Live Updates

سینٹ ،پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں بم دھماکے پر بحث ، اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

کرسی کی جنگ پاکستان کو تباہ کردے گی ،حکومتی سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی حکومت چھوڑ کر نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کر دیا اتنے محفوظ علاقے میں حملہ بظاہر سیکورٹی اداروں کی ناکامی لگتی ہے،43 سال ہوگئے ہیں ہم حالت جنگ میں ہیں ،کرسی کی جنگ پاکستان کو تباہ کردے گی ،ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا ، پارلیمنٹری کمیٹی کے ذریعے انکوئری کی جائے ،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تفصیلی بحث کے بعد انسداد دہشت گردی کی جامع اور ٹھوس پالیسی وضع کی جائے، تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مذکرات کریں ،معیشت، آئین کی حکمرانی پر اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے،نیشنل ایکشن پلان کا دوبارہ جائزہ لینا بہت ضروری ہے ،دہشت گردی سمیت درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کر نا ہوگا،متحد نہ ہوئے تو وہ دن بھی آسکتا ہے جب کوئی خود کش حملہ اور پارلیمنٹ آجائے، رضا ربانی ، سینیٹر رانا مقبول ، سینیٹر فیصل جاوید ، سینیٹر ثانیہ نشتر ، سینیٹر اسد جونیجوو دیگر کا اظہار خیال ہماری افواد دہشتگردی سے نبر د آزما ہونے ک ی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ، ہماری افواج نے کامیاب آپریشن ضرب عضب، راہ حق اول اور راہ حق دوئم جیسے سنگ میل عبور کئے،ہم سب کو امن کے لئے قومی اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، انتخابات کی رٹ لگانا چھوڑ دیں، قومی سلامتی کے لئے متحد ہوں،وزیرمملکت برائے قانون و انصاف سینیٹر شہادت اعوان کی گفتگو مشاہد حسین سید نے بھی حکومت چھوڑ کر نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کر دیا… ہوسکتا ہے مشاہد حسین کو پارٹی سے نکال دیا جائے ، دینش کمار مذاکرات کے دوران طالبان کے احسان اللہ احسان نے چار نمائندے دیئے جن میں عمران خان کا نام بھی شامل تھا، عرفان صدیقی کا انکشاف اگر عمران خان دہشت گردی کے مسئلے پر ہمارے ساتھ بیٹھنے کا اعلان کریں تو اپنی جماعت کے لیڈروں کو منانا میری ذمہ داری ہے، لیگی سینیٹر عام انتخابات سے ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں،اعجاز چوہدری …ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد بنانا ہوگا ، مولانا غفور حیدری

منگل 31 جنوری 2023 18:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جنوری2023ء) سینٹ میں پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں بم دھماکے پر بحث کے دور ان اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ،حکومتی سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی حکومت چھوڑ کر نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ اراکین نے پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ اتنے محفوظ علاقے میں حملہ بظاہر سیکورٹی اداروں کی ناکامی لگتی ہے،43 سال ہوگئے ہیں ہم حالت جنگ میں ہیں ،کرسی کی جنگ پاکستان کو تباہ کردے گی ،ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا ، پارلیمنٹری کمیٹی کے ذریعے انکوئری کی جائے ،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تفصیلی بحث کے بعد انسداد دہشت گردی کی جامع اور ٹھوس پالیسی وضع کی جائے، تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مذکرات کریں ،معیشت، آئین کی حکمرانی پر اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے،نیشنل ایکشن پلان کا دوبارہ جائزہ لینا بہت ضروری ہے ،دہشت گردی سمیت درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کر نا ہوگا،متحد نہ ہوئے تو وہ دن بھی آسکتا ہے جب کوئی خود کش حملہ اور پارلیمنٹ آجائے،بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے قانون و انصاف سینیٹر شہادت اعوان نے کہا ہے کہ ہماری افواد دہشتگردی سے نبر د آزما ہونے ک ی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ، ہماری افواج نے کامیاب آپریشن ضرب عضب، راہ حق اول اور راہ حق دوئم جیسے سنگ میل عبور کئے،ہم سب کو امن کے لئے قومی اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، انتخابات کی رٹ لگانا چھوڑ دیں، قومی سلامتی کے لئے متحد ہوں ۔

(جاری ہے)

منگل کو سینٹ کااجلاس چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں پشاور میں پولیس لائنزکی مسجد میں بم دھماکے کے معاملے پر بحث کی گئی جس میں حصہ لیتے ہوئے سابق چیئر مین سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ دہشتگردوں کو مسجد ہی کیوں نظر آتی ہے پارلیمانی کمیٹی سے اجازت نہیں بلکہ آگاہ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات جاری ہیں ،مطالبہ کرتا ہوں کہ پارلیمنٹری انکوائری کی جائے کہ پاکستانیوں کو اعتماد میں لئے بغیر ٹی ٹی پی کو بحالی کے لئے لایا گیا ،ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا ،مذاکرات کے عمل کو جرگے کو آئوٹ سورس کر دیا ،جرگے کی قانونی حیثیت کیا تھی ،پاکستان کے عوام کو اعتماد میں نہیں کیا گیا ۔

انہوںنے کہاکہ صدر نے آٹھ تاریخ کو مشترکہ اجلاس بلایا گیا گیا ہے ،مشترکہ اجلاس میں دہشتگردی کے حوالے سے پالیسی زیر بحث لائی جائے ،سینٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس بلا کر دہشتگردی پر بحث کروائی جائے ۔ انہوںنے کہاکہ تمام سیاسی جماعتوں سے گلہ ہے اور مذمت کرتا ہوں ،یہاں وفاق کی زندگی اور موت کا سوال ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو سیاست کرنے سے فرست نہیں مل رہی ،الیکشن نوے دن میں ہونگے نہیں ہونگے یہ محور بنا ہوا ہے ، تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قومی مذاکرات کرے ،معیشت، آئین کی حکمرانی پر اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ پشاور دہشتگردی واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک ان لاشوں کی تدفین نہیں ہوئی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ عمران خان کے علاوہ ان کو کوئی آدمی نہیں ملتا جس پر تنقید کی جائے۔انہوںنے کہاکہ یہ تو ٹی ٹی پی کو بھی عمران خان کے ساتھ جوڑ رہے تھے، ان کی کابینہ تو دیکھیں 77 تک پہنچ گئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ (ن )لیگ سے تو یہی امید تھی مگر پیپلز پارٹی والے بھی ان کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ اجلاس کے دور ان اپوزیشن اور حکوومتی اراکین میں تلخ کلامی ہوئی ۔ حکومتی اراکین نے کہاکہ آپ خود سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے رہے ہیں،پشاور واقعے پر بات کریں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر طاہر بزنجونے کہاکہ مسجد کے اندر حملہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،اتنے محفوظ علاقے میں حملہ بظاہر سیکورٹی اداروں کی ناکامی لگتی ہے۔

انہوںنے کہاکہ برسوں سے چلنے والی پالیسی ناکام ہو گئی ہے اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ افغان پالیسی فعل ہو گئی یہ تسلیم کرنا چاہیے ،ہماری نالائقی ہے کہ کائونٹر ٹیررازم پالیسی نہیں بن سکی،43 سال ہوگئے ہیں ہم حالت جنگ میں ہیں ،5 ارب ڈالر کا افغان جہاد لڑآ گیا، آج اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ،کلیئر افغان پالیسی بننی چاہیے اور اس کی بنیاد پر کائونٹر ٹیررازم پالیسی بنائی جائے ،لولی لنگڑی حکومت سے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ کر الیکشن کروایا جائے ،جنرل ضیاء کو گالیاں تو دی جاتی ہیں مگر ان کی پالیسیوں کو فالو کیا جاتا ہے ،جنرل ضیاء نے کہا تھا الیکشن اس وقت ہونگے جب نتائج مثبت ہونگے ۔

انہوںنے کہاکہ کرسی کی جنگ پاکستان کو تباہ کردے گی ،لوگ مسئلہ کا حل چاہتے ہیں روایتی نالائقی نہیں چلے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینٹر فیصل جاوید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے امن کیلئے کو قربانیاں دیں وہ دنیا کو باور کروایا جانا چاہیے ،ہماری ترجیحات فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو جیل میں ڈالنا اور عمران خان پر پرچے کرنا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ مشرف دور میں دس ڈرون حملے ہوئے ،(ن )لیگ اور پیپلز پارٹی حکومت میں 400 ڈرون حملے ہوئے ،عمران خان دور میں ایک بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستانی قوم غلام نہیں ،جب کشکول لیکر پھرتے ہیں تو اس کے بدلے ہمیں استعمال کیا جاتا ہے ،ہمیں آئین کے ساتھ جڑ کر رہنا ہے اسی میں پاکستان کی کامیابی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جمہور کو سننا ہے ہر طبقہ سراپاً احتجاج ہے ،پاکستان انصاف کیلئے پکار رہا ہے۔

سینٹر دنیش کمار نے کہاکہ متحد نہ ہوئے تو وہ دن بھی آسکتا ہے جب کوئی خود کش حملہ اور پارلیمنٹ بھی آجائے۔ انہوںنے کہاکہ مشاہد حسین نے الیکشن کروانے کے بارے میں سچ بات کی ،ہو سکتا ہے ان کو پارٹی سے نکال دیا جائے ،ہوتا یہی ہے کہ جو سچ بات کرتا ہے اسے پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔سینیٹر رانامقبول نے کہاکہ میاں نواز شریف قوم کا محسن ہے اس نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا ،اگر ایٹمی قوت نہ بنتا تو بھارت ہمیں آرام سے نہ بیٹھنے دیتا ۔

انہوںنے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کا دوبارہ جائزہ لینا بہت ضروری ہے ،نیکٹا کو نیکٹا ڈویڑن ڈیکلیئر کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتکاری کو مضبوط بنایا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے ساتھ دین کے نام پر زیادتیاں ہورہی ہیں ،دہشت گردی کی روک تھام میں مدد کیلئے عوام میں آگہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ دہشتگردی کے کیسز کے ٹرائل کو تیز کرنا ہوگا،2016 کے ایکشن پلان کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کے سرزمین کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں کرنی ہونگی ،افعانستان کے ساتھ تعلقات کو تنقید کی نظر سے دیکھنا پڑے گا،اس کیلئے سفارتی سطح پر ایک بھرپور مہم کی ضرورت ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے انکشاف کیا کہ مذاکرات کے دوران طالبان کے احسان اللہ احسان نے چار نمائندے دیئے جن میں عمران خان کا نام بھی شامل تھا۔

انہوںنے کہاکہ ہم نے طالبان سے مذاکرات کی بات کی تو انہوں نے اپنے چار نمائندوں کا اعلان کیا،احسان اللہ احسان نے چار نمائندے دیئے،طالبان کی طرف سے پروفیسر ابراہیم، مرحوم مولانا سمیع الحق اور مولانا عبدالعزیز نمائندے دیئے گئے جس چوتھے نمائندے کا نام دیا گیا وہ عمران خان کا نام تھا ،طالبان نے کہا کہ عمران خان ہمارے نمائندے کے طور پر شامل ہوں گے ،عمران خان نے اپنا ایک نمائندہ دیا اور مذاکرات ہوتے رہے۔

انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ،خود کش حملے کا ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا یہ کیا ہے ہمیں بتایا گیا کہ روس کے خلاف جہاد فرض ہے ،یہ ایک وردی والے جرنیل نے فتویٰ دیا اور جنگ میں جھونک کر چلے گئے ،ایک جرنیل نے دہشت گردی کے جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنایا ،دونوں جرنیلوں کا اس پارلیمنٹ سے دور دور کا تعلق نہیں تھا ۔

انہوںنے کہاکہ اگر عمران خان دہشت گردی کے مسئلے پر ہمارے ساتھ بیٹھنے کا اعلان کریں تو اپنی جماعت کے لیڈروں کو منانا میری ذمہ داری ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چودھری نے کہاکہ جس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اس کا آغاز 45سال پہلے ہوا ،افغان جہاد کے آغاز میں جہادی تنظیمیں نصیراللہ بابر کے دور میں آئیں ،امریکہ ہمیں کہتا تھا کہ روس کو افغانستان میں روک کر رکھنا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ یہاں ڈالروں کی ریل پیل مارشل لاء کے دور میں ہوئی ہے ،ہمارے پانچ چھ ہزار فوجی اور جرنیل افغان جہاد پالیسی کے نذر ہوگئے ،ہم نے اس جنگ میں شامل ہوکر اربوں ڈالر کا نقصان کیا ، کوئی اسٹبلشمنٹ کو کہے گا کہ امریکہ کو ناں کردے ،نائن الیون سے پہلے یہاں خود کش دھماکے نہیں ہوتے تھے ۔ انہوںنے کہاکہ ڈرون حملوں کے بعد خود کش بمبار کھڑے ہوگئے تاریخ کو جھٹلا نہیں سکتے ،ڈمہ ڈولا مدرسے کا ذکر نہیں کیا جاتا جس میں ڈرون حملے میں چوراسی بچے شہید ہوئے ۔

انہوںنے کہاکہ عمران خان نے پارلیمنٹ میں آکر کہاکہ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں شامل نہیں ہونا ۔ انہوںنے کہاکہ مراد سعید نے سوات میں لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کردیا تھا ،اس کے بعد رجیم چینج ہوگئی ،آج بھی ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ یہ لولی لنگڑی حکومت ہے ،عام انتخابات کروائے جائیں ،عمران خان آج بھی الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔

انہوںنے کہاکہ صوبے کی دواسملیاں آئین کی تحت تحلیل ہوئی ہیں ،قومی اسمبلی کے استعفے راتوں رات منظور کئے گئے ،ان کو خطرہ تھا کہ اگر یہ قومی اسمبلی آگئے تو حکومت نہیں رہے گی ۔ انہوںنے کہاکہ عام انتخابات واحد راستہ ہیں جس سے ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد بنانا ہوگا ،آزاد خارجہ پالیسی نہ ہونے سے مشکلات بڑھی ہیں ۔

انہوںنے کہاہک ریاست کو چیلنج کرنے والی قوتیں کامیاب نہیں ہوسکتیں ،مانتا ہوں سکیورٹی کی صورتحال اچھی نہیں ہے ،یہ سیکیورٹی کی ناکامی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگادی گئی پھر یہ لوگ یہاں کیسے آگئے ۔انہونے کہاکہ ملک میں امن قائم کرنا ہے تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ مسئلے کو حل کریں ،ہم نے مزاحمتی گروہ کے خلاف فتویٰ دیا ،مجھ پر اور میرے قائد پر حملے ہوئے ہم پیچھے نہیں ہٹے ۔

انہوںنے کہاکہ عمران خان نے زرادری پر حملے کا الزام لگایا ہے ،ہمارے اوپر حملے ہوئے ،ہم نے کسی لیڈر پر الزام نہیں لگایا ، آزاد خارجہ پالیسی بنائی جائے ،امریکہ کے سہارے کب تک چلیں گے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے تحریک انصاف کی سینیٹرڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہاکہ ہم دہشتگردی کی بنیادی وجوہات پر نہیں جاتے،پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں کرتے ،میں تین سال کابینہ میں رہی مگر اصلی فیصلے کہاں ہوتے ہیں مجھے نہیں معلوم۔

انہوںنے کہاکہ ہم نے یکہ طرفہ طور پر فیصلے کیے، پالیسی نہیں بنائی۔ ثانیہ نشتر نے کہاکہ آج پاکستان کی تاریخ کا سب سے سیاسی اور معاشی بحران ہے۔سینیٹر اسد جونیجو نے کہاکہ آج افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ،دیکھنا ہوگا کہ یہ ناکام خارجہ پالیسی تو نہیں ،افغانستان کے اندر ہمارے خلاف جو کچھ ہورہا ہے اس کو پاک فوج ہی روک سکتی ہے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہاکہ بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو ہم ناراض بلوچ کا نام دے دیتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا ،انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہورہا ۔ انہوںنے کہاکہ اگر بنوں جیل پر حملے کی تحقیقات ہوجاتیں تو آج یہ واقعہ نہ ہوتا ۔ سرفراز بگٹی نے کہاکہ نیکٹا کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

انہوںنے کہاکہ بلوچستان میں سب کو دہشت گردوں کو بھتہ دینا پڑتا ہے ،نیکٹا کو فعال کرکے پالیسیاں بنائی جائیں۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ خیبرپختونخوا خون سے لہو لہو ہے، ہمیں اس معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ سینیٹر محمد اکرم نے کہا کہ مضبوط معیشت نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔

سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ ملک کے مسائل کا حل مضبوط جمہوریت اور با اختیار پارلیمنٹ ہے۔ سینیٹر عابدہ عظیم نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں، تقریروں سے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے، اس کے لئے عملی کام کی ضرورت ہے۔ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ پشاور واقعہ کی مذمت کرتا ہوں، شہدا کی مغفرت اور لواحقین کے سبر کے لئے دعا کرتا ہوں، پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ان میں موجود خامیوں کو دور کیا جا سکے۔

سینیٹر کیشو بائی نے کہا کہ مذہب کا نام لے کر خون بہایا جاتا ہے، دہشت گردی کرنے والوں کا کسی مذہب سے تعلق نہیں، پشاور واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ پشاور واقعہ سے دل لرز گیا، اسلام امن کا مذہب ہے۔ سینیٹر خالدہ سکندر میندھرو نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، دہشت گردی کی بنیادی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے۔

سینیٹر فلک ناز نے کہا کہ پشاور حملہ انتہائی حساس علاقے میں ہوا جس نے موجودہ سیکورٹی انتظامات پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے، اس سانحہ پر روایتی نہیں غیر روایتی اقدامات کی ضرورت ہے، دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ پشاور واقعہ دل دہلا دینے والا تھا، پشاور واقعہ میں شہید ہونے والوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے۔

بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے قانون و انصاف سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ اے پی ایس واقعہ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے، قوم نے اس مشکل وقت میں بھی ہمت نہیں ہاری اور دہشت گردی کے خلاف تمام اداروں نے مل کر مقابلہ کیا، ہماری افواج نے کامیاب آپریشن ضرب عضب، راہ حق اول اور راہ حق دوم جیسے سنگ میل عبور کئے اور دہشت گردی کی کمر توڑ دی مگر افسوس کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان کے مقید دہشت گردوں کو رہا کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری افواج میں بھرپور صلاحیت ہے کہ وہ ان سے نبرد آزما ہو سکے، مگر اس کے لئے قومی اتحاد و یگانگت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کل پشاور دھماکے کے بعد پشاور کا دورہ کیا اور زخمیوں سے ملاقات کی اور ان کو حوصلہ دیا جبکہ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ اس سانحہ پر اپنی اپنی رپورٹس وزیراعظم کو پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سینیٹرز سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو امن کے لئے اکٹھا ہونا پڑے گا اور گزارش کرتا ہوں کہ انتخابات کی رٹ لگانا چھوڑ دیں، قومی سلامتی کے لئے متحد ہوں۔بعد ازاں سینٹ کااجلاس جمعہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات