تیرا یار میرا یار ۔۔۔عثمان بزدار

ہفتہ 1 اگست 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

خلیفہ ہارون رشید کے دور میں ایک درویش صوفی بزرگ حضرت بھلول دانا رحمتہ اللہ علیہ گزرے ہیں، جواللہ کی یاد میں اپنی ہی دنیا میں مگن جنگلوں بیابانوں میں اپنی زندگی گزارا کرتے، اور علاقے کے لوگ ان سے بے حد عقیدت بھی کیا کرتے تھے۔ اڑتے اڑتے یہی خبر خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں بھی پہنچی کہ ایک بہت پہنچے ہوئے بزرگ آپ کے علاقے میں قیام پذیر ہیں اور اللہ کی یاد میں مصروف عمل ہیں، چنانچہ خلیفہ وقت ہارون رشیدکو بھی اشتیاق ہوا اور انہوں نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس مجذوب بابے کو میرے دربار میں حاضر کیا جائے، سپاہی اس بزرگ کو دربار میں حاضری کیلئے لینے قریبی جنگل کی طرف روانہ ہو گئے۔

ان بزرگ صوفی صاحب کو ڈھونڈنے میں انہیں زیادہ ٹائم نا لگا ، اور وہ ان کے ویرانے میں قائم کی ہوئی جھونپڑی پر پہنچ گئے لیکن وہ اپنی جھونپڑی میں موجود نہیں تھے،وہ جھونپڑی کے پاس ہی ایک گہرا گڑھا کھود کرکیف و مستی میں گم، آنکھیں بند کئے لیٹے ہوئے اللہ کی یاد میں مصروف عمل تھے۔

(جاری ہے)

سپاہیوں نے انہیں اپنے نیزے سے جگایا اور بادشاہ وقت ہارون رشید کے دربار میں حاضر ہونے کا عندیہ دیا۔

جب وہ دربار میں اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ داخل ہوئے تو ہارون رشید نے ان سے ان کا احوال دریافت کیا۔ تو وہ کہنے لگے جناب بادشاہ سلامت میں اپنے زمینی گڑھے میں لیٹا خواب میں اپنی سلطنت میں بڑا خوش تھا اور میرے اردگرد میری رعایا میری تعریف میں لکھے گئے نغمے سنا رہی تھی اور میں بھی اپنی رعایا سے خوش ہو کر ان میں تحفے تحائف بانٹ رہا تھا کہ آپ کے سپاہی نے مجھے نیزا سے جگا دیا اور میری آنکھ کھلنے سے میرے خواب میں قائم میری سلطنت کو اجاڑدیا اور تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔

خلیفہ ہارون رشید ان بزرگ ہستی کی بات سن کر مسکرائے بغیر نا رہ سکے اور ان کی دیکھا دیکھی پورے دربار میں موجود درباری اور وزراء حضرات بھی اپنی ہنسی نا روک سکے، تو اس پر حضرت بھلول دانا رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے بادشاہ سلامت،آپ کی اور میری سلطنت میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، آپ کے سپاہیوں نے مجھے جگا کر خواب میں قائم ہونیوالی میری شاندار سلطنت ختم کر دی ،میری سلطنت میری آنکھیں کھلتے ہی ختم ہو گئی تھی اور آپ کی سلطنت اس وقت ختم ہو جائیگی جب آپ کی آنکھیں بند ہو جائیں گی۔


 چند ہی روز پہلے سینٹ وقومی اسمبلی کے اجلاس میں بھرپور اور پرجوش بحث و مباحثہ کے بعدانسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل اور اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل ترمیمی بل جیسے دو نہایت اہم بل منظور کر لئے گئے، اسی دوران اپوزیشن کی جانب سے نیب سے تنگ آئے سیاست دانوں نے نیب ادارے کو سرے سے ہی ختم کر دینے کا مطالبہ کیا ہوا تھا، اس ضمن میں ان کا خیال تھا کہ شاید ہم حکومت وقت کو بلیک میل کرتے ہوئے نیب کو ختم کر دیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا، اس مطالبے کی روشنی میں حکومت نے ایک کمیٹی کی تشکیل بھی دی تھی جس کی قیادت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے چند دوسرے رفقاء کار کر رہے تھے، اور اپوزیشن کی جانب سے جتنے بھی ارکان اسمبلی اس کمیٹی میں شامل تھے تقریباً سبھی پر نیب میں کرپشن کے کیس زیرسماعت ہیں۔

ایک اندھے کو نظر آتا اور ایک ناسمجھ کو بھی یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ نیب کو کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں؟مبینہ طور پر سیاست دانوں نے کمیٹی میں نیب کو ختم کرنے کے عوض حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی کہ اگر آپ نے نیب کو ختم نا کیا تو پاکستان کو FATF کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ پاکستان نے اگلے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں دو نہایت اہم بل پاس کرانے کے بعد اس کی رپورٹ پیش کرنی ہے جس کے باعث پاکستان کیلئے گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ میں آنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

ان دو نہایت اہم قومی سلامتی کے اوپر پیش کئے جانیوالے بلوں کو بھی پاس کرانے کے بعدتحریک انصاف حکومت نے پاکستان کو ایک نہایت مشکل صورتحال سے نکال لیا۔اب انشااللہ پاکستان گرے سے وائٹ میں آسانی سے آ جائیگا۔
جتھے ہون جہالتاں
بگلے لان عدالتاں
کاں پے کرن وکالتاں
سبھا نوں ملن ذلالتاں
دل دا شیشا صاف نئیں رہندا
اوتھے فیر انصاف نئیں رہندا
 اپوزیشن اور موجودہ حکومت میں شامل کرپٹ سیاست دانوں کی کھلے عام اور دبی دبی سی چیخوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر سے ڈٹ گئے ہیں کہ این آر او کسی کو بھی نہیں ملے گا۔

یہ بات تو وہ کئی بار قوم کو باور کروا چکے ہیں کہ حکومت تو چھوٹی سی چیز ہے اگر میری جان پر بھی بن آئے تو میں اپنے مئوقف میں تبدیلی یا لچک پیدا نہیں کرونگا۔ اسی ضمن میں دو روز پہلے عمران خان کی مشیر تعینات ہونیوالی گوگل کمپنی امریکہ پلٹ تانیہ ایدروس اور ظفر مرزانے بھی استعفیٰ دیدیا ہے۔ یہ دونوں قطعی طور پر عمران خان کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تھے۔

اسی وجہ سے انہیں اپنے عہدو ں سے ہٹا کر اسعتفیٰ لے لیا گیا۔ابھی قوی امکان موجود ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان اپنی ہی پارٹی اور اپنی ہی کابینہ میں موجود فوج ظفر موج کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے کابینہ میں موجود کالی بھیڑوں کی چھانٹی شروع کرنیوالے ہیں، اس سے قطہ نظر کہ وہ کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور کتنا اثر و رسوخ کا حامل ہے۔

اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا یہ دائرہ اپنے اردگرد قریبی لوگوں تک محدود رہتاہے یا وہ اس کو صوبائی سطح تک بھی پھیلائیں گے۔ ابھی چند ہفتے قبل لاہور کی رنگ روڈ کے سدرن لوپ 3 کے بارے میں بحریہ ٹاؤن میں موجود وہ بلڈنگز، پلاٹ، پارک، اور بحریہ ٹاؤن کے رہائشی مکانات جو لاہور رنگ روڈ کے دائرہ میں آ رہے تھے کو پنجاب گورنمنٹ کافی عرصہ پہلے پیسوں کی ادائیگی کے بعد سیکشن 4 کے تحت حاصل کر چکی ہے، جب اس رنگ روڈ پر کام کرنے کے سلسلے میں ان زمینوں کو خالی کرانے یا ان عمارتوں کو ڈھانے کیلئے سابق کمشنر لاہور نے کارروائی کی کوشش کی تو وزیراعلٰی عثمان بزدار نے اس کارروائی کو یہ کہہ کر رکوا دیا کہ وزیراعظم عمران خان نے احکامات جاری کئے ہیں کہ ابھی لاہور رنگ روڈ کا یہ کام روک دیا جائے، اور اس کے چند روز بعد ہی ان کمشنر صاحب کی کمشنری جاتی رہی،اور انہیں ٹرانسفر کر دیا گیا۔

جب اس کی تحقیقات کی غرض سے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد کے ترجمان سے سوال کیا گیا کہ ابھی 13جون کو ہی عمران خان نے خود اس رنگ روڈ کی تعمیر کے احکامات دیئے، اور اگلے ہی دن ان کی جانب سے اس کام کو روک دینے کا کہہ دیا گیا ، یہ بات ماننے میں نہیں آتی، کیا واقعی عمران خان یا وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد کی جانب سے رنگ روڈ کے کام کو روکنے کے احکامات جاری کئے گئے، تو اس کا جواب جو ابھی چند روز پہلے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے موصول ہوا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے ، ایسا کوئی حکم وزیراعظم نے نہیں دیا۔

اور 13 جون2020ء تک پاکستان کی کسی بھی عدلیہ میں اس رنگ روڈ کی تعمیر کے کام کو روکنے کیلئے کوئی حکم امتناعی بھی جاری نہیں ہوا تھا۔یہ صرف اور صرف عثمان بزدار نے اپنی ذاتی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے یا ملک ریاض کی جانب سے دیئے جانیوالے پریشر کے نتیجہ میں کمشنر کو بحریہ ٹاؤن میں کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ وزیراعظم صاحب کا حکم ہے،اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وزیراعلٰی عثمان بزدار بھی سیاسی چلاکیاں سیکھ گئے ہیں، اور اپنے وزیراعظم کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کے ماہر ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ پنجاب کے بہت سے انویسٹی گیشن صحافی حضرات نے اپنے طور پرچند ہفتوں قبل تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا تھا اور مبینہ طور پر وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وزیراعلٰی بزدار صاحب چھپے رستم نکلے اور اندر ہی اندر ناصرف کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں بلکہ کام ڈالتے ہوئے بہت جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ان تحقیقات کے مطابق ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں میں ایک علاقہ کھرڑ بزدار ہے، اور اس کھرڑبزدار میں ایک غریب مسکین سا ایک بندہ بھی رہتا ہے ، جس کا نام طور بزدار عرف طورو بزدار ہے، یہ اس وقت وزیراعلٰی عثمان بزدار کا بڑا خاص بندہ ہے، عثمان بزدار کے وزیراعلٰی بننے سے قبل یہ طورو بزدار ایک مقامی پرائیویٹ بس میں کنڈیکٹر ہوا کرتا تھا۔

اس کے بعد یہی شخص محکمہ لائیو سٹاک میں بطور ویکسی نیٹر بھرتی ہو گیا،اور اس دوران یہ چوکیداری پر بھی مامور رہا، اور محنت مزدوری بھی کر لیا کرتا تھا۔عثمان بزدار اپنے ٹرائبل ایریا میں تحصیل ناظم منتخب ہوئے تو اس طورو بزدار کے تعلقات عثمان بزدار سے بھی قائم ہوئے،عثمان بزدار کے تحصیل ناظم کے زمانے میں یہ شخص ان کے ساتھ اتناقریب ہو گیا کہ علاقے کے مقامی لوگ اور ان کے قریب سے جاننے والے تمام افراد اپنا ہر طرح کا کام بذریعہ طورو بزدار کے کراتے تھے۔

یہ طورو بزدار اس قدر بے تکلف واقع ہوا تھا کہ وہ اس وقت تحصیل ناظم کے دفتر میں بغیر کسی رکاوٹ اور روک ٹوک کے کسی بھی وقت پہنچ رکھتا تھا۔ اور ضرورت مندوں کے کام منہ مانگی رقوم کے عوض کراتارہا اور خود بھی پیسے کماتا اور اپنے صاحب کو کما کر دیتا تھا۔پہلی دفعہ عثمان بزدار 2000ء میں تحصیل ناظم کے عہدہ پر براجمان رہے اور اس کے بعد دوبارہ وہی تحصیل ناظم کے عہدہ کیلئے نامزد قرار پائے، اپنے اس دو مرتبہ دور نظامت میں ایک ایشیائی ترقیاتی فنڈ کی مدد میں انہیں اربوں روپے فنڈز فراہم کئے گئے کہ وہ اس پیسہ کو اپنے علاقے کی ترقی میں خرچ کریں گے لیکن ان کا قبائلی علاقہ آج تک پہلے سے بھی زیادہ پسماندگی کا شکار ہے، انہوں نے وہ اربوں روپے کی امداد کہاں خرچ کی کسی کو کوئی علم نہیں۔

ان سب بدعنوانیوں کا علم قبائلی علاقے کے بچے بچے کو ہے۔ ان کا یہ لوٹ مار کا سلسلہ اس وقت تھما جب خادم اعلٰی شہباز شریف نے پنجاب کے وزیراعلٰی کا چارج سنبھالا، اور یہ شہباز شریف سے بھی سیانے ثابت ہوئے ، وہ اس طرح کہ تحصیل ناظم کے واحد دفتر میں سب سے پہلی آگ لگی اور اس دفتر میں موجود ماضی کا تمام ریکارڈ جل کر خاکستر ہو گیا۔کیونکہ اس خاکستر شدہ 10 سالہ کرپشن کا ریکارڈ اگر شہباز شریف کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ بھی انہیں اسی وقت اپنا گرو مان لیتے۔

کیونکہ اسی واقعہ کے بعد ہی تو شہباز شریف کے دور حکومت میں ایل ڈی اے، میٹروبس کے ریکارڈسمیت اتنے دفاتر میں آگ نے اتنے دفاتر کو اپنی لپیٹ میں لیا کہ آج تک فائر بریگیڈ کے اہلکاروں نے پوری سروس میں اتنا کام نہیں کیا ہو گا جتناوہ اہلکار شہباز شریف کے دور حکومت میں مصروف رہے۔اورجب عثمان بزدار کا تحصیل ناظم کا دور ختم ہوا تو بزدار صاحب ن لیگ میں شامل ہو گئے، ن لیگ میں شامل ہونے کے بعد شہباز شریف نے انہیں ٹرائبل ڈویلپمنٹ پروجیکٹ دیا، لیکن بزدار صاحب اور ان کے ساتھیوں کو ناجائز کمائی کی عادت پڑ چکی تھی اور اس ٹرائبل ڈویلپمنٹ پروجیکٹس میں بھی انہوں نے اپنا پرانا رنگ پھیکا نہیں پڑنے دیا اور اربوں روپے کی خردبرد کے مرتکب ہوئے ، اس صورتحال پر پھر ایک پنجابی قطعہ یاد آ رہا ہے کہ
لنگڑے کھیلن کبڈی
تے انے چلاون تیر
گنجے کرن کنگیاں
تے تھتھے سناون ہیر
منگتے کرن حکومتاں
تے ٹھگ بنے وزیر
 دو سال قبل جب تحریک انصاف کا دور اقتدار شروع ہوا تو عثمان بزدار صاحب پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور انہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلٰی یہ سوچ کر لگا دیا گیا کہ یہ سیاسی '' وسیم اکرم'' ثابت ہونگے اور اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے اقدامات کریں گے کہ پنجاب کے عوام حیران و پریشان ہو جائیں گے۔

لیکن افسوس کہ عوام حیران و پریشان تو ہوئے لیکن ان کے ہنگامی اقدامات کو دیکھ کر نہیں بلکہ انتہائی معصومانہ چہرے کے پیچھے چھپے چالاک اور حد سے زیادہ کرپشن کی روز بروز آشکار ہوتی ہوئی کہانیاں سن کر۔۔ ان کے پرانے دست راست طوروبزدار نے بھی پرانے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیراعلٰی ہاؤس میں ایک دفتر پر قبضہ جما لیا اور ابھی تک وہیں قابض ہیں۔

اور جتنے بھی بیورو کریٹس لیول کی پوسٹوں کے تبادلے اور چھوٹی موٹی سرکاری نوکریاں قائداعظم کے کھٹے رنگ کے بے شمار نوٹوں کے عوض بانٹ رہے ہیں۔ ابھی چند ہی ہفتوں پہلے پاکستان کے سینئر ترین صحافی چودھری غلام حسین نے بھی ان ڈائریکٹ دبے لفظوں میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ یہ اپنے دائیں بائیں موجود ایجنٹ نما لوگوں کے ذریعے کروڑوں روپے کی خردبرد میں ملوث ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے اردگرد پھیلی ایسی کالی بھیڑوں پر اپنا شکنجہ کب تنگ کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :