"عروج و زوال کی داستان اور مسلم امہ"

پیر 28 ستمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

ایک وقت ایسا بھی تھا جب دنیا پر مسلمانوں کا راج ہوا کرتا تھا۔مسلمان اپنے ایمان کی طاقت سے کفار پر خوف طاری کیے ہوئے تھے۔ برصغیر پر سالوں حکومت مسلمان حکمرانوں نے کی ۔سینکڑوں سالوں تک غیر مسلم اکثریتی علاقے پر مسلم حکمرانوں کا راج رہا ۔سلطنتِ عثمانیہ دنیا کی وسیع ترین سلطنت کہلاتی تھی ۔جو دنیا کے تین برِ اعظموں پر مشتمل تھی جو 1299 سے لے کر 1922 تک پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی.کئی برسوں تک سپین پر مسلمانوں کا راج رہا۔

سپین پر مسلمانوں کا راج 711 عیسوی سے لے کر 1492 عیسوی تک رہا۔ ہر موڑ پر مسلمان فاتح ٹھہرے۔ لیکن وقت بدلا، حالات بدلے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمام مسلم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں۔ مسلمان کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے، اِن کی جگہ مغرب نے لے لی اور دنیا میں زلت و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بنی۔

(جاری ہے)

مسلمانوں میں اتحاد برقرار نہ رہ سکا اور نہ ہی وہ حکمران نصیب ہوئے جو مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرتے ۔

اِس وقت بہت سے مسلم ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں ۔جہاں امن و امان کے حالات کافی حد تک خراب ہیں ۔امریکہ اور اُس کے اتحادی نیٹو ممالک نے کئی مسلم ممالک پر گاہے بگاہے یلغار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دنیا کے حالات میں موڑ اُس وقت آیا جب امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا۔اِس واقعے کی آڑ میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔اور جنگ مسلط کر دی۔

افغانستان میں رچائی گئی جنگ پاکستان تک پھیل گئی اور پاکستان بھی دہشتگردی سے شدید متاثر ہوا ۔امریکی افواج نے جب عراق پر چڑھائی کی تو اِس جنگ کے اثرات پورے مشرقِ وسطیٰ تک پھیل گئے ۔یہاں کئی دہشتگرد گروہوں نے جنم لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اِن دہشت گرد گروہوں نے اپنا نیٹ ورک بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا یہ جنگ بھی سالوں تک موجود رہی جس میں صرف عراق نہیں بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کو ہر لحاظ سے متاثر کیا ۔

یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب عرب بہار کے نام سے ایک تحریک کا آغاز ہوا ۔یہ تحریک تیونس سے شروع ہو کر لیبیا، مصر، شام، یمن اور دوبارہ عراق تک بھی جا پہنچی۔عرب ممالک اِس تحریک کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے کئی حکمران جو دہائیوں سے اپنے ملکوں پر راج کر رہے تھے اُن کے اقتدار کا سورج غروب ہوا۔ اِن حکمرانوں کے خلاف چلائی گئی تحاریک میں اب تک لاکھوں افراد شہید، لاکھوں بے گھر اور اربوں کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے ۔

عرب ممالک اِس وقت اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اِن ممالک کے لاکھوں شہری ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ۔شام کی صورتحال اِس وقت سب سے زیادہ خراب ہے اور وہاں سے لاکھوں شامی شہریوں نے باقی ممالک میں ہجرت کی ہے کئی دہشتگرد تنظیمیں فعال ہیں جو معصوم شہریوں کا قتلِ عام کر رہی ہیں۔2003 میں وجود میں آنے والی شدت پسند تنظیم آئی ایس آئی ایس نے بہت سے عرب ممالک میں اپنی دہشتگردی کی کاروائیوں میں اُس وقت تیزی دکھائی جب عرب بہار کا آغاز ہوا اور ساتھ ہی القاعدہ نے بھی اپنے پنجے گاڑے اور بہت سے علاقوں پر قبضہ بھی جما لیا۔

لیکن حال ہی میں عراق کی حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا تھا کہ عراقی حکومت نے تمام شہریوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے کیونکہ اِس سے پہلے عراق ایک لمبے عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا۔
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ لاکھوں عراقی شہری ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ اور لاکھوں بےگھر بھی ہوئے۔ جو شہری بے گھر ہوئے اُن کو کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔

اور بنیادی ضروریات کی بھی شدید قلت پیدا ہوئی ۔شمالی افریقہ کے ملک لیبیا میں بھی یہی صورتحال ہے کہ وہاں خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور کئی یورپی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔اگر یمن کی بات کی جائے تو وہاں حالات مختلف نہیں ۔یمن بھی اِس وقت خانہ جنگی کا شکار ملک ہے۔ 2018 میں یمن میں حالات مزید خراب ہوئے ۔تقریباً 600000 افراد لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں اور لاکھوں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور کئی بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔

ایک طرف خانہ جنگی اور دوسری طرف بھوک و افلاس کا راج ہے۔ اِس ساری صورتحال میں کہیں نہ کہیں مسلم ممالک کے حکمرانوں کی غفلت اور لاپرواہی کا پہلو نمایاں پایا جاتا ہے ۔آخر ایسا کیوں ہوا جس کی وجہ سے مسلمان ممالک کو آج یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں ۔کشمیر اور فلسطین میں ظلم و بربریت الگ سے ہے ۔اسرائیل اور انڈیا نے اِن مسلمان ریاستوں پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے لیکن مسلمان ممالک اِن کے قبضے سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ابھی تک بےبس ہیں ۔

اِس ساری صورتحال میں مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا کردار ہمیشہ سے ہی سوالیہ نشان رہا ہے ۔یہ تنظیم مسلمان ممالک کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔شاید ابھی بھی وقت ہے کہ تمام مسلم ممالک اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کریں او آئی سی کو فعال کیا جائے.تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے۔ مسلم ممالک کا اتحاد ہی مسلمانوں کو کفار کے شر سے بچا سکتا ہے ورنہ مسلم دنیا کی روشن تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :