
نیب کو بند کیا جائے، اپوزیشن کا مطالبہ ، جائز و ناجائز؟
ہفتہ 25 جولائی 2020

سید عباس انور
(جاری ہے)
چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی تعیناتی کے بعد نیب ایک دم سے ایکٹو ہوا اور جو انکوائریاں روک دی گئیں تھیں ، ان کو ری اوپن کیا گیا، اکتویر 2018ء کے گیلپ سروس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 69 فیصد عوام نے نیب پر اعتماد کر اظہار کیا۔اس کے علاوہ 23 اکتوبر 2018 ء کو ورلڈ اکنامک فورم میں بھی نیب کی کارکردگی کی بہت اچھے الفاظ میں تعریف کرتے ہوئے سراہا گیا۔2000 ء میں مشرف دور میں اس ادارے کو بنایا گیا اور اس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000ء سے اب تک نیب نے کرپٹ سیاست دانوں اور بے ایمان مافیاز سے 470 ارب روپے وصول کئے اور قومی خزانے میں جمع کرائے۔ جو ان حرام خور مافیاز اور سیاست دانوں نے ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹا تھا۔ یاد رہے کہ اس قدر پیسہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک کبھی کسی ادارے نے بھی ریکور نہیں کیا۔ابھی تو نیب کو ایک کمزور ادارے کے طور پر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ابھی اس ادارے میں کرپشن انکوائریاں کرنے کیلئے مطلوبہ تعداد میں افسران کی کمی ہے، اختیارات اور ٹریننگ کی کمی بھی ان کی راہ میں حائل رہتی ہے۔ اور قارئین کرام خود سوچیں جب ان سارے خدشات کو دور کر دیا جائے گا تو یہی ادارہ پاکستان کے قومی خزانے میں لوٹا ہوا پیسہ جس حساب سے لائے گا اس سے قومی خزانے کو بے حد فائدہ ہو گا۔پاکستانی عوام کے نیب پر اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نیب کے پاس کرپشن ، دھوکہ دہی اور قومی دولت لوٹنے کی 2018 ء میں 48591 درخواستیں وصول کی گئیں، جو 2019ء میں بڑھ کر 53643 ہو گئیں ، اب ان درخواستوں پر کارروائی کیلئے نیب کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں۔کہ وہ ان درخواستوں کو مقررہ مدت میں نبیڑ سکے۔اب اگر نیب کی کارکردگی کو دوسرے اینگل سے دیکھا جائے تو 2000 ء سے لیکر اب تک نیب نے 470 ارب روپے لوٹے ہوئے ریکور کئے ہیں، اور ان 470 ارب کے 33 فیصد سے زائد یعنی 180ارب روپے صرف جسٹس جاوید اقبال نے پچھلے دو سالوں میں ریکور کئے۔یعنی 2000ء سے لیکر جسٹس جاوید اقبال کے چیئرمین بننے تک 17 سالوں میں نیب کی کارکردگی وہ نہیں رہی جو جسٹس جاوید اقبال نے صرف دو سالوں میں ریکوری کی۔اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو جسٹس جاوید اقبال کے عرصہ چیئرمینی میں نیب نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت تک نیب کی احتساب عدالتوں میں تقریباً 1200 کیسوں کی سماعت جاری ہے اور ان کیسوں کی مالیت 900 ارب روپے سے زائد ہے، اور اگر نیب کو ان کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرتے ہوئے سٹاف ، ججز اور عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے اور نیب کے افسران ، ججز اور عدالتیں اپنا کام ایمانداری سے کریں تو بہت تھوڑے عرصے میں اسی 900 ارب روپے کو قومی خزانے کی زینت بنایا جا سکتا ہے جس سے پاکستان کی ترقی میں کہاں کہاں استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ اتنا پیسہ ہے کہ پورے پاکستان میں بے شمار ترقیاتی کام، یونیورسٹیاں، کالج و تعلیمی ادارے ، ڈیم اور ہستپال بنائے جا سکتے ہیں ۔اور ان 900 ارب لوٹنے والوں کا احتساب اتنا سخت اور عبرتناک ہو کہ آئندہ کوئی مافیاز ملکی دولت لوٹنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے۔نیب کا ریکوری ریٹ ماضی کے مقابلے میں پچھلے دو سالوں میں محدود سٹاف اور کم عدالتوں کے ساتھ ہر سال بڑھ رہا ہے اور قومی امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح اس کارکردگی بہتر ہوگی۔پچھلے سال نیب نے 141 ارب روپے ریکور کئے ہیں اور اب موجودہ سال امید کی جا رہی ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہو گا۔
اب سارے اعداد وشمار کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن آخر کیوں چاہتی ہے کہ نیب جیسے فعال ادارے کو ختم کر دیا جائے۔ اگر ان کی ایسی ہی خواہش تھی تو مشرف دور کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں رہی ہیں، انہوں نے اپنے ادوار میں اس ادارے کو ختم کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری ، ان کی بہن مسز تالپور، کئی اور مشہور و معروف پی پی پی لیڈران اور اسی طرح مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف، شہبازشریف،حمزہ شہباز، سلمان شہباز، حسن نواز، حسین نوازاور مریم نواز غرضکہ شریف خاندان کا ہر فرد کرپشن کیسز کا سامنا کر رہا ہے ، اور ان سیاسی قیادتوں کا یہی خیال ہے کہ اگر نیب کا ادارہ ختم ہو جائے تو ان پر بنے کرپشن کیسز بھی ختم ہو جائیں گے۔کیونکہ اس پرانے ادارے کو ختم کر کے کوئی بھی نئے احتساب ادارے کی کوئی بات نہیں کر رہا،۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں خاندان اپنی اپنی کرپشن کو بچانے کیلئے نیب جیسے فعال ادارے کو جڑسے ہی اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے نیب کو مزید اختیارات اور نیب کے افسران کی تعداد میں مزید اضافہ اور احتساب عدالتوں کی تعداد میں بھی اضافہ کا حکم دیدیا ہے۔جس سے صاف ظاہرہے کہ ملک کا کوئی ذی شعور اور محب وطن یہ نہیں چاہتا کہ ملکی دولت کو لوٹنے والوں سے کسی بھی قسم کا نرمی والا سلوک کیا جائے۔اس بارے میں جب قانون سازی کی باری آتی ہے تو وزیراعظم عمران خان کے پاس اتنی قومی اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں ہے کہ وہ نئی قانون سازی کر سکے کیونکہ اپوزیشن میں موجود جماعتوں کے اکثر ارکان کرپشن کیس میں نامزد ہیں اور ان کی انکوائریاں زیر غور ہیں، یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے یا ان کی پارٹی کے سربراہ کے خلاف کرپشن کے الزام کے خلاف کوئی قانون سازی ہو،کیونکہ کوئی اپنے یا اپنی پارٹی کے سربراہ کے گلے میں مصیبت کا پھندا نہیں ڈالے گا۔اب چند دنوں سے انہی ایوانوں میں ایک فقرہ بہت تواتر سے سنا جا رہا ہے اور میرے خیال میں ہے بھی ٹھیک کہ '' ملزم اس وقت تک معصوم ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہیں ہو جاتا'' لیکن یہ بات اس وقت تک صحیح نہیں جب تک ان بڑے مگرمچھوں سے بھی وہی سلوک روا نہیں رکھا جاتا جیسا سلوک ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے عوام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سائیکل چور، روٹی چوراور تھوڑے بہت پیسوں کی چوری میں پکڑے جانیوالے افراد کو تو پولیس پکڑنے کے ساتھ ہی جوتوں ، لاٹھیوں ، مکوں اور تھپڑمارتے ہوئے پولیس سٹیشن لے جاتی ہے، اور سیاست دانوں اور مافیازکے ساتھ کوئی ناروا سلوک کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔
اگردیکھا جائے تو نیب کے اندر بھی بہت سی کمزوریاں موجود ہیں، جس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ نیب پر سیاسی حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ نیب صرف ایک سائیڈ کے کیسوں کو سنتا ہے اور یہ صرف اپوزیشن کے ارکان پارلیمینٹ کے خلاف کیس کو سنتا ہے ، ہے تو یہ ٹھیک بات لیکن بات ہے رسوائی کی والی مثل ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ جو لوگ حکومت میں شامل ہیں یا ان کے اتحادی ہیں،ان کے خلاف کیسوں کی سماعت نہیں ہو رہی، حکومتی بینچوں میں شامل ارکان کے خلاف ساری انکوائری اندر خانے ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی اور ان کے خلاف بھی پیپرز ورک فائلوں کی صورت میںآ ہستہ آہستہ مکمل کیا جا رہا ہے۔ ان پر ہاتھ تب ڈالا جائیگا جب یہ لوگ حکومت میں شامل نہیں ہونگے۔ شروع دن سے ہی ہمارے پاکستانی معاشرے میں وی وی آئی پی والا کلچر بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھ چکا ہے کہ اگر ایک بیورو کریٹ، غریب آدمی یا چھوٹے لیول کا بزنس مین کرپشن کیس میں پکڑ لیا جائے تو ان کیٹیگری کے افراد سے تو نیب بڑے آرام سے پیسے نکلوا لیتا ہے لیکن اگر ان افراد سے دو نہیں تین چار گنا زیادہ کرپشن کرنے والے سیاست دان پر کرپشن ثابت ہو جائے تو پہلے تو وہ اپنے پیچھے چند سو افراد کے پولیٹیکل ہجوم کے ساتھ نیب پرالزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور اگر پھر بھی بات نہ بنے تو سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے نیب کی بدنامی کی مہم چلا دی جاتی ہے، لیکن نیب ان تمام الزامات میں سے کسی کا بھی کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔اگر نیب کی جانب سے کوئی جواب دیا جائے تو اسے پھر ایک نئے الزام کا سامنا ہوتا ہے کہ آپ پولیٹیکل پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں، اور اگر نیب کسی دوسرے نیوٹرل آدمی کو جواب دینے کا کہے تو اس جواب دینے والوں پر الزام عائد کر دیا جاتا ہے کہ آپ نیب کے ترجمان بن گئے ہو، ان جیسے سیاسی جتھوں کے آگے بلیک میل ہونا بھی نیب کی ایک کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ نیب میں کام کرنیوالوں کی تعداد کم ہے ، احتساب عدالت میں موجود ججز کی تعداد تو ویسے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پراسیکیوٹر حضرات تو ایسے ایسے بھی موجود ہیں جو بیچارے عام روٹین سے ہٹ کر تین سے چار گنا زیادہ تعداد میں کیس رکھتے تو ہیں لیکن ان کی بروقت مکمل تیاری کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے کیس شروع کرتے ہی ہار جاتے ہیں۔اور اگر کوئی کیس تھوڑا لمبے عرصے کیلئے احتساب عدالت میں چلے تو عام آدمی کے دل میں یہ گمان گھر کر جاتا ہے کہ نیب والے کچھ نہیں کر پا رہے۔ اس کے علاوہ نیب کوچاہئے کہ سپریمم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے حکم پر اگر اضافی عملہ بھرتی بھی کیا جائے تو سب سے پہلے اس کا ڈیٹا مکمل کر لیا جائے کہ ان کی نیب میں سروس کے آغاز پر ان کے پاس یا ان کے قریبی رشتہ داروں، قریبی دوستوں کے پاس کتنے اثاثے موجود ہیں، ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو بھی ان نیب کے نئے اور پرانے افسران اور ججز حضرات پر عقاب کی نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہوں تو انہیں فوراً سے پہلے لگام ڈال کر قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.