قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس اور پاکستانی میڈیا

ہفتہ 3 جولائی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

ابھی دو روز قبل ہی قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی ، افغانستان کی موجودہ صورتحال میں اندرونی چیلنجز کا سامنا کیسے کیا جائے کے موضوع پر اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں وفاقی وزرا، پاکستان کے چاروں وزراء اعلٰی، سنیٹرز اورڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور پاکستان آرمی کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شرکت کی اور اس اجلاس میں اپوزیشن ارکان اسمبلی سمیت پی ٹی آئی کے سرکردہ لیڈروں نے شرکت کی۔

اس ساڑھے آٹھ گھنٹے کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے تمام پارلیمانی ارکان نے بریفنگ کے بعد سوالات کے سیشن میں ملے جلے سوالات بھی کئے۔ اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اس بریفنگ اجلاس کو ایک جامع اور پراثر میٹنگ قرار دیا۔پہلے ڈیڑھ گھنٹے میں جنرل فیض حمید نے اجلاس میں شریک پارلیمانی ارکان کو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی چینلجز پر تفصیل کے ساتھ بریفنگ دی۔

(جاری ہے)

اس بریفنگ کے بعد سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا، ارکان اسمبلی اور سنیٹرز کے سخت اور تند و تیز سوالات کے جوابات آرمی چیف نے ہی دیئے کیونکہ ان تمام سوالات کو ڈائریکٹ آرمی چیف سے ہی مخاطب ہو کر کیا جا رہا تھا۔اس اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کے حاضر سربراہ شہباز شریف ، خواجہ سعد رفیق ، رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب نے فوج کے ساتھ اپنی پرانی وفاداریاں نبھانے کی پالیسی کی یاد سب کے سامنے تازہ کرتے ہوئے آرمی چیف کو سارا وقت گھیرے رکھا۔

حالانکہ اسی آرمی چیف کے متعلق لندن سے مریض اعظم نواز شریف کئی بار آرمی مخالف تقاریر کر چکے ہیں، ان پر فتوے لگاتے ہیں، ان کی بیٹی نانی مریم اعوان بھی ان کے ہی نقش قدم پر چلتے ہوئے بے شمار مرتبہ کئی بار برا بھلا کہہ چکی ہیں، اللہ کی شان ہے۔ وہاں موجود مختلف اخبارات کے رپورٹرز اور وقائع نگاروں کے مطابق ایک موقع پر تو خود شہباز شریف آرمی چیف کیلئے ڈرنک لئے کافی دیر تک ان کی توجہ کے لئے آرمی چیف کا انتظار کرتے رہے کہ وہ اس جانب متوجہ ہوں تو وہ انہیں یہ ڈرنک پیش کریں۔

شہباز شریف نے اپنے خطاب میں آرمی چیف کی بھرپور تعریف بھی کی او ر ان کے ویژن اور پالیسیوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار بھی کیا اور مبینہ طور پر بعض جگہ پر ان کے سامنے اپنے روحانی والد جنرل ضیاء الحق کی برائیاں بھی کیں۔ایسے موقع پر پیر پگاڑا کا وہ مشہور فقرہ بہت یاد آیا کہ ''یہ لوگ اپنا کام نکلوانے کیلئے قدموں میں گر جاتے ہیں اور اگر کام نکل جائے تو گریبان پکڑتے ہیں'' ۔

یہ سب حرکات دیکھتے ہوئے پی ٹی ایم اور پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، یہ آنسو کسی غم کے نتیجے میں نہیں بلکہ کبھی کبھی ہنستے ہنستے بھی آنکھیں بھر آتی ہیں ۔بحرحال مبینہ طور پر اطلاعات یہ ہیں کہ پورے سیشن میں شہباز شریف نے اپنی باری پر آرمی چیف کی کمال خوشامد کرنے میں اول نمبر پر رہے۔پورے ساڑھے آٹھ گھنٹے کے اس اہم اجلاس میں کسی بھی رکن اسمبلی نے اس جانب توجہ مبذول نہیں کرائی کہ قومی سلامتی کے اس اہم اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کو لازمی شرکت کرنی چاہئے تھی، لیکن بلاول زرداری نے اپنے خطاب میں سپیکر قومی اسمبلی جو اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے کی توجہ مبذول کرائی کہ اس اہم اجلاس میں وزیراعظم کی شرکت لازمی ہونی چاہئے تھی، اس کے جواب میں سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ یہاں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف موجود ہیں ، جنہوں نے اجلاس میں شرکت سے قبل ہی مجھے نوٹس جاری کردیا تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان اس اجلاس میں شامل ہوئے تو مسلم لیگ ن اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دے گی۔

بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ عمران خان نے اپوزیشن کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ اگر الگ میں آرمی چیف سے ملاقات کرنا چاہتی ہے تو وہ ضرور مل لے۔اس اجلاس میں بلاول زرداری نے آرمی چیف کے سامنے ایک سفارش پیش کی کہ جناب والا علی وزیر پر سارے کیس ختم کرتے ہوئے رہا کر دیا جائے، اسی طرح کی سفارش کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک معروف صحافی نے بھی کی تھی ، اس وقت بھی آرمی چیف نے اس طرح کا جواب دیا تھا جیسا آج بلاول زرداری کو دیا۔

آرمی چیف نے واضح کیا کہ علی وزیر کو کسی ذاتی عناد کے باعث گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ وزیرستان میں ان کا قبضہ مافیا کا دھندہ بند ہو گیا ہے، جو ناجائز قبضے علی وزیر اور ان کے ساتھیوں نے کر رکھے تھے ان سے وہ چھڑواکر ان کے اصل مالکان کو واپس کئے گئے ہیں، اس پر انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی میری ذات کی حد تک مجھے گالیاں دے، مجھے برا بھلا کہے تو یہ قابل برداشت ہے، جنرل مشرف ، جنرل ضیاء الحق اور یہاں بیٹھے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو گالیاں دے ، تو برا منانے کی کوئی بات نہیں لیکن اگر کوئی میرے ادارے کو گالیاں دے گا، اسے بدنام وذلیل کرنے کی کوشش کرے تو اسے پاک فوج کبھی نہیں چھوڑے گی۔

محسن داوڑ کو بھی آرمی چیف نے بڑا تگڑہ جواب دیتے ہوئے اس سے پوچھا کہ آپ اپنے ہی ملک کی فوج کو ہر وقت برا بھلا کہتے پھرتے ہو، پاکستان کے بارڈر ز، پہاڑوں ، میدانوں اور صحراؤں پرڈیوٹی پر مامور اپنے فوجی جوانوں کو ذلیل و بدنام کرتے ہو۔ آپ کبھی کسی فوجی شہید کے گھر گئے ہو، جن کی فیملی کو فیس کرنا سب سے مشکل کام ہے، ان فوجی جوانوں اور فوجی افسروں نے آپ کی حفاظت کرنے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ ہنستے ہنستے پیش کر دیا۔

ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں، ان کے ماں باپ، بیوہ بہنوں کے ساتھ آپ نے کبھی اظہار ہمدردی کیا ہے؟ میں یہ کام بحیثیت آرمی چیف آئے روز ان شہدا کے گھر جا کر کرتا رہتا ہوں کیونکہ یہ کام بہت مشکل ہے۔آپ کسی بھی واقع کو پکڑ کر اور اس واقع کا ایک رخ دیکھتے ہوئے پاکستان آرمی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہو۔ اس عمل سے آپ پاکستان کیلئے کوئی اچھا کام نہیں کر رہے،بلکہ اپنے ملک کے دشمنوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

قومی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ساڑھے آٹھ گھنٹے کے اجلاس کے آخر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجود نے ایک اور آفر کی کہ ابھی بھی اگر کسی رکن اسمبلی کے ذہن میں کوئی سوال جو رہ گئے ہیں اس کو پوچھنے کیلئے اگر ایسی ہی ایک اور میٹنگ کرنی ہے تو پاکستان آرمی کے چیف کے طور پر میں حاضر ہوں، اب یہ طے پایا ہے کہ اسی طرح کا ایک اجلاس عیدقربان سے پہلے دوبارہ منعقد کیا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان آرمی حکومت کا حصہ ہرگز نہیں ہے بلکہ ریاست کا حصہ ہے، پچھلے ادوار میں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی ہم اسی جمہوری حکومت کے ساتھ تعاون و معاونت آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرتے رہے ہیں اور ایسے ہی موجودہ حکومت کے ساتھ بھی کھڑے ہیں، اور مستقبل میں بھی کھڑے رہیں گے۔
گزشتہ ہفتے ڈی جی رینجرز سندھ لیفٹینٹ جنرل افتخار حسن چودھری نے داؤد یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کراچی میں اپنے ایک خطاب میں پاکستان میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میڈیا اپنے وطن کی اصل تصویر دکھانے اور اس کی صحیح انداز میں رپورٹنگ کرنے میں بالکل ناکام ہو گیا ہے۔

اس خطاب کے دوران انہوں نے پاکستان کے موم بتی مافیا اور لبرل کمیونٹی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو بتایا کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں گزشتہ سال کے دوران 2/3 تیزابی گردی کے کیس سامنے آئے اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والی شرمین عبید چنائی نامی پاکستانی نژاد خاتون ان کیسوں پر اپنا فوکس رکھتے ہوئے ڈاکومنٹری Saving Face نامی فلم بنا ڈالی اور اس پر آسکر ایوارڈ بھی دوسری بار جیتا۔

شرمین عبید ہیں تو پاکستانی لیکن گزشتہ کئی برس سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور اپنے ہی گھر کے چند کپڑوں کو بیچ چوراہے پر دھونے اور پاکستان کی شکل بہت زیادہ مسخ کر کے پیش کرتے ہوئے بدنامی کو سرعام منظرعام پر لانے پر مغربی دنیا کے لوگ انہیں ایوارڈ سے نوازتے ہیں۔لیکن انہی مغربی ملکوں میں پچھلے سال کے اعداد و شمار میں لندن میں800 اور نیویارک جیسے ترقی یافتہ اور کثیر آبادی والے ماڈرن شہر میں 1600سے زائدعورتوں پر مظالم پر مبنی کیس رجسٹر ہو چکے ہیں لیکن اس شرمین عبید کی نظر ان ماڈرن معاشروں پر ہرگز نہیں پڑتی اور نہ ہی دنیا بھر کا میڈیا ان کو رپورٹ کرتا ہے، اور اگر کوئی برصغیر یا تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے شرمین عبید کی طرح کے کسی ڈائریکٹر یا پروڈیوسر کی نظر ان وارداتوں پرپڑے تو فلم بنانے کی جرات نہیں ہوتی اور اگر کوئی اس کی جسارت کر بھی لے تو آسکر کے ارباب اختیار اس بنائی جانیوالی فلم کو اپنے ایوارڈ کیلئے کسی صورت مناسب نہ سمجھتے ہوئے اسے بہترین ڈاکومنٹری فلم کی دوڑ سے ہی باہر کرنے میں ہی اپنی عافیت جانتے ہیں۔

شرمین عبید کو پہلا آسکر ان کی پہلی ڈاکومنٹری جو کہ انہوں نے طالبان پر بنائی تھی پر دیا گیا۔ اور اب اپنے ہی ملک کی بدنامی کرتے ہوئے انہوں نے دوسرا آسکر بھی جیت لیا۔ لیکن اسی شرمین عبید کو مغربی معاشرے اور اس میں ڈھائے جانیوالے مظالم کو کہیں نظر نہیں آئے، لیکن انہوں نے پاکستان میں موجود چند ایک عناصر کی طرف سے تیزابی واقعات پر مغربی معاشرے کی نظریں متوجہ کی جس پر انہیں ایوارڈ سے بھی نواز دیا گیا۔

ڈی جی رینجرز نے بھی اپنے میڈیا کی توجہ ایسے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کی جانب مبذول کرائی ہے جو اپنے معاشروں کو تو سب کی نظر میں لانے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ہونیوالے بے شمار واقعات پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ابھی چند روز قبل کینیڈا میں کسی انتہا پسند نے ایک پاکستانی نژاد پوری فیملی کو اپنی بڑی کارکے نیچے کچل کر ہلاک کر ڈالا، اور ایک واقعہ ہوا کہ کسی انتہاء پسند نے کسی مسلمان کی داڑھی مونڈ ڈالی۔

اب اس شرمین چنائی سے کوئی پوچھے کہ تم ان مظلوموں کے لئے بھی کوئی ڈاکومنٹری فلم بناؤ گی تو یقین کیجئے اس کا جواب ہمیشہ کی طرح نہیں میں ہو گا، حالانکہ وہ خود کینیڈا کی نیشنلٹی ہولڈر ہیں۔کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اگر اس نے ان گورے انتہا پسندوں کیخلاف کوئی ایسی ڈاکومنٹری فلم بنائی جس میں انہی کی قوم کی ساکھ خراب ہوتی ہو گی تو یہ آسکر ایواڈ کے ارباب اختیار ایسی فلم کو کوئی پذیرائی نہیں د یں گے اور شرمین چنائی پردیس میں اجنبی بن جائیگی۔

ابھی تک سوشل میڈیا پر اس عورت کا کلپ محفوظ ہے اور جسے یوٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ملتان سے تعلق رکھنے والی خاتون اس تیزاب گردی کا شکار ہوئی تھی، اور جس کو شرمین عبید نے 30 لاکھ روپے دینے اور اسے ملتان میں 5 مرلے کا گھر بنا کر دینے کا جھانسہ دے کر اسے ڈاکومنٹری فلم میں فلمایاگیا، وہ خاتون آج بھی شرمین عبید کی جان کو رو رہی ہے۔کیونکہ اسے کسی قسم کی کوئی امداد یا وعدے کے مطابق کچھ بھی نہیں ملا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :