجمنٹ کمپنیاں ہیں۔ مگرنتائج صفر۔۔۔
مون سون میں کہیں بارش کے پانی میں گاڑیاں بند اور کئی موٹر سائیکل میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ایسے میں عوام حسرت بھری نگاہ سے نئے پاکستان کے حکمرانوں کو دیکھتے ہیں۔

بارش سے پہلے انتظامات کیے ہوتے تو آج زندگی مفلوج نہ ہوتی۔حکومت قدرتی آفات میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کی مالی امداد کرکے سمجھتی ہے کہ فرض ادا ہوگیا اور عام آدمی اپنی سیاسی مجبوریوں کو لیکرخاموش ہے۔ارباب اختیار اگر بارش سے پہلے غریب کی چھت کا سوچ لے تو یہ غریبوں اور انکے معصوم بچوں پر نہ گرے۔بجلی کے تار انسانی جان کے خاتمہ کا باعث نہ بنیں۔

آخر میں ایک سیاسی بات ذوالفقارعلی بھٹو کہتے تھے کہ میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں جسکی چھت ٹپکتی ہے، بھٹو کا زندہ ہونا پی ٹی آئی کے لیے چیلنج ہے۔ عمرانی سیاست کے ماننے والے سندھ سے بھی بھٹو کو نکالنا چاہتے ہیں تو غریب کی چھت کو ٹپکنے سے کیوں نہیں روکتے۔ سیاست میں نفرت پھیلانے سے نہیں عوام کے مسائل حل کرنے سے زندگی ملتی ہے۔ آخر کب تک یہ جورو ستم قیامت ڈھاتے رہیں گے۔کوئی ایک صوبہ، کوئی ایک شہر کب اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات دینے میں کامیاب ہوگا جو حکومت وقت کا فرض ہے۔
سہمی ہوئی ہے جھونپڑی بارش کے خوف سے
محلوں کی آرزو ہے کہ۔۔۔۔۔بارش تیز ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :