''Yes Sir'' سے ''Absolutely Not''تک

اتوار 27 جون 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

''Absolutely Not''کے دو لفظ میڈیا پر ایسے مشہور ہوئے کہ ان دو لفظوں نے تاریخ رقم کر دی۔ عمران خان نے امریکی ٹی وی اینکرجونارتھن سوار کو دو ٹوک الفاظ میں جواب دے کر ہکابکا کر کے رکھ دیا۔ امریکی صحافی نے عمران خان سے دوران انٹرویو سوال کیا کہ '' آپ امریکی افواج کو افغان طالبان، داعیش اور القائدہ پر ڈرون حملوں کیلئے کچھ اڈے فراہم کریں گے'' جس کا جواب وزیراعظم عمران نے بڑے واضح الفاظ میں''Absolutely Not''کہہ کر جواب دیا تو جیسے اس اینکر کو اس جواب کی توقع نہ تھی اور وہ اس پر فوراً بولا (Seriously) سیریسلی؟۔

۔ اس سے بہت عرصہ پہلے جب انگریزوں نے ماسور میں ٹیپو سلطان کو اس کے اپنے قلعے میں گھیر لیا تب بھی اس وقت کے انگریز حکمرانوں نے کہا تھا کہ اپنی گرفتاری دے دو اور آزادی کی تحریک سے باز آ جاؤ اور ٹیپو سلطان نے بھی اس وقت کے جابر انگریز حکمرانوں کو یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے'' یہی فقرہ آج تک ٹیپوسلطان کے حوالے سے خاصہ مشہور ہوا اور رہتی دنیا میں ایسے ہی حوالے سے یاد رکھا جائیگا۔

(جاری ہے)

ا س کے بعد مسلمانوں کی صلیبی جنگوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی مثال بھی ملتی ہے جس کو یورپی ریاستوں سے بے شمار جنگوں کے نتیجے میں ان ریاستوں کے بادشاہوں نے بھی ہتھیار ڈال کران کی بیعت کرنے کا کہا تھا لیکن اس جنگجو نے ان کی بیعت پر اپنی شہادت کو ترجیح دی اور ان کے ساتھ لڑ لڑ کر اپنا نام رہتی دنیا میں امر کر گیا۔ان جانبازوں کے علاوہ بھی کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں جن کے کارناموں سے مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے، قیام پاکستان کی تحریک کے دوران انگریزوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی پاکستان حاصل کرنے کی تحریک سے باز رکھنے کیلئے ایسے ہی کئی لالچ اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا بھی ان ظالم ، چالاک اور جابر انگریز حکمران کو ایک ہی جواب تھا کہ ''Absolutely Not''۔

قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے پاکستان کو ایک بھی ایسا لیڈر نہ مل سکا جو کسی بھی غیرملکی خاص کر امریکن اور انگریز حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکے کہ ''Absolutely Not''۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک کوئی بھی ایک سول یا فوجی حکمران ایسا نہیں گزرا جس کوعالمی طاقتوں کے سامنے ''Absolutely Not''کہنے کی ہمت بھی ہوئی ہو، بلکہ ان سب سول یا فوجی حکمرانوں نے ''Yes Sir'' کہنے میں ہی عافیت جانی اور اپنی اپنی مدت اقتدار پوری کر کے چلے گئے یا گھر بھیج دیئے گئے۔

ویسے بھی دیکھا جائے ہر انسان پر اپنی زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ اسے دو راستوں میں سے ایک چننا پڑتا ہے، ان دو راستوں میں ''Yes Sir'' والا راستہ قدرے آسان ہوتا ہے لیکن ''Absolutely Not''کا راستہ کٹھن اور مشکل ضرورہوتا ہے لیکن اس پر چلنے سے اس کا نام رہتی دنیا میں امر ہو جاتا ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے حکمران چار دہائیوں سے جی حضوری اور غلامی کرتے کرتے اس حد تک آگے چلے گئے کہ ان تمام حکمرانوں کو خاص کر امریکہ کا غلام کہنا کسی طور پر غلط نہ ہو گا۔

اسی کا خمیازہ 9/11 کے بعد بھگتنا پڑا جب امریکہ نے پاکستان کا کوئی تعلق واسطہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان پر حملہ کرنے کیلئے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا اور بلوچستان میں اڈے بھی لئے اور فضائی حدود کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے طالبان کو اپنا دشمن بنا لیااس وقت کے بعد پاکستان میں بھی طالبان نے اپنے پیر جمائے اور جگہ جگہ خودکش دھماکے اور دہشت گردی کے حملوں سے70 ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کیا۔

اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کا نام بھی پوری دنیا میں بدنام ہوا۔''Yes Sir'' والا راستہ مشرف دور میں خاص کر شروع ہوا، جس نے امریکی دباؤ کے پیش نظر انہیں اڈے بھی فراہم کئے اور افغانی طالبان کو اپنااور پاکستان کا دشمن بھی بنا لیا، اب تک ساڑھے تین لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں بلکہ اب تک تو ان کی 2/3 نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور ان میں اکثریت کے پاس پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی ہیں جو انہی پر سفر بھی کرتے ہیں اور پاکستان اور پاکستانی افواج کو سرعام اور سوشل میڈیا پر گالیاں بھی دیتے نظر آتے ہیں۔

یہ صرف اور صرف اس غلطی کا نتیجہ ہے جو جنرل مشرف دور اور اس کے بعد قائم ہونیوالی دو جمہوری حکومتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی پالیسیوں کے باعث ہوا۔ ان سیاسی جماعتوں نے امریکہ کی غلامی کی زنجیر کو اپنے گلے کا ہار بناتے ہوئے اپنے دن پورے کئے۔انہی حکومتوں کی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج امریکہ اپنی ہر جائز و ناجائز بات منوانے کیلئے اپنا جابرانہ رویہ اختیار کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

قائد اعظم کے بعد سے اب تک عمران خان ہی خوش قسمتی سے پاکستان کو ایک ایسا لیڈر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے ملا ہے جو جب سے اقتدار میں آیا ہے اس وقت سے پوری دنیا میں مسلمانوں کی آواز بن کر انگریزوں اور امریکیوں کو ان کی ہی زبان میں کڑاکے دار جواب دے رہا ہے۔ بدقسمتی سے اسے اپنے ہی اردگرد لاتعداد سیاسی کھوٹے سکے ملے جو اپنی کرپشن بچانے کیلئے اس حد تک گر چکے ہیں جو ایسے موقع پر اس کا ساتھ دینے کی بجائے اب اکٹھے ہو کر پی ٹی آئی کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن پورے پاکستان کے باشعور عوام اب جان چکے ہیں کہ ان کی اصلیت کیا ہے لیکن عمران خان سب کھوٹے سکوں کا مقابلہ اب تک بڑی جواں مردی سے کر رہا ہے اور قومی امید ہے کہ آگے بھی کرتارہے گا، انشااللہ۔

ساری دنیا کو پتہ ہے کہ عمران خان جب وزیراعظم نہیں بھی تھے تب بھی ان کا یہی مئوقف تھا اور اسی مئوقف پر اب تک وہ ڈٹے ہوئے ہیں کہ کسی بھی ملک کی جنگ میں پاکستان کو شامل نہیں ہونا چاہئے ، جب وہ وزیراعظم نہیں تھے اور اپوزیشن میں ان کے اس مئوقف پر دنیا بھر کے طاقتور حلقوں نے یہی کوشش کی کہ وہ اس بیانئے میں تبدیلی لائیں اور نواز شریف کے ساتھ مل کر ان کے مئوقف کی تائید کریں لیکن اس وقت بھی ان کا یہی ایک جواب تھا ''Absolutely Not''۔

اس مئوقف کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے ناصرف نواز شریف کونااہل کر اتے ہوئے گھر بھیجا بلکہ ان پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کو ثابت کرتے ہوئے انہیں جیل بھجوا دیا اس کے نتیجے میں وہ ابھی تک پوری دنیا میں کہتا پھر رہا ہے کہ '' مجھے کیوں نکالا؟'' اس نااہلی اور کرپشن کے الزامات ثابت ہونے کے بعد دنیا بھر کے طاقتور ملکوں سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ نے نواز شریف کیلئے عمران خان سے این آر او بھی مانگا جس پر عمران خان نے یہی جواب دیا ''Absolutely Not''۔

دنیا بھر میں کرونا وباء کے پھیلاؤ کے نتیجے میں پوری دنیا میں ابھی تک غیریقینی کی کیفیت طاری ہے، پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا اپوزیشن لیڈاران اور لفافہ صحافیوں نے بھی عمران خان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے انہیں مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن لگائیں لیکن عمران خان کرونا کے باعث مکمل لاک ڈاؤن نا کرتے ہوئے یہی کہا کہ ''Absolutely Not''۔

اورآج پوری دنیا کرونا وائرس پر بنائی جانیوالی بہترین پالیسی اور اللہ کے فضل و کرم کے باعث پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ، جس کے باعث پاکستان میں کرونا وباوہ نقصان نہیں پہنچا سکی ، جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھااور عمران خان کی طرف سے بنائی جانیوالی پالیسی اور ان کا سمارٹ لاک ڈاؤن کا فلسفہ کامیاب رہا جس کی پوری دنیا تعریف کر رہی ہے۔

جب سے عمران خان نے امریکی صحافی کو ''Absolutely Not''کہا ہے اس وقت سے یہ چھوٹا سا ویڈیو کلپ پورے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا،سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ اس انکار سے عمران خان نے پوری امت مسلمہ کے سامنے اپنا قد تو بڑا کر لیا ہے لیکن اب ہو سکتا ہے کہ عالمی طاقتیں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کریں جس کے باعث اب ان کی جان کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔

لیکن عمران خان کا اپنے اللہ پر ایمان اس قدر پختہ ہے کہ وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کر چکے ہیں جو واقعی ان کے سچے محب وطن ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ اور اگر وہ جنرل مشرف کی طرح امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے فراہم کرنے پر ''Yes Sir'' کہہ دیتے تو وہ اپنے ہمسائیہ افغان مسلمانوں کو خون میں نہلانے اور ان افغانوں کو پاکستان کو ایک مرتبہ پھر سے اپنا دشمن بنا لیتے اور وہی افغان طالبان، داعیش اور القائدہ پاکستان میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیتے۔

وزیراعظم نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنی قوم کو کسی کے آگے جھکنے نہیں دوں گا۔ ''Absolutely Not''کے جواب کے بعد انہوں نے اپنا ایک اور وعدہ بھی پورا کر دکھایا۔امریکی سی آئی اے کی قیادت نے پاکستان کا دورہ کیا اور عمران خان سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن عمران خان نے غلامی کی تمام زنجیروں کو توڑتے ہوئے ناصرف ملاقات کرنے سے ہی انکار کر دیا بلکہ انہیں تنبیہ کی کہ سی آئی اے سیکرٹری اپنے ہم منصب سے تو ملاقات کر سکتے ہیں اور اگر ملاقات کرنا بہت ناگزیر ہی ہے اور اگر امریکی صدر ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو اس بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔

کچھ دفاعی تجزیہ نگار تو اس ''Absolutely Not''کو بہت ہلکا لے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف وزیراعظم کا وقتی بیان ہے، امریکہ کی جانب سے تو اپنی دباؤ آیا ہی نہیں، کیونکہ ابھی امریکہ افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوا ہے، اور امید یہ ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ انخلاء ستمبر میں پورا ہو گا، ستمبر کے آتے آتے عمران خان پر اتنا دباؤ بڑھ جائیگا کہ اسے پاکستان میں فضائی و فوجی اڈے دینے ہی پڑیں گے۔

لیکن ہمارا نہیں خیال کہ اب امریکہ کا یہ خواب پورا ہو کہ انہیں افغانستان پر حملے کرنے کیلئے پاکستان اپنے فوجی اور فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے۔کیونکہ اظہار مزاح کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ '' جو شخص کسی کو چائے کے ساتھ بسکٹ تک نہیں دیتا، وہ بھلا اڈے کیسے دے سکتا ہے'' ؟
دو روز قبل مسلم لیگ ن کی نانی مریم صفدر نے غلطی سے ایک بیان دیدیا کہ اگر میرے والد کی جان کی گارنٹی دی جائے تو میں انہیں چند روز میں واپس بلا لیتی ہوں۔

کوئی ان سے پوچھے کہ جب وہ لندن گئے تو کیا لندن والوں سے بھی آپ نے کوئی گارنٹی مانگی تھی؟ دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ ن اور ان کی اپنی صاحب زادی جو کچھ عرصہ پہلے خود بھی لندن جانے کیلئے اپنے چچا مریض اعلٰی شہباز شریف کی طرح بھرپور پر تول رہی تھیں اب خود مان چکی ہیں کہ ان کے والد بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور کسی قسم کے وہ بیمار نہیں، پونے دو سال ہونے کو آئے ہیں لندن میں آج تک انہوں نے کسی ڈاکٹر سے کوئی رابطہ تک نہیں کیا، کوئی چیک اپ نہیں کرایا، اور اسی چکر میں اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی مدت معیاد بھی ختم کروا چکے ہیں اور اس پاسپورٹ پر لگا ہوا برطانوی ویزا بھی اپنی مدت پوری کر چکا ہے، اب وہ لندن میں اپنا غیرقانونی قیام رکھے ہوئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے نیب اور ایف آئی اے میں دائر مقدمات کی سماعت کے دوران مریض اعلٰی شہباز شریف اور ان کے ولی عہد حمزہ شہباز دونوں باپ بیٹے نے ہر سوال کا جواب '' مجھے نہیں پتہ'' کہہ کر دیتے ہوئے سارا وقت 5 رکنی بیچ کو چکر دینے کی کوشش کرتے رہے۔ شہباز شریف نے اپنے سارے سوالوں کے جوابات اپنے بچوں پر ڈال کر آئیں بائیں شائیں کرنے کے بعد وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔

اور شہباز شریف پر 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ والے کیس میں ہر سوال کا جواب '' مجھے نہیں پتہ '' کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔ انہیں پاکستان کے کے کسی بھی قانون کا کوئی علم نہیں۔ یہ 25 ارب روپے کہاں سے آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے، اس کا ذمہ دار کون ہے، اور اس کیس سے تعلق رکھنے والے باقی سوالات کا جواب ایک تھا کہ '' مجھے نہیں پتہ'' ۔ اتنے پرانے سیاسی لیڈر اور دنیا جہاں کے کاروبار کرنے والے اس بندے کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ ان کے اکاؤنٹ میں ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں بھی نہیں، اربوں روپے کہاں سے اور کس کے کہنے پر جمع ہوئے اور نکالے گئے، لیکن ان کا ایک ہی جواب '' مجھے نہیں پتہ'' ۔

یہ صرف جھوٹ ہی نہیں بول رہے بلکہ سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔اور شہباز شریف شروع دن سے یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت کر دیں تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے، لیکن رمضان شوگر مل کے صرف ایک کیس میں 25 ارب روپے کی کرپشن ثبوتوں کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے لیکن شہباز شریف اور ان کے خاندان کے فرد '' مجھے نہیں پتہ '' کا ورد کرتے نہیں تھک رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :