کم بجٹ ائیر لائنز

بدھ 27 مئی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

آج سے تقر یباً دس دن پہلے میں نے ٹیلی ویژ ن چینلزپر یہ خبر پڑھی کہ جاپان نے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلا ئن(PIA)کی اسلام آباد سے ٹوکیو کیلئے پرواز اس وجہ سے منسوخ کر دی کہ پاکستان کرونا پھیلا نے والے ممالک میں شامل ہے اس لئے پاکستان کی ائیر لائنز کو جاپان میں اترنے کی اجازت نہ دی جائے ، حالانکہ یہ ایک repatriation فلائٹ تھی جس کا مقصد جاپان میں پھنسے ہوئے تقریباً200 پاکستانیوں کووطن واپس لانا تھا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف آپ کراچی میں پی آئی اے کی فلائٹ(پی کے 8303-) کو ذہن میں رکھتے ہوئے جاپانی حکومت کے فیصلے کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ کیا جاپانی حکومت کاپی آئی اے کو لینڈنگ کی اجازت نہ دینا ایک درست فیصلہ نہ تھا جاپانی حکومت بالآخر سوچتی ہوگی کہ ہم ایک ایسے ملک کو جاپان میں فلائٹ آپریشن کی اجازت کیوں دیں جوایک طرف کرونا پھیلا رہا ہے اور دوسری طرف اسکے کمرشل ائیر لائنز کے جہاز کریش ہو رہے ہیں کیا یہ دونو ں واقعات عالمی سطح پر ہما ری بدنامی نا اہلی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے۔

(جاری ہے)


 کرونا وبا سے پہلے دنیا میں روزانہ کم وبیش ایک لاکھ فلائٹس آپریٹ ہوتی تھیں اور دنیا کے اگر مصروف ترین ائیرپورٹس(ہانگ کانگ ، دوبئی ، قطر، سنگاپور، بیجنگ، ہیتھرو ائیرپورٹ لندن وغیرہ)کا جائزہ لیں تو اِن چند ائیرپورٹس پر میں نے بذاتِ خود 3-4جہاز قطار میں اُڑنے(ٹیک آف)کیلئے تیا ر دیکھے تھے اور اِسی طرح اِن ائیرپورٹس پر ہر 2-3منٹ کے بعد ایک نیا جہاز لینڈ ہورہا ہوتاہے ، اور پائلٹس کے پاس اُترنے کیلئے صرف 3-4منٹ کا وقت ہوتا ہے، چونکہ اِن ائیرپورٹس پر ائیر ٹریفک کنٹرول کے پاس ائیرٹریفک کا بہت رش ہوتا ہے لیکن اِن سب کے باوجودیہ ائیرپورٹس بڑے ہی محفوظ طریقے سے اپنی اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔

جبکہ پاکستان کے ائیرپورٹس پردن کے 24گھنٹوں کے دوران چند گِنی چُنی فلائٹس ٹیک آف اور لینڈ کرتی ہیں،اور ہم لوگ اِن فلائٹس کوبھی بحفاظت operateنہیں کر واپاتے۔
ائیر ایشیا(Air Asia)ملائیشیا اورسکوٹ ائیرلائن(Scoot Air Line)سنگاپور کی low-budgetائیرلائنز ہیں۔میں 2018میں جب پہلی دفعہ ملائیشیا گیا تو میں ائیرایشیاکے ذریعے چائنہ سے کوالالمپور ائیرپورٹ کے ٹرمینل IIپر اُترا۔

میں اُس ٹرمینلIIپر یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ ہر طرف مجھے ایئرایشیا کے جہاز ہی نظر آئے، کوالالمپور کے ائیرپورٹ کا ٹرمینلIIصرف ائیر ایشیا کے جہازوں کیلئے ہی مختص تھا۔low-budgetائیرلائینز عام طورپر Tourism industryکو پروموٹ کرنے کیلئے operateکی جاتی ہیں۔ اِن کم بجٹ والی ائیرلائنز میں کھانا اور سامان((Luggageکی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔مُسافروں کو صرف 6-7کلوگرام کادستی سامان(handcarry)کی اجازت ہوتی ہے،جبکہ اِن ائیرلائنز کے safety standardsاور باقی SOPsتقریباًسب A-classائیرلائنز کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔

یورپ سمیت،مشرقی ایشیائی ممالک (ملائیشیا،انڈونیشیا،سنگاپور،تھائی لینڈ) کم بجٹ والی ائیرلائن کے ذریعے اپنی سیاحت کو پروموٹ کررہے ہیں۔سنگاپور اور ملائیشیا کی یہی ائیرلائنز، Scoot Airاورائیر ایشیا، آسٹریلیا کو مشرقی ایشیا اور چائنہ سے جوڑتی ہیں۔نیوزی لینڈاور آسٹریلیا کے زیادہ تر سیاح انہی ائیرلائنز کے ذریعے انڈونیشیا،ملائیشیا، ویتنام، فلپائن اورتھائی لینڈ کا سفر کرتے ہیں۔

اور چائنہ کے لوگ بھی اب معاشی انقلاب کے بعد سیاحت کے لئے اِن ممالک کا سفرانہی ائیرلائنزکے ذریعے کرتے ہیں۔یہ مشرقی ایشیائی ممالک نہایت مہارت اور ہنرمندی کیساتھ اپنی low-budgetائیرلائنز چلارہے ہیں۔میں جب کوالمپورسے سنگاپور کے لیے جارہا تھا تو میری ساتھ والی سیٹ پر ایک امریکن فیملی بیٹھی تھی جو سیاحت کے لیے ملائیشیا سے سنگاپورجارہی تھی اور ائیر ایشیا کے ذریعے سفر کررہی تھی۔

میرا سوال یہاں یہ ہے کہ اگریہ ممالک اپنی low-budgetائیر لائنز کو اتنا محفوظ اور اور اِس سٹینڈرڈ کا بنا سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے سیاح بِلاخوف وخطر اِن فلائٹس کے ذریعے اِن ممالک کی سیر کرسکتے ہیں، تو بالآخر ہم اپنی نیشنل ائیر لائنزکو اِتنا محفوظ اور آرام دہ کیوں نہیں بناسکتے۔اب صورتحال یہ ہوئی پڑی ہے کہ باقی دنیا کے باشندے تو ایک طرف ، اب توپاکستان کے اپنے لوگ بھی PIAکے ذریعے سفر کرنے سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔

کیونکہ کبھی توپی آئی اے کے جہاز کریش کرہوجاتے ہیں، کبھی لینڈنگ کے دورانPIAکا طیارہ رن وے سے اُتر جاتاہے،کبھی پی آئی اے کی ائیرہوسٹس اور فلائیٹ اٹینڈنٹ موبائل فونز سمگل کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں،تو کبھی PIAکے پائلٹس نشے کی حالت (intoxicated)میں جہاز اُڑاتے پھر رہے ہوتے ہیں اورکبھی پی آئی اے کے انہی پائلٹس کی ڈگری جعلی نکل آتی ہے اور سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑتا ہے۔

آخر یہ سب کچھ کیا ہے یہ سب کچھ مہارت ، ہنر مندی ، dedicationاور ذمہ داری کی کمی نہیں ہے۔ بلآخر ہم لوگ کب تک دُعاؤں کے سہارے اپنے کمرشل جہاز اُڑاتے پھریں گے۔جبکہ غیر مُسلم ممالک کے جہازوں ، ٹرینوں اور بسوں میں نہ تو سفر شروع ہونے سے پہلے سفر کی دُعا پڑی جاتی ہے اور نہ ہی وہاں مسافروں کے لوحقین سفر شروع ہونے سے پہلے لمبی لمبی دُعائیں اورنوافل پڑھے جاتے رہے ہوتے ہیں۔

ہم پاکستانیوں نے ہر چیز کو 1992کا ورلڈ کپ کیوں سمجھ رکھا ہے ہم پاکستانی کیوں سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ 1992کے ورلڈ کپ کیطرح دعاؤں کے سہارے بغیر کسی محنت اور ہنر مندی کے اپنی ائیر لائنز، ٹرینیں اور سارا ملک چلالیں گے۔نہ جانے ہم پاکستانیوں میں ہر شعبے میں ہنر مندی، مہارت، صلاحیت ،ایمانداری اور ذمہ داری کی کمی کیوں ہے اور ہمارا ہر شعبہ ہی روبہ زوال کیوں ہے؟
اگر آپ نے ائیر لائنز انڈسڑی میں مہارت،قابلیت اور کا اندازہ لگانا ہو پھرEmirates Airlines کی فلائٹ 581 کا جائزہ لیں جو3 اگست 2016 کو انڈیا سے دوبئی جا رہی تھی اس فلا ئٹ کالینڈنگ گےئر بھی نہیں کھل پایا اور پائلٹ کو دوسری لینڈنگ ٹرائی کے لیےgo around کیلئے جا نا پڑا تھا جبکہ اونچائی اور سپیڈکم ہونے کیوجہ سے اُس بوئنگ 777جہاز کا انجن اتناthurst پیدا نہ کر سکا اور اس جہاز کو بلآخر دوبئی ائرپورٹ پرہی crash landing کرنا پڑی۔

اب کمال یہ تھا کہ اس جہاز کے پائلٹ نے بڑی مہارت سے کریش لینڈنگ کی ایئرپورٹ سیکورٹی اور فائر فائٹر نے بری مہارت سے تمام مسافر اور جہاز کے عملے سمیت 300لوگوں کو بحفاظت جہاز سے نکال لیا اس کریش لینڈنگ میں ایک فائر فائٹر کی موت واقع ہوئی ۔جبکہ باقی تمام لوگوں کی جانیں بچ گئیں۔اِسکے برعکس ہم ایک ایسی اندھی قوم ہیں جسکی تاریخ دلخراش سانحوں اور حادثوں سے بھر ی پڑی ہے۔

ہم جیسی نکمی قوم کے نہ تو جہاز محفوظ ہیں اور نہ ہی ٹرینیں،بسیں اور آئل ٹینکرز۔آئے دن جہاں ہمارے جہاز گر جاتے ہیں، وہیں ہماری ٹرینوں میں آگ لگ جاتی ہے یا ہمارے آئل ٹینکرز سڑکوں پر اُلٹ جاتے ہیں اور اُنکی آگ سے ڈیڑھ سو لوگ (احمد پورشرقیہ آئل ٹینکر واقعہ)لُقمئہ اجل بن جاتے ہیں۔اِن سانحات سے نہ تو ہماری قوم اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں یا اداروں کے کانوں پر کوئی جوں رینگتی ہے اور نہ ہی ہمارا قبلہ دُرست ہوتا ہے۔

آجتک پاکستا ن کی بدبخت تاریخ میں کسی فضائی حادثہ کی کوئی انکوائری رپورٹ پبلک نہیں کی گئی، چاہے وہ 2016میں چترال سے اِسلام آباد آنیوالی پرواز کا معاملہ ہو، یا پھرائیربلیویا بھوجا ائیر لائن کے حادثوں کہ معاملہ ہو، آج تک قوم کو کسی فضائی کی وجہ نہیں بتائی گئی۔اس بد بخت قوم کو تو اپنے پیارے صدر جناب ضیاء الحق صاحب کے طیارے حادثے کی بھی آج تک وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں۔

اور پھر یہ قوم بھی اسقدر بُھلکڑ ہے جو کچھ عرصہ تو کسی سانحے کو یا د رکھتی ہے لیکن پھر اُس سانحے سے بغیر کچھ سبق سیکھے اُسے بھول جاتی ہے۔چاہے وہ سانحہ زینب قتل کیس کیصورت میں ہو، یاLDAپلازہ میں لگنے والی آگ کی صورت میں، اور یا پھر 2010کے ہولناک سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں،اِس قوم کو تو کچھ عرصہ بعد سب کچھ ہی
 بھول جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :