''یہ ہسڑی ہے''

جمعہ 9 اکتوبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ پارٹی آفس میں سابق صوبائی صدور کی تصاویر میں شاہ محمود قریشی کی تصویر بھی ہے۔ہماری تجویز تھی کہ جو راہنما پارٹی چھوڑ گئے انکی تصاویر ہٹا دی جائیں۔ جس پر چیئرمین بلاول بھٹو نے ماڈل ٹاون لاہور میں واقع آفس سے ان تصاویر کو اتارنے سے منع کردیا۔

چیرمین بلاول بھٹو کا موقف تھا کہ '' یہ ہسڑی ہے''۔
قارئین کرام! بلاول بھٹو زرداری کے اس فیصلہ سے راقم الحروف متفق ہے۔تاریخ سے مفر ممکن نہیں۔ ہسڑی کو چھوڑ کر آگے بڑھا نہیں جاسکتا۔ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم صرف حال میں زندہ ہیں۔ماضی کو پڑھتے نہیں اور مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔صرف خوابوں میں خوش رہتے ہیں۔محض دلفریب نعروں سے ہی سیاسی استحکام لانا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم عمران خان بر سر اقتدار آئے تو سیاسی تبدیلی کے ساتھ جمہوریت، بہتری، انقلاب کچھ بھی تو نہیں آیا۔آصف علی زردای کا وزیر داخلہ شاہ محمود قریشی، نواز شریف کا گورنر پنجاب محمد سرور آج بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔ مشرف کی پارٹی ق لیگ سے پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور اب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے آج بھی حکومت میں ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے گورنر مخدوم سجاد حسین قریشی کا فرزند مخدوم شاہ محمود قریشی نیا پاکستان بنانے کا دعویدار ہے۔

یہ بھی ہسڑی ہے۔جبکہ مخدوم زین قریشی ہمارا مستقبل ہوگا۔خواب لے لو خواب، عام آدمی خواب خریدتے خریدتے سیاسی بصیرت بھی گنوا بیٹھا۔ان خوابوں کی سفاک تعبیر نے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ عالم اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بنادیا۔ حقیقت سامنے آئی تو یہ کہ بٰڑے بڑے سیاسی گھرانوں نے نظریاتی پٹڑیاں بدلیں۔

پی پی پی کے سابق صوبائی پنجاب صدر راوسکندر اقبال، محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر رہے۔ مشرف آئے تو پیڑیاٹ ہوئے۔ پہلے نظریاتی تھے جب پیڑیاٹ ہوئے تو وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کی کابینہ میں وزارت دفاع کا قلمدان ملا۔ انکی تصویر بھی پی پی پی آفس میں رہنی چائیے۔راوسکندراقبال مرحوم کی اہلیہ 2013ء میں پھر نظریاتی ہوئیں۔آج وہ اور انکے صاحبزادے نئے پاکستان کا حصہ ہیں۔

یہ بھی ہسڑی ہے۔ چیرمین بلاول بھٹو کا
 فیصلہ حکمت سے بھرپور ہے۔مستقبل کے لیے بہتر فیصلہ سازی کے لیے سیاست میں نظریات کا بیوپار کرنے والے لیڈروں کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے۔
 ہمیں سکول میں مطالعہ پاکستان میں پڑھایا گیا کہ قتل کے الزام میں بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جنرل ضیاء الحق جو صلواة وصوم کے پابند تھے، انہوں نے اسلام کے نفاذ کی عملی کوششیں کیں - ہمیں یہ نہیں پڑھایا گیا کہ وہ برسراقتدار کیسے آئے۔

۔۔؟ اسکا اخلاقی اور قانونی جواز کیاتھا۔۔۔؟ وزیراعظم بھٹو کے ساتھی عوامی حکومت سے اسلامی حکومت میں کیسے شامل ہوئے۔۔۔؟وہ تو اللہ بھلا کرے آصف علی زرداری کا انہوں نے آئین میں 18ویں ترمیم کرکے آئین سے آمر جنرل ضیاء الحق کے لیے صدر کے لفظ کو نکال دیا۔ ضیاء الحق کے لیے صدر کا لفظ تو ختم ہوگیا۔ مگر ایک اور تبدیلی آئی کہ آج جنرل ضیاء الحق کے وزیراعلی پنجاب نواز شریف 2020ء میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لیے اپنے بیٹوں کے ہمراہ لندن ہی سے ووٹ کو عزت دینے کے لیے اپنے کارکنان کے ذریعے جدوجہد کرنے پر تیار ہیں۔

آج ضیاء الحق کا وزیراعلی نواز شریف، اس وقت کے گورنر مخدوم سجاد حسین قریشی کے بیٹے مخدوم شاہ محمود قریشی کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔نوازشریف تنہا نہیں انکے ہمراہ جمہوریت کی راہوں میں مارے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضی بھٹو اور بی بی شہید کے کارکن بھی ہیں۔
ایوب خان کی آمریت کے خلاف بننے والی عوامی پارٹی پی پی پی نے یحیی خان، جنرل ضیاء الحق، نوازشریف کے انتقام زدہ احتساب اور مشرف کا بھرپور مقابلہ کیا۔

اب تبدیلی سرکار کے احتساب کے تحت عدالتوں میں اپنی صفائی دینے کے لیے بھی کھڑی ہے۔ پی پی پی کی لیڈر شپ پر ملک دشمنی کا الزام لگانے والے آج خود بھی اس الزام کی ذد میں ہیں۔ یہ مکافات عمل ہے اور ہسڑی بھی ہے۔کوئی کہتا ہے اسلام خطرے میں ہے، صدا بلند ہوتی ہے ملکی سالمیت خطرے میں ہے۔ جمہوریت کو خطرہ ہے، ووٹ کو عزت دینے کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔

ایسی ایسی بحثیں چھڑی رہتی ہیں جیسے ابھی کچھ ہونے والا ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ آئی پی ایس او کے حالیہ سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے چار پاکستانیوں نے ملک کی سمت کو غلط قرار دیا۔ یہ سروے کس حد تک ملکی حالات کی تصویر کشی کرتا ہے یہ الگ بحث ہے۔ جبکہ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عام آدمی پریشان ہے اور حکمران سب اچھا ہے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔


پاکستان میں جمہوریت کے حوالہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کردار کو سامنے رکھ کر میاں نواز شریف، مریم نواز کے حالیہ بیانیہ کو شرف قبولیت بخشا جائے تو ماننا پڑے گا کہ سیاست ایسا کھیل ہے جس میں وہی بڑا لیڈر ہے جو جس قدر خوبصورتی سے جھوٹ بول سکتا ہے ہو۔پی پی پی کی لیڈر شپ کی بصیرت تو سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن ماضی میں زندہ رہا نہیں جا سکتا، رہنا تو حال میں ہے اورفکر مستقبل کی کرنی ہے۔

ماضی سے سبق لے کر آگے بڑھنا ہے۔ پاکستان کی سالمیت، مستقبل اور عظمت کی خواہش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جمہوریت کو اولیت دیتے ہیں۔مگر سیاست دانوں کو ایک دوسرے کا اقتدار شاید اچھا نہیں لگتا۔ماضی کا سبق ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا اعادہ ہوتا تو کسی طالع آزما کو اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کا موقع نہیں ملتا۔مگر کیا کیا جائے یہ ہسٹری ہے۔

۔۔!!! پی ڈی ایم حکومت مخالف تحریک شروع کرنے سے پہلے ہی اتحاد کی سربراہی پر روٹیشن دینے پر اختلاف کا شکار ہے۔ ایسے میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھی خواجہ محمد صفدر کے فرزند خواجہ آصف نے بھی آصف علی زرداری کے بارے اختلافی بیان داغ دیا۔ آصف علی زرداری نے بہت محتاط انداز میں کہا کہ خواجہ آصف کا بیان اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے آرمی چیف سے ملاقاتیں کرنے والے لیگی رہنما سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان مقرر کیا گیا۔

ملاقاتیں ماضی قریب ہے اور ترجمانی حال ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تاریخ سے سیکھتے ہوئے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کی تصویر پی پی پی آفس سے نہ ہٹانے کا فیصلہ قابل تقلید ہے۔ تبدیلی سرکار بھی برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرے۔ اپوزیشن کو احتجاج کرنے دے۔ تاریخ فیصلہ کرتی ہے کس کا کیا مقام ہے۔ وقت کے ساتھ عہدے بدلتے ہیں دائمی رتبہ وہ ہوتا ہے جس سے تاریخ نوازتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :