''ووٹ کوعزت دو سے کام کو عزت دو تک''

جمعرات 16 ستمبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

ملک بھر کے 42کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے نتائج کوسامنے رکھیں اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیں تو ماننا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی ہی وہ واحد جماعت ہے جو ملکی سطح پرسیاسی حمایت رکھتی ہے۔ دوسری طرف آزاد امیدواروں کا بڑی تعداد میں جیتنا اور مسلم لیگ (ن)، پی پی پی کا پنجاب اور سندھ تک محدود ہونا موجودہ جمہوری نظام کے لیے نیک شگون نہیں۔

کثیر جماعتی سیاسی نظام میں علاقائی سطح پر شخصیت کا موثر اور بااثر ہونا نظریاتی سیاست کی کمزوری کی نشاندہی ہے۔ یہ بااثر شخصیات باہم مل کر ملکی سیاسی نظام کو چلنے نہیں دیتیں۔یہ روایتی سیاسی خاندان وقت اور ضرورت کے تحت فیصلے کرتے ہیں اور اس طرز سیاست سے ہمیشہ نظریات کمزور ہوتیہیں۔ علاقائی محرومیاں بڑھتی ہیں اور یکساں ترقی جو ہر علاقہ کا حق ہے سلب ہوجاتی ہے۔

(جاری ہے)

لاہور پر پورے پنجاب کا بجٹ خرچ کرکے ترقی کے دعوے اس تقیسم کو مزید بڑھاتے ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے نتائج میں یہ سب کچھ دیکھا جاسکتا ہے جسکا ذکر راقم الحروف سطور بالا میں کر رہا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ لاہور کی پاپولر جماعت مسلم لیگ (ن) گوجرانوالا، اوکاڑہ اور ملتان میں کامیابی تو ایک طرف تسلی بخش نتائج بھی حاصل نہ کرسکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر ہوا کرتی تھی وفاق کی سب سے بڑی پارٹی پنجاب میں ایک نشست جیتنے کی اہلیت بھی کھو بیٹھی۔


قارئین کرام!کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات کے غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق ملک کے41 کنٹونمنٹ بورڈز کے 212 وارڈز میں 1560 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف 63 امیدواروں کی کامیابی کے ساتھ پہلے جبکہ مسلم لیگ (ن) 59 امیدواروں کی جیت کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ 52 آزاد امیدوارکامیاب ہوئے اور پیپلزپارٹی کے 17 امیدوار،ایم کیو ایم کے10، جماعت اسلامی کے 7، بی اے پی اور اے این پی کے 2,2 امیدوار جیتے۔

صرف پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے 51، آزاد 32 اور تحریک انصاف کے 28 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔سندھ سے پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے 14،14 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ ایم کیو ایم 10، آزاد 7، جماعت اسلامی 5 اور (ن) لیگ کے3 امیدوار کامیاب ہوسکے۔

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف 18، آزاد 9، (ن) لیگ کے 5،پیپلزپارٹی کے 3 اور اے این پی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے۔بلوچستان سے 4 آزاد، تحریک انصاف 3 اور بی اے پی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ بلوچستان میں(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کا کوئی امیدوار بھی جیت نہ سکا۔کراچی میں پاکستان تحریک انصاف 14 پی پی پی کے 11, جماعت اسلامی 5،ایم کیو ایم پاکستان اور (ن) لیگ کے 3,3 امیدوار کامیاب ہوئے۔

لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ یعنی 15 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے 3 اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا، پیپلز پارٹی کا لاہور سے کوئی امیدوار جیت نہ سکا۔راولپنڈی میں بھی مسلم لیگ (ن) کے 24 امیدوار کامیاب ہوئے، تحریک انصاف کے 7،3 آزاد امیدوار اور جماعت اسلامی کے 2امیدوارکامیاب ہوسکے۔حیدرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان 7 اور پیپلزپارٹی کے 3 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف اور (ن) لیگ کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔


2015کے کنٹونمنٹ بورڈز انتخابات میں برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن)نے 68،پی ٹی آئی 43،آزاد 55،ایم کیو ایم 19،پی پی پی 7،جماعت اسلامی 6 نشتیں جیتیں تھیں۔دونوں انتخابات کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی اور پی پی پی کی نشستوں کی تعداد بڑھی ہیں۔پی ٹی آئی جو 2015میں43نشتیں جیتی تھی 2021میں 63پر کامیاب رہی۔پی پی پی 2015کو 7نشتوں پر کامیابی تک محدود تھی آج 17نشتوں پر کامیابی سمیٹنے میں کامیاب رہی۔

جبکہ مسلم لیگ (ن)68 سے 59 نشستوں پر آگئی۔ان نتائج کی بنیاد پر کسی جماعت کی مقبولیت بڑھنے کا دعوی مکمل طور پر درست نہیں ہوسکتا لیکن سیاسی رجحان کا اندازہ کسی حد تک ضرور ہوتا ہے۔ 2015سے2021تک کے سیاسی سفر میں آزاد امیدواروں کی کامیابی 55سے 52نشتیں رہنا اس بات کو واضح ضرور کرتا ہے کہ نظریاتی سیاست مضبوط نہیں ہورہی۔ ہم اسی ذاتی مفادات کے تابع رہ کر فیصلہ سازی کرتے ہیں۔

سیاسی نعرے صرف جذباتی حد تک ہیں پارٹی پروگرام اور منشور اہمیت ہی نہیں رکھتے۔
بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی اصل راہ ہیں، بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے جمہوری ادارے مستحکم ہوتے ہیں۔ہم ابھی اس بیناد کو مضبوط نہیں کرسکے۔پارٹیاں شخصیات کی محتاج ہیں۔ وقتی فائدے کو سامنے رکھ کر فیصلے ہوتے ہیں۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو راتوں رات تبدیل کرکے کام کو عزت دو کو اپنا لیا۔

نچلی سطح پر کامیابی کے لیے یہ بیانیہ سود مند تھا۔ لاہور میں پی ٹی آئی نے اپنی شکست کی ابتدائی رپورٹ میں ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا ہی قرار دیا ہے۔ مہنگائی اور دیگر معاملات زیر غور نہیں رہے۔
مسلم لیگ(ن) کے ترقیاتی کام کا محورو مرکز صرف لاہور ہی رہا اوراسی لئیانہیں لاہور ہی سے کامیابی حاصل ہوئی مگر پی ٹی آئی کی کارکردگی اس حوالہ سے مختلف ہے۔

وزیراعلی پنجاب نے صوبے میں یکساں ترقی کے لیے 360ارب کاڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پیکج کا اعلان کیا۔ماضی کے نظر انداز کیے گے علاقوں میں یکساں ترقی کو ضروری سمجھاگیا۔یہی وجہ ہے پی ٹی آئی پاکستان بھر میں نظر آئی اور مسلم لیگ (ن) لاہور اور پنجاب کے چند علاقوں تک ہی محدود رہی۔ پی پی پی نے تو غیر اعلانیہ پنجاب سے دستبرداری کا اعلان ہی کر رکھا ہے لہزا اسکا فوکس صرف سندھ رہا اور سندھ میں پی پی پی مضبوط ہورہی ہے۔

سیاسی میدان میں اس طرح کی سیاست وفاق اور جمہوریت کے لیے بہتر نہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی محدود سیاست پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج نہیں ہوسکتی۔ سیاست نظریات اور منشور کے تحت ہی جمہوری ممالک میں کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن نتائج کو پیمانہ بنا کر عام انتخابات کے متعلق پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ البتہ کچھ عمومی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں جن میں پنجاب سے پیپلزپارٹی کی کمزور ترین سیاسی حثیت اور کے پی سے جے یو آئی کا صفایا ہے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کے برابر انتخابی سیاست میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی صرف ناتجربہ کاری اور ٹکٹوں کی تقسیم میں غلط افراد کے انتخاب کی وجہ سے وہ کئی جگہوں پر شکست کھارہی ہے۔ پی ٹی آئی بہتر حکمت عملی اپنائے تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن)اور پی ٹی آئی کم از کم برابر کی عوامی حمایت رکھتی ہیں۔سندھ میں پی پی پی پہلے سے مضبوط ہورہی ہے اور ایم کیو ایم قصہ ماضی بنتی جارہی ہے۔

مسلم لیگ(ن) نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو کام کو عزت دو سے بدل لیا۔پی پی پی بھی اگر الیکٹبلز کے انتظار کی پالیسی تر کردے اور عوامی سیاست شروع کرے تو کچھ بہتری آسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو صرف پنجاب میں لیڈر شب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے شاہ محمود قریشی سمیت ڈھیرے بندی کرنے والوں کو سائیٹ لائن کرکے کھلاڑیوں کو آگے لائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :