"جےآئی ٹی رپورٹ اور عزیر بلوچ"

جمعرات 9 جولائی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

سندھ حکومت نے عزیر بلوچ کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے اور یہی رپورٹ سندھ ہائیکورٹ میں بھی جمع کروائی ہے ۔عزیر بلوچ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں ۔2009 میں رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد یہ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ بنے اور تب سے یہ منظر عام پر آئے اور بہت سے جرائم میں ملوث ٹھہرائے جاتے رہے ہیں ۔
سندھ حکومت نے عزیر بلوچ کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی ہے اِس رپورٹ میں براہ راست یہ کہیں نہیں لکھا کہ پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے نام عزیر بلوچ کی سرپرستی کرتے رہے ہیں ۔

آصف علی زرداری، فریال تالپور اور یوسف بلوچ کے حوالے سے یہ کہا جاتا رہا کہ انہوں نے عزیر بلوچ کی سر پرستی کی اِس لیے پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر علی زیدی نے اِس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ رپورٹ اصلی نہیں ہے جو پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے جاری کی ہے۔

(جاری ہے)

سندھ حکومت نے اِس رپورٹ کو شائع کرنے سے پہلے ردوبدل کیا ہے ۔اصلی رپورٹ کوئی اور ہے ۔


حکومت کی جاری کردہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ عزیر بلوچ کو بہت سی پارٹیز کی طرف سے یہ پیشکش بھی کی جاتی رہی کہ عزیر بلوچ اُن کی جماعت میں شمولیت اختیار کرے، پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی عزیر بلوچ کو یہ کہا جاتا رہا کہ ہماری پارٹی کو جوائن کریں یہ سب باتیں اِس رپورٹ میں واضح لکھی ہیں ۔اِس رپورٹ پر چھ اداروں کے دستخط ہیں جس میں ریجرز بھی شامل ہے رینجرز ایک وفاقی ادارہ ہے۔

اِس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عزیر بلوچ کے پیپلزپارٹی سے تعلقات رہے ہیں۔ لیاری کی عوام بخوبی واقف ہے کہ ماضی میں عزیر بلوچ پیپلزپارٹی کا اہم کارکن تھا اور عزیر بلوچ کی نجی تقریبات میں سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور دیگر ممبران کی شمولیت کے حوالے سے بہت سی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں لیکن دوسری طرف عزیر بلوچ کے ماضی کے بہت سے بیانات بھی رکارڈ کا حصہ ہیں جس میں عزیر بلوچ پیپلزپارٹی کی قیادت سے اعلان لاتعلقی کرتے نظر آتے ہیں اور خاص طور پر اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک سے بہت سے شکوے شکایات بھی کرتے ہوئے دکھائی دیے ۔

یہ باتیں اپنی جگہ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ عزیر بلوچ کو کراچی میں ٹارگٹ کلرز کا سرپرست بھی قرار دیا جاتا ہے کہ اِس نے سیکٹروں لوگوں کو قتل کروایا یا کیا لیکن عزیر بلوچ نے اپنے بیانات میں کئی دفعہ اِس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ کراچی کو پاک فوج کے حوالے کیا جائے ۔ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اگر کراچی کو پاک فوج کے حوالے نہ کیا گیا تو لاشیں گرتی رہینگی ۔


یہاں یہ بات بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے کہ کیا عزیر بلوچ اگر دہشتگردی کی سرپرستی کرتا یا اُسے اِس حوالے سے کوئی ذاتی مفادات تھے تو پھر وہ پاک فوج کی طلبی کا مطالبہ کیوں کرتا رہا اِس بات کا جواب تو شاید ڈھونڈنا آسان ہو کیونکہ اُس دور میں کراچی میں ایم کیوایم کی کافی وحشت طاری تھی جس سے بلکل انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا نہیں تھا ۔

یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ اُس نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے ٹارگٹ کلنگ کی ہو یا ٹارگٹ کلرز کی سرپرستی بھی کرتا رہا ہو۔۔
دوسری طرف اسی جے آئی ٹی رپورٹ میں ذولفقار مرزا کے بارے لکھا گیا ہے کہ ذولفقار مرزا نے عزیر بلوچ کو کافی مضبوط کیا جس کا وہ خود بھی اقرار کرتے رہے ۔یہی ذولفقار مرزا 2016 تک یہ کہتے رہے کہ میں عزیر بلوچ کے ساتھ ہوں، عزیر بلوچ میرے بھائی ہیں ۔


اور آج ذولفقار مرزا حکومت کے اتحادیوں میں شامل ہیں اِن کی بیوی فہمیدہ مرزا موجودہ حکومت کی وفاقی وزیر ہیں ۔تو اِس حوالے سے پی ٹی آئی کی حکومت کیسے خاموش ہے ۔ عزیر بلوچ کے سرپرست حکومت کے اتحادی ہیں اُن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حکومت ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہے لیکن عزیر بلوچ کے دوسرے سرپرست جو پیپلزپارٹی میں موجود ہیں جو حکومت کی اپوزیشن جماعت ہے اُس پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں ایسا دوغلا رویہ سیاسی مفادات کو استعمال کرنے کے لئے تو کیاہی جاتا ہے لیکن ایسی باتیں شفافیت پر سوالیہ نشان ضرور کھڑا کرتی ہیں کہ ایک طرف آپ جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کر رہے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ پیپلزپارٹی نے اِس میں ردوبدل کر کے اعلیٰ قیادت کو محفوظ رکھا ہے لیکن دوسری طرف اسی عزیر بلوچ کے سب سے بڑے سرپرست ذولفقار مرزا کے حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

حالانکہ ذولفقار مرزا کا نام اِس جے آئی ٹی میں موجود ہے اور وہ حکومت کے اتحادی بھی ہیں ۔عمران خان صاحب کو ذولفقار مرزا سے پوچھنا چاہئے کہ ایسا کیسے ہوتا رہا۔اور اگر خان صاحب چاہتے ہیں کہ واقعی سب کا شفاف احتساب ہونا چاہئے تو سب سے پہلے فہمیدہ مرزا کو وفاقی وزارت سے ہٹایا جائے تاکہ پیپلزپارٹی کے حوالے سے بھی وہ بات کرتے اچھے لگیں کہ پیپلزپارٹی عزیر بلوچ کی سرپرستی کرتی رہی اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اسی جے آئی ٹی رپورٹ پر وفاقی اداروں کے دستخط ہیں جو وفاقی حکومت کے زیرِ اثر ہیں ۔

اب ایسا تو قطعاً نہیں ہو سکتا کہ یہ ادارے بھی سندھ حکومت کے دباؤ میں آ گئے ہوں اور اِس رپورٹ پر دستخط کر دیے ہوں کہ عزیر بلوچ سے پیپلزپارٹی کا کوئی تعلق نہیں ۔لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی ایسی کئی جے آئی ٹیز بنائی گئیں وہ بھی متنازعہ ہوئیں لیکن موجودہ حکومت کا ہر رنگ ہی نرالا ہے ۔نوازشریف کے حوالے سے بنائی گئی اپنی رپورٹ پر بعد میں اعتراضات کیے گئے اور اُس کی شفافیت پر سوالات اُٹھائے گئے اب اِس جے آئی ٹی رپورٹ پر بھی وہی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ اپنے وفاقی اداروں کی منشاء کے مطابق بنائی ہوئی رپورٹ کو ہی متنازعہ بنا کر ایک بار پھر سے اپنے سیاسی ناقدین کو بولنے کے لئے راستے فراہم کیے جا رہے ہیں ۔


اِس بات سے ہرگز کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عزیر بلوچ کا پیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اِس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے عزیر بلوچ کو پارٹی میں شمولیت کی کئی بار پیشکش کی اور حکومت کے اتحادی عزیر بلوچ کے سرپرست رہے ہیں۔
اب کونسی جے آئی ٹی رپورٹ ٹھیک ہے یا کونسی غلط اِس بات کی انکوائری سپریم کورٹ آف پاکستان کو ہی کرنی چاہئے کیونکہ جو رپورٹ سندھ حکومت نے پبلش کی ہے وہی رپورٹ سندھ ہائیکورٹ میں بھی جمع کروائی گئی ہے اب اگر وہ رپورٹ غلط ہے جو سندھ حکومت نے پیلش کی ہے تو سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ‏ کیسے درست ہو سکتی ہے ۔

اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ سندھ حکومت کی جاری کردہ رپورٹ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ سے مختلف ہے تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔انسانوں کا خون اتنا سستا نہیں ہے کہ اُس حوالے سے رپورٹ بنائی جائے جس کو بعد میں متنازعہ بنا دیا جائے تاکہ اصل کرداروں کو بچایا جا سکے تو ایسا ہرگز قابلِ قبول بات نہیں ہے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :