نیب کو بند کیا جائے، اپوزیشن کا مطالبہ ، جائز و ناجائز؟

ہفتہ 25 جولائی 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

گزشتہ سے پیوستہ ہفتے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار نے ہنگامی طور پر ملک بھر میں جلد ازجلد ججوں کی تعداد 120 تک بڑھانے کا حکم جاری کیا ، اور جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں اللہ تعالٰی کسی دشمن کو بھی لمبی بیماری اور عدالتی کیسوں سے محفوظ رکھے کیونکہ لمبی بیماری کی صورت میں متوسط طبقے اور درمیانی طبقہ کے حالات بیماری سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا وہ ان جیسے عذابوں میں پھنس کر اتنا خوار ہوتا ہے کہ بیماری بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور اس گھرانے کی ساری زندگی کی بچائی جمع پونجی بھی باقی نہیں رہتی۔

اسی طرح اگر انہی طبقات کے علاوہ اونچے طبقات بھی خداناخواستہ کسی عدالتی مقدمہ میں پھنس کر عدالتوں کے چکروں میں پڑ جائیں تو اچھے سے اچھے پیسے والے خاندان اپنی جمع پونجی کے علاوہ زمین جائیداد بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں وکلاء اور عدلیہ کے اوپر نیچے ، دائیں بائیں کے چھوٹے موٹے کاموں کیلئے منہ مانگے داموں کیلئے اپنا سارا پیسہ جھونکنا پڑ جاتا ہے اور پھر بھی مقدمہ یا اس کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا،جس کے باعث اچھے بھلے کھاتے پیتے خاندان کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اور مقدمہ یا کیس ویسے ہی منہ کھولے جوں کا توں ہی قائم رہتا ہے جیسے امریکہ کا پاکستان سے'' ڈو مور'' والا مطالبہ۔ تاریخ پے تاریخ کے باعث مدعی کا وقت تو عدلیہ کے مقدموں میں اتنا ضائع ہوتا ہے کہ دادا کے دور میں قائم ہونیوالے مقدمے کا فیصلہ پوتے کے دادا کی عمر کو پہنچنے پر بھی ختم نہیں ہوتا۔اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس صاحب کا عدالتوں کے ججز حضرات کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ بہت خوش آئند ہے لیکن یہ اسی صورت میں اچھا فیصلہ ثابت ہو گا جب اس حکم پرعملدرآمد کرتے ہوئے جلد از جلد عدالتوں کے ساتھ ساتھ ججز کی تعداد میں اضافہ ہو ۔

اس اضافہ کے ساتھ ساتھ قابل ایماندار محنتی اور نا جھکنے ،نابکنے والے نیب کے اہلکار بھی بھرتی ہونے چاہئیں جو اپنا کام بخوبی سرانجام دے سکیں۔ ان عدالتوں اور ججوں کی تعدا د میں اضافہ سے زیادہ سے زیادہ کیسوں کا فیصلہ جلد از جلد ممکن ہو سکے گا ، اس سے پاکستان کے بڑے محکمہ نیب پر بھی جو بے شمارمقدمات کا بوجھ پڑا ہوا ہے اس میں بھی کمی واقع ہو گی او ر ایک سرکاری وکیل جو آجکل 10/12 مقدمات کی تیاری میں مصروف ہے، اور وہ ان تمام مقدمات کی ایک ساتھ اچھی طرح تیاری کئے بغیرہی عدالت میں اپنا کیس لڑنے پہنچ جاتا ہے اور اپنے مقدمات میں ناکامی کا سامنا کرتا ہے۔

نیشنل اکاؤنٹی بیلٹی بیورویعنی نیب پاکستان کا وہ ادارہ ہے جو مشرف دور میں قائم کیا گیا، اور مشرف دور سے لیکرعمران خان کے دور حکومت سے قبل تک اس ادارے نے ایسے ہی کام کیا جیسے پاکستان میں موجود دوسرے سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں ، لیکن جب سے وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھایا تو اس کی کارکردگی میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دیکھنے میں آئی۔

اس ترقی میں پاکستان کے کرپٹ سیاست دانوں اور بڑے بڑے مافیا ز کی نیندیں حرام ہوتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔ابھی دو روز پہلے خواجہ سعدرفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کے کیس کی سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس نے نیب کیس کے سلسلے میں چند ایک کارروائیوں کو نیب کے اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔ اسی بناء پر چند روز قبل اپوزیشن پارٹیوں نے پہلے آل پازٹیز کانفرنس ، دھرنے دینے کا اعلان کیا، اس میں لاہور کے مختلف علاقوں میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے اور عوام کو گھروں نے نکالنے کی کال بھی دی، لیکن کچھ کرونا وائرس اور شدید گرمی و برسات کے موسم کے باعث عوامی رجحان سڑکوں پر نا نکلنے کے باعث آل پارٹیز کانفرنس کی خبریں ختم تو نہیں ہوئی لیکن دب سی ضرور گئیں ، جیسے کسی غریب و مسکین کے سرکاری کام کی فائل ڈھیروں فائلوں تلے دب جاتی ہے۔

اس کے بعد باہمی مشاورت کے بعداپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر بلاول بھٹو اور مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنماؤں نے نیب کے محکمہ کو سرے سے ختم ہی کر دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔یعنی جو جو سیاست دان اور کرپٹ مافیازگروپس کی شکل میں اس ملک کو تکہ بوٹی سمجھ کر کھاتے رہے ہیں، اب جب ان کی کرپشن کو سامنے لانے کیلئے اور جلد از جلد فیصلہ عوام کی عدالت میں پیش کرنے کی غرض سے ملکی مفاد میں عدالتوں میں موجود ججز کی تعداد میں اضافے کی بات ہو رہی ہے تو ان تمام کرپٹ افراد کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے ہیں، اور یہ تمام کرپٹ مافیاز نے یک جان ہوتے ہوئے ان پر ہاتھ ڈالنے اور انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کرنیوالے ادارے کو سرے سے ختم ہی کر دینے کا مطالبہ کر دیاہے، جسے ملک کا ہر ذی شعور شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے ۔

یہ ایک دم سے آخر کیوں اپنے مفادات کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں۔حالانکہ نیب کا قیام مشرف دور میں ہوا ، اس کے بعد پیپلزپارٹی اور اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومتیں رہی لیکن یہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے دور حکومت میں نیب ادارے کو ختم نہیں کر سکے، بلکہ نواز شریف کے دور حکومت میں ہی جسٹس جاوید اقبال کو نیب کا چیئرمین تعینات کیا گیالیکن اسے ختم نہیں کیا گیا۔

جسٹس جاوید اقبال کے آتے ہی نیب کو بھی کچھ ہوش آیا اور انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر نئے کیسوں پر تحقیقات کا آغاز کیا اور پرانے کیسوں کو ری اوپن کیا گیا، اس کے برعکس ماضی کی دونوں حکومتوں نے نیب کو موم کی ناک سمجھ کر جس سمت چاہا موڑ لیا لیکن اب جب ان کو اپنی اپنی گردنیں نیب کے شکنجے میں پھنستی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں تو اب ان کو خیال آ رہا ہے کہ اس ادارے کو ختم کر دیا جائے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کے حکم کی تعمیل کتنی جلدی کی جاتی ہے اور 120 مزید عدالتیں کب تک قائم ہوتی ہیں اور اس میں اتنی ہی تعداد میں ججز اور نیب کے بااختیار افسران کو تعینات کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو نیب کا ادارہ کمزور نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور بااختیار بن کر سامنے آئیگا۔
 چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی تعیناتی کے بعد نیب ایک دم سے ایکٹو ہوا اور جو انکوائریاں روک دی گئیں تھیں ، ان کو ری اوپن کیا گیا، اکتویر 2018ء کے گیلپ سروس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 69 فیصد عوام نے نیب پر اعتماد کر اظہار کیا۔

اس کے علاوہ 23 اکتوبر 2018 ء کو ورلڈ اکنامک فورم میں بھی نیب کی کارکردگی کی بہت اچھے الفاظ میں تعریف کرتے ہوئے سراہا گیا۔2000 ء میں مشرف دور میں اس ادارے کو بنایا گیا اور اس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000ء سے اب تک نیب نے کرپٹ سیاست دانوں اور بے ایمان مافیاز سے 470 ارب روپے وصول کئے اور قومی خزانے میں جمع کرائے۔ جو ان حرام خور مافیاز اور سیاست دانوں نے ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹا تھا۔

یاد رہے کہ اس قدر پیسہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک کبھی کسی ادارے نے بھی ریکور نہیں کیا۔ابھی تو نیب کو ایک کمزور ادارے کے طور پر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ابھی اس ادارے میں کرپشن انکوائریاں کرنے کیلئے مطلوبہ تعداد میں افسران کی کمی ہے، اختیارات اور ٹریننگ کی کمی بھی ان کی راہ میں حائل رہتی ہے۔ اور قارئین کرام خود سوچیں جب ان سارے خدشات کو دور کر دیا جائے گا تو یہی ادارہ پاکستان کے قومی خزانے میں لوٹا ہوا پیسہ جس حساب سے لائے گا اس سے قومی خزانے کو بے حد فائدہ ہو گا۔

پاکستانی عوام کے نیب پر اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نیب کے پاس کرپشن ، دھوکہ دہی اور قومی دولت لوٹنے کی 2018 ء میں 48591 درخواستیں وصول کی گئیں، جو 2019ء میں بڑھ کر 53643 ہو گئیں ، اب ان درخواستوں پر کارروائی کیلئے نیب کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں۔کہ وہ ان درخواستوں کو مقررہ مدت میں نبیڑ سکے۔اب اگر نیب کی کارکردگی کو دوسرے اینگل سے دیکھا جائے تو 2000 ء سے لیکر اب تک نیب نے 470 ارب روپے لوٹے ہوئے ریکور کئے ہیں، اور ان 470 ارب کے 33 فیصد سے زائد یعنی 180ارب روپے صرف جسٹس جاوید اقبال نے پچھلے دو سالوں میں ریکور کئے۔

یعنی 2000ء سے لیکر جسٹس جاوید اقبال کے چیئرمین بننے تک 17 سالوں میں نیب کی کارکردگی وہ نہیں رہی جو جسٹس جاوید اقبال نے صرف دو سالوں میں ریکوری کی۔اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو جسٹس جاوید اقبال کے عرصہ چیئرمینی میں نیب نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت تک نیب کی احتساب عدالتوں میں تقریباً 1200 کیسوں کی سماعت جاری ہے اور ان کیسوں کی مالیت 900 ارب روپے سے زائد ہے، اور اگر نیب کو ان کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرتے ہوئے سٹاف ، ججز اور عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے اور نیب کے افسران ، ججز اور عدالتیں اپنا کام ایمانداری سے کریں تو بہت تھوڑے عرصے میں اسی 900 ارب روپے کو قومی خزانے کی زینت بنایا جا سکتا ہے جس سے پاکستان کی ترقی میں کہاں کہاں استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ اتنا پیسہ ہے کہ پورے پاکستان میں بے شمار ترقیاتی کام، یونیورسٹیاں، کالج و تعلیمی ادارے ، ڈیم اور ہستپال بنائے جا سکتے ہیں ۔

اور ان 900 ارب لوٹنے والوں کا احتساب اتنا سخت اور عبرتناک ہو کہ آئندہ کوئی مافیاز ملکی دولت لوٹنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے۔نیب کا ریکوری ریٹ ماضی کے مقابلے میں پچھلے دو سالوں میں محدود سٹاف اور کم عدالتوں کے ساتھ ہر سال بڑھ رہا ہے اور قومی امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح اس کارکردگی بہتر ہوگی۔پچھلے سال نیب نے 141 ارب روپے ریکور کئے ہیں اور اب موجودہ سال امید کی جا رہی ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہو گا۔


 اب سارے اعداد وشمار کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن آخر کیوں چاہتی ہے کہ نیب جیسے فعال ادارے کو ختم کر دیا جائے۔ اگر ان کی ایسی ہی خواہش تھی تو مشرف دور کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں رہی ہیں، انہوں نے اپنے ادوار میں اس ادارے کو ختم کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری ، ان کی بہن مسز تالپور، کئی اور مشہور و معروف پی پی پی لیڈران اور اسی طرح مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف، شہبازشریف،حمزہ شہباز، سلمان شہباز، حسن نواز، حسین نوازاور مریم نواز غرضکہ شریف خاندان کا ہر فرد کرپشن کیسز کا سامنا کر رہا ہے ، اور ان سیاسی قیادتوں کا یہی خیال ہے کہ اگر نیب کا ادارہ ختم ہو جائے تو ان پر بنے کرپشن کیسز بھی ختم ہو جائیں گے۔

کیونکہ اس پرانے ادارے کو ختم کر کے کوئی بھی نئے احتساب ادارے کی کوئی بات نہیں کر رہا،۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں خاندان اپنی اپنی کرپشن کو بچانے کیلئے نیب جیسے فعال ادارے کو جڑسے ہی اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے نیب کو مزید اختیارات اور نیب کے افسران کی تعداد میں مزید اضافہ اور احتساب عدالتوں کی تعداد میں بھی اضافہ کا حکم دیدیا ہے۔

جس سے صاف ظاہرہے کہ ملک کا کوئی ذی شعور اور محب وطن یہ نہیں چاہتا کہ ملکی دولت کو لوٹنے والوں سے کسی بھی قسم کا نرمی والا سلوک کیا جائے۔اس بارے میں جب قانون سازی کی باری آتی ہے تو وزیراعظم عمران خان کے پاس اتنی قومی اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں ہے کہ وہ نئی قانون سازی کر سکے کیونکہ اپوزیشن میں موجود جماعتوں کے اکثر ارکان کرپشن کیس میں نامزد ہیں اور ان کی انکوائریاں زیر غور ہیں، یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے یا ان کی پارٹی کے سربراہ کے خلاف کرپشن کے الزام کے خلاف کوئی قانون سازی ہو،کیونکہ کوئی اپنے یا اپنی پارٹی کے سربراہ کے گلے میں مصیبت کا پھندا نہیں ڈالے گا۔

اب چند دنوں سے انہی ایوانوں میں ایک فقرہ بہت تواتر سے سنا جا رہا ہے اور میرے خیال میں ہے بھی ٹھیک کہ '' ملزم اس وقت تک معصوم ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہیں ہو جاتا'' لیکن یہ بات اس وقت تک صحیح نہیں جب تک ان بڑے مگرمچھوں سے بھی وہی سلوک روا نہیں رکھا جاتا جیسا سلوک ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے عوام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سائیکل چور، روٹی چوراور تھوڑے بہت پیسوں کی چوری میں پکڑے جانیوالے افراد کو تو پولیس پکڑنے کے ساتھ ہی جوتوں ، لاٹھیوں ، مکوں اور تھپڑمارتے ہوئے پولیس سٹیشن لے جاتی ہے، اور سیاست دانوں اور مافیازکے ساتھ کوئی ناروا سلوک کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔


 اگردیکھا جائے تو نیب کے اندر بھی بہت سی کمزوریاں موجود ہیں، جس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ نیب پر سیاسی حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ نیب صرف ایک سائیڈ کے کیسوں کو سنتا ہے اور یہ صرف اپوزیشن کے ارکان پارلیمینٹ کے خلاف کیس کو سنتا ہے ، ہے تو یہ ٹھیک بات لیکن بات ہے رسوائی کی والی مثل ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ جو لوگ حکومت میں شامل ہیں یا ان کے اتحادی ہیں،ان کے خلاف کیسوں کی سماعت نہیں ہو رہی، حکومتی بینچوں میں شامل ارکان کے خلاف ساری انکوائری اندر خانے ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی اور ان کے خلاف بھی پیپرز ورک فائلوں کی صورت میںآ ہستہ آہستہ مکمل کیا جا رہا ہے۔

ان پر ہاتھ تب ڈالا جائیگا جب یہ لوگ حکومت میں شامل نہیں ہونگے۔ شروع دن سے ہی ہمارے پاکستانی معاشرے میں وی وی آئی پی والا کلچر بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھ چکا ہے کہ اگر ایک بیورو کریٹ، غریب آدمی یا چھوٹے لیول کا بزنس مین کرپشن کیس میں پکڑ لیا جائے تو ان کیٹیگری کے افراد سے تو نیب بڑے آرام سے پیسے نکلوا لیتا ہے لیکن اگر ان افراد سے دو نہیں تین چار گنا زیادہ کرپشن کرنے والے سیاست دان پر کرپشن ثابت ہو جائے تو پہلے تو وہ اپنے پیچھے چند سو افراد کے پولیٹیکل ہجوم کے ساتھ نیب پرالزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور اگر پھر بھی بات نہ بنے تو سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے نیب کی بدنامی کی مہم چلا دی جاتی ہے، لیکن نیب ان تمام الزامات میں سے کسی کا بھی کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔

اگر نیب کی جانب سے کوئی جواب دیا جائے تو اسے پھر ایک نئے الزام کا سامنا ہوتا ہے کہ آپ پولیٹیکل پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں، اور اگر نیب کسی دوسرے نیوٹرل آدمی کو جواب دینے کا کہے تو اس جواب دینے والوں پر الزام عائد کر دیا جاتا ہے کہ آپ نیب کے ترجمان بن گئے ہو، ان جیسے سیاسی جتھوں کے آگے بلیک میل ہونا بھی نیب کی ایک کمزوری سمجھا جاتا ہے۔

اوپر لکھا جا چکا ہے کہ نیب میں کام کرنیوالوں کی تعداد کم ہے ، احتساب عدالت میں موجود ججز کی تعداد تو ویسے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پراسیکیوٹر حضرات تو ایسے ایسے بھی موجود ہیں جو بیچارے عام روٹین سے ہٹ کر تین سے چار گنا زیادہ تعداد میں کیس رکھتے تو ہیں لیکن ان کی بروقت مکمل تیاری کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے کیس شروع کرتے ہی ہار جاتے ہیں۔

اور اگر کوئی کیس تھوڑا لمبے عرصے کیلئے احتساب عدالت میں چلے تو عام آدمی کے دل میں یہ گمان گھر کر جاتا ہے کہ نیب والے کچھ نہیں کر پا رہے۔ اس کے علاوہ نیب کوچاہئے کہ سپریمم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے حکم پر اگر اضافی عملہ بھرتی بھی کیا جائے تو سب سے پہلے اس کا ڈیٹا مکمل کر لیا جائے کہ ان کی نیب میں سروس کے آغاز پر ان کے پاس یا ان کے قریبی رشتہ داروں، قریبی دوستوں کے پاس کتنے اثاثے موجود ہیں، ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو بھی ان نیب کے نئے اور پرانے افسران اور ججز حضرات پر عقاب کی نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہوں تو انہیں فوراً سے پہلے لگام ڈال کر قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :