"میرے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے"

بدھ 1 جولائی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کی سیاست کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ حکومت وقت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی بہت بلند و بالا دعوے کرتی ہے لیکن اکثر کام اُن کے دعووں کے برعکس ہی ہو جاتا ہے ۔
عمران خان کی حکومت نے اپوزیشن کے بلند و بالا دعووں کے باوجود قومی اسمبلی سے بجٹ پاس کروا لیا اِس بجٹ کو پاس کروانے کے لئے وزیراعظم صاحب کو کافی پاپڑ بیلنے پڑے یہ محاورہ اِس زمرے میں لیا جاتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کو بجٹ پاس کروانے کے لئے کافی تگ ودو کرنا پڑی ۔

2019 کے بجٹ اجلاس میں ایسا بلکل بھی نہیں تھا ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی بجٹ سادہ اکثریت کے ساتھ منظور کروا لیا تھا لیکن اِس بار حالات کافی مختلف ہیں۔قومی اسمبلی میں بجٹ پاس کروانے کے دوران تحریک انصاف سادہ اکثریت سے بھی محروم رہی یعنی کہ حکومت کا 172 کا ہندسہ پورا نہ ہوا اور حکومت کو بمشکل160 ووٹ ہی مل پائے۔

(جاری ہے)

حالانکہ وزیراعظم صاحب کو یہ اندازہ تھا کہ ایسا اِس بار ہو گا کیونکہ تمام اتحادی جس میں ق لیگ ،ایم کیو ایم اور اختر مینگل صاحب کی جماعت شامل ہے۔

اِن سب کے وزیراعظم صاحب سے اعتراضات موجود تھے۔اِن کو منانے کا کام وزیر اعظم صاحب نے کچھ اراکین کے ذمہ لگایا جس میں عامر ڈوگر صاحب بھی شامل تھے اور حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم صاحب نے بجٹ اجلاس سے ایک دن پہلے ہی اراکین اسمبلی اور اتحادیوں کی بیٹھک سجا لی اور پرتکلف کھانے کا بھی اہتمام کیا گیا۔خیر منت سماجت کے بعد تحریک انصاف بجٹ پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔

اپوزیشن کو بھی 119 ووٹ پڑے کچھ اراکین غیر حاضر بھی رہے لیکن یہاں یہ بات حکومت کے لئے باعثِ تشویش ہے کہ اپوزیشن کے کسی رُکن نے بجٹ پاس کروانے کے حق میں ووٹ نہیں کیا اسمبلی میں موجود تمام اپوزیشن اراکین نے بجٹ کی مخالفت میں ووٹ دیا ۔۔
حکومت کے اتحادیوں نے بجٹ کو منظور کروانے کے حق میں ووٹ تودیا لیکن اُن کے اعتراضات آج بھی موجود ہیں۔

اخترمینگل صاحب آج بھی اتحاد سے الگ ہو کر حکومت سے باہر بیٹھے ہیں۔‏وزیر ہاؤسنگ اور مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہوں تو حکومت سے الگ ہونا کوئی جرم کہ بات نہیں ہے ۔کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم کی طرف سے بھی وزارتوں سے استعفے دیے گئے جس کے بعد معاملات پر کافی حد تک قابو پایا لیکن ایم کیو ایم کی ناراضگیاں اب بھی موجود ہیں۔

۔
۔اِس سب باتوں کا وزیراعظم صاحب کو احساس ضرور ہے کہ اُن پر خطرات منڈلا رہے ہیں اُن کے لئے وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا اب آسان نہیں رہا۔ اسی لئے بجٹ پاس ہونے کے باوجود بجٹ اجلاس میں تقریر کے دوران وزیراعظم صاحب کافی غصے میں دکھائی دیے اُن کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔حسبِ روایت اپوزیشن پر بھی اپنی بیان بازی جاری رکھی۔۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میں مائنس ہو بھی گیا تو کوئی اور آنے والا اِن کو نہیں چھوڑے گا اور ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ میرے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے ۔

یقیناً اِن دو باتوں کے مفہوم الگ ہیں لیکن عمران خان صاحب کو یہ اندازہ ضرور ہو چکا ہے کہ آنے والے دن اُن کے لئے نئی مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں ۔خان صاحب کو یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ مائنس ہو بھی سکتے ہیں کیونکہ ذرائع اِس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اسلام آباد میں متوقع وزیراعظم کے ناموں پر غور وفکر شروع ہو چکا ہے جس میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور پرویز خٹک کے نام شامل ہیں ۔

کیونکہ طاقتور حلقے اب یہ بھانپ چکے ہیں کہ پاکستان کے حالات کو بہتر کرنا اب عمران خان کے بس کی بات نہیں ۔خان صاحب کی طرف سے اِس بات کا دعویٰ کرنا کہ اُن کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے یہ سراسر تاریخ کو مسخ کرنے کے برابر ہے کیونکہ خان صاحب کو اِس بات کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے کہ جن لوگوں نے آپ کو وزیراعظم بنانے کے لئے تیار کیا اُن کے لیے چوائس کو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ۔

کیونکہ جب صدر زرداری اقتدار میں تھے تو اُس وقت ایسے حالات پیدا ہو گیے تھے کہ اسٹبلشمنٹ کو یہ سوچنا پڑا کہ کے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی کوئی تیسری پارٹی ہونی چاہیے جو آنے والے سالوں میں متبادل کے طور پر بھی سامنے آئے اور پھراسٹبلشمنٹ نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے کروائے جس میں 2011 کا لاہور میں جلسہ اور پھر کراچی میں مزار قائد پر جلسہ کروایا گیا ۔

2013 میں خان صاحب کو قومی اسمبلی میں33 سیٹیں بھی مل گئیں اور 2018 کے الیکشن میں وفاق میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔اِن باتوں کا عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ ایسا اب بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جن مقاصد کے لئے اُن کو لایا گیا اُس میں وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں ۔
اِس لیے پاکستان کی عوام کو یہ باور کرانا کہ میرے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ۔

تو یہ سراسر حقیقت کے منافی ہے۔ اِس حوالے سے میرا نقطہ نظر بھی اُن پاکستانیوں کی طرح ہی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہیں اور وزیراعظم عمران خان ہی رہیں کیونکہ اگر تحریک انصاف کی حکومت رہی لیکن خان صاحب کو مائنس کر دیا گیا تو ایسا ہونا اپوزیشن کے لئے نقصان دہ ہوگا کیونکہ جس طرح نواز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالا گیا اور مسلم لیگ ن اقتدار میں رہی لیکن پاکستان کے حالات بہترین سے بتدریج تنزلی کی طرف ہی گئے تو اب بھی ویسا ہی ہوگا کیونکہ تحریک انصاف کے پاس عمران خان کے علاوہ اور کوئی موزوں لیڈر شپ نہیں ہے اور عمران خان کی حالت بھی دو سالوں میں واضح ہو چکی ہے کہ کس طرح پاکستان کو ہر شعبے میں ہی تباہ کیا گیا ۔

اِسلئے اگر اِن کہ جگہ کسی اور کو وزیراعظم بنایا گیا جن کے نام میں اوپر مینشن کر چکا ہوں تو بگڑے ہوئے حالات مزید تباہی کی طرف ہی جائینگے۔۔
اِس لئے خان صاحب کو پانچ سال پورے کرنے چاہیں اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو عمران خان صاحب کی سیاست ہمیشہ کے لئے زندہ کر دی جائے گی ۔پاکستان ایک اور سیاسی شہید کا سامنا کرتا رہے گا جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :