Live Updates

وزیراعلی نے بجٹ اجلاس کے دوروان اپوزیشن کی ہلڑبازی کو غیرمنظم اور غیر مہذب قرار دیا

پیر 23 جون 2025 23:35

وزیراعلی نے بجٹ اجلاس کے دوروان اپوزیشن کی ہلڑبازی کو غیرمنظم اور غیر ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جون2025ء)وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر سنگین ظلم اور ایران پر حملے کی مذمت کرتا ہوں، عالمی طاقتوں کا دہرا معیار ہے، امریکہ بھی اس جنگ میں کود پڑا ہے حالانکہ وہ غیر جانبداری کا دعوی کرتا ہے، بھارت یا تو سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جائو، آئین اپوزیشن کو بجٹ پر احتجاج کا حق دیتا ہے، احتجاج کی واضح حدیں طے کی گئی ہیں، ایوان کا ماحول خراب نہیں ہونا چاہیے ، اگرچہ پیپلز پارٹی کو بجٹ منظور کرانے کے لیے مکمل اکثریت حاصل ہے، ہم چاہتے تو تمام قواعد کو روند سکتے تھے، لیکن ہمارا طریقہ یہ نہیں۔

ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، وفاقی حکومت نے کراچی میں گرین لائن منصوبے کے لیے ایک وفاقی ادارہ قائم کیا تھا اس انتظام پر تشویش ہے، وفاقی بجٹ دستاویزات میں تمام صوبوں کے لیے اسکیمیں شامل کی گئی ہیں، سوائے سندھ کے ، صرف لیاری اور ملیر کے لئے ہی نہیں بلکہ کراچی کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، بھارت یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاکستان تباہ حال ہے ، ارکان اسمبلی دشمن کے بیانیے کو آگے نہ بڑھائیں، ہم سب کو بیرونی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہوگا، بلاول بھٹو زرداری ایک سچا قومی رہنما ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مؤثر نمائندگی کی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو سندھ اسمبلی میں بجٹ 26-2025 پر بحث سمیٹتے ہوئے ایک جامع خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے خطاب میں بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع کے دوران پاکستان کے متحدہ قومی ردِعمل کو سراہا اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اہم سفارتی اور سیاسی کردار کو اجاگر کیا۔انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز سروس چیفس، مسلح افواج، صدرِ پاکستان، وزیر اعظم، صوبائی حکومتوں، میڈیا اور سیاسی کارکنوں کو ان کی اجتماعی اور مربوط کوششوں پر مبارکباد دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری قومی یکجہتی ہمیں کامیابی کی طرف لے گئی۔وزیر اعلی نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ’’ایک سچا قومی رہنما‘‘قرار دیا جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مؤثر نمائندگی کی۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے سے لے کر 10 مئی تک بلاول پاکستان کا چہرہ بنے رہے۔ وفاقی حکومت نے انہیں ایک اہم سفارتی کردار سونپا جسے انہوں نے شاندار طریقے سے نبھایا، خاص طور پر عالمی میڈیا سے رابطے کیے اور امریکہ و یورپ کے دورے کیے۔

اپنی حکومت پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ آغاز ہی سے چیف سیکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جو قومی وار بک کے مطابق کام کر رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ گھوٹکی، سکھر اور بولھاری میں حملوں کے بعد سندھ حکومت نے بروقت انتظامی اقدامات کیے۔عالمی امور کی طرف بڑھتے ہوئے وزیر اعلی نے فلسطین میں اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل نامی دہشت گرد ریاست نے فلسطینیوں پر سنگین ظلم کیا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے، میں اس کی پوری اسمبلی کی جانب سے مذمت کرتا ہوں۔ وزیر اعلی نے عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ امریکہ بھی اس جنگ میں کود پڑا ہے حالانکہ وہ غیر جانبداری کا دعوی کرتا ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان نے بروقت اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی امریکی اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔

وزیر اعلی نے بھارت کی آبی جارحیت پر بلاول کے دوٹوک مؤقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھارت کو واضح طور پر کہا ہے کہ یا تو سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جا۔وزیر اعلی سندھ نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی قوم کا دفاع کرنا جانتی تھیں۔ وہ اتنی بہادر وزیر اعظم تھیں کہ چند ہی مہینوں میں ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کی حالیہ سفارتی پختگی کو محترمہ بینظیر کی جرات مندانہ قیادت سے تشبیہ دی۔وزیر اعلی نے سندھ اسمبلی میں بجٹ کارروائی کا دفاع کیا اور اپوزیشن کے احتجاجی رویے کو انتہائی غیر منظم اور غیر مہذب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین اپوزیشن کو بجٹ پر احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن یہ آزادی اظہار، نقل و حرکت اور اجتماع کی حدود کے اندر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں احتجاج کی واضح حدیں طے کی گئی ہیں۔ قواعد کے مطابق ایوان کا ماحول خراب نہیں ہونا چاہیے اور اسپیکر کی ہدایات کا احترام لازم ہے۔ افسوس کہ میری تقریر کے دوران ان قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی کو بجٹ منظور کرانے کے لیے مکمل اکثریت حاصل ہے، انہوں نے شمولیتی طرزِ عمل کو اپنایا۔

ہم چاہتے تو تمام قواعد کو روند سکتے تھے، لیکن ہمارا طریقہ یہ نہیں۔ ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ بحث میں بھرپور شرکت ہوئی۔ میں بجٹ پر تقریر کرنے والا 135واں رکن ہوں۔ اس نوعیت کی بحث پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ گزشتہ سال 132 اراکین نے اظہارِ خیال کیا تھا اور اس سال اب تک 42 گھنٹے سے زائد کی بحث ہو چکی ہے۔اپوزیشن کی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہ سندھ میں جمہوریت موجود نہیں، وزیر اعلی نے کہا کہ حقائق یہ ہیں کہ سندھ اسمبلی میں 100 فیصد اپوزیشن اراکین نے بجٹ پر تقریریں کیں۔

خیبر پختونخوا میں صرف 145 میں سے 53 اراکین نے بات کی اور وہاں بحث ختم ہو چکی ہے۔مراد علی شاہ نے مزید بتایا کہ قومی اسمبلی میں 336 میں سے 204، یعنی 60 فیصد اراکین نے اظہارِ خیال کیا۔ پنجاب اسمبلی میں 371 میں سے صرف 46 نے تقریر کی، جو کہ صرف 12.5 فیصد بنتے ہیں۔ اگر یہ تعداد چار گنا بھی بڑھ جائے تو بھی 50 فیصد نہیں ہو پائے گی۔ بلوچستان میں 53 میں سے 12 اراکین نے تقریر کی ہے اور وہاں تین سے چار دن کی بحث باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام حقائق کے باوجود کہا جاتا ہے کہ سندھ میں جمہوریت نہیں۔ 1947 میں ہم نے یہاں سب کو خوش آمدید کہا تھا، آج بھی کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی جانا چاہے تو آئین اسے اجازت دیتا ہے۔ لیکن میں کسی سے یہ نہیں کہوں گا کہ جا۔ میرے نزدیک سندھ پاکستان کا سب سے بہترین صوبہ ہے۔ترقیاتی بجٹ مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ کل بجٹ کا تقریبا 30 فیصد ہے جو پنجاب کے 23 فیصد اور خیبر پختونخوا کے 25.3 فیصد سے زیادہ ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ سندھ سے زیادہ ہے لیکن یہ بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ ہے۔وزیر اعلی سندھ نے نشاندہی کی کہ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے لیے ابتدائی طور پر 1.9 کھرب روپے فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن بعد ازاں اسے کم کر کے 1.796 کھرب روپے کر دیا گیا جس سے 100 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے اب تک کی کمزور ریونیو وصولیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کم از کم 237 ارب روپے فوری جاری کیے جائیں۔

مراد علی شاہ نے بتایا کہ اگرچہ وفاق نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ٹیکس جمع کیا ہے، سندھ کی ریونیو گروتھ اس سے بھی بہتر رہی جس میں 16 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے آئندہ بجٹ کے لیے ریونیو اہداف پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کراچی سے لے کر دادو جیسے دیہی علاقوں تک پورے صوبے میں مساوی ٹیکس نظام ہونا چاہیے۔وزیراعلی سندھ نے زرعی آمدنی ٹیکس پر بھی بات کی اور کہا کہ ناقص ٹیکس پالیسیوں کی وجہ سے رواں سال گندم درآمد کرنا پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے مالی سال کے لیے زرعی ٹیکس کا ہدف 8 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جس کا مطلب فی ایکڑ 1052 روپے ٹیکس ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب کا ہدف فی ایکڑ 372 روپے جبکہ خیبر پختونخوا کا صرف 57 روپے ہے۔ وزیر اعلی کے ان اعداد و شمار سے مالی چیلنجز اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔مراد علی شاہ نے آئندہ سال کے لیے سندھ میں مختلف شعبوں میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے کئی اہم اقدامات کا اعلان کیا۔

ان میں ایک بڑا ہدف 100 فیصد بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن کو یقینی بنانا ہے تاکہ ہر شہری کی زندگی کے آغاز سے ہی شناخت ممکن بنائی جا سکے۔ وزیر اعلی نے بتایا کہ زرعی ترقی کے لیے اقدامات پہلے ہی وزیر زراعت پیش کر چکے ہیں، جو اس شعبے کی بہتری کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں مالی وسائل کی مثر تقسیم کے لیے "کاسٹ سینٹرز" قائم کیے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ معذور افراد کی فلاح و بہبود کے ادارے کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، جو حکومت کی شمولیتی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے اعلان کیا کہ حکومت آٹزم مراکز اور متعلقہ محکموں کو وسعت دے رہی ہے تاکہ متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی بہتر دیکھ بھال کی جا سکے۔ ساتھ ہی، تمام اضلاع میں یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں جن میں سے 19 پہلے ہی فعال ہو چکے ہیں۔

ان مراکز کا مقصد نوجوانوں کو ضروری سہولیات اور معاونت فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ دنیا کا سب سے بڑا ایمرجنسی نیٹ ورک رکھتا ہے، جبکہ لاڑکانہ میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی تعمیر جاری ہے جو حکومت کی صحت کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ کو ظاہر کرتا ہے۔وزیر اعلی نے نئی ایمبولینسز کی خریداری اور صوبے میں ماہی گیروں کی فلاح کے لیے خصوصی پروگرامز کا بھی اعلان کیا۔

یونیورسٹیوں کے لیے مالی معاونت میں اضافہ کیا گیا ہے اور سندھ میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ منصوبوں کے لیے فنڈز میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ تنخواہوں میں 10 سے 12 فیصد اور پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پیشہ ورانہ اور تفریحی ٹیکس ختم کر دیے گئے ہیں جبکہ بڑی گاڑیوں سمیت مختلف گاڑیوں پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی گئی ہے۔

وزیراعلی نے بتایا کہ صوبے کا سالانہ ترقیاتی پروگرام آئندہ مالی سال کے لیے پانچ سو بیس ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ضلعی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کے لیے پچپن ارب روپے، غیر ملکی تعاون سے چلنے والے منصوبوں کے لیے تین سو چھیاسٹھ ارب بہتر کروڑ روپے اور وفاقی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے چھہتر ارب اٹھائیس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

یہ سب اقدامات حکومت سندھ کے ترقیاتی عزم کی غمازی کرتے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ اسمبلی میں اراکین کی تقریروں کا نوے فیصد حصہ خود سنتے ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ ان کے پاس صرف گیارہ محکمے ہیں، اور وضاحت کی کہ وہ پینتالیس محکموں کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے وزیر اعلی صرف چودہ جبکہ بلوچستان کے وزیر اعلی بیس محکمے سنبھالتے ہیں۔

وزیر اعلی نے سندھ کی علاقائی شناخت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے پہلے نقشے میں مکران اور راجستھان جیسے علاقے شامل تھے۔ کلہوڑا دور میں دارالحکومت خداداد میں تھا جسے بعد میں حیدرآباد منتقل کر دیا گیا۔ تالپور خاندان نے سندھ کو تین حصوں میں تقسیم ضرور کیا مگر دفاع اور سفارت کاری کے معاملات میں اتحاد برقرار رکھا۔انہوں نے برطانوی قبضے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل چارلس نیپیئر سندھ کو متحد رکھنے کا حامی تھا لیکن بعد ازاں نئے وائسرائے نے اسے بمبئی میں ضم کر کے ایک بڑی تاریخی غلطی کی۔

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں گرین لائن منصوبے کے لیے ایک وفاقی ادارہ قائم کیا تھا جسے تحریکِ انصاف کی جماعت کی حمایت بھی حاصل تھی۔ انہوں نے اس انتظام پر تشویش کا اظہار کیا اور یاد دلایا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ اس طرح کی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ حالیہ بجٹ دستاویزات میں تمام صوبوں کے لیے اسکیمیں شامل کی گئی ہیں، سوائے سندھ کے، جہاں صرف چند منصوبے پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ کے تحت رکھے گئے ہیں۔

وزیر اعلی نے اپوزیشن لیڈر سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ناانصافی کے ازالے کے لیے مدد فراہم کریں۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ اب وفاقی حکومت نے سندھ کے لیے تین بڑے ترقیاتی منصوبے مختص کیے ہیں جو سیاسی رویے میں تبدیلی اور باہمی تعاون کے نئے امکانات کی عکاسی کرتے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان بھی اسمبلی میں اپنے تحفظات کے اظہار کے لیے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ارکان بھی یہ مانتے ہیں کہ سندھ حکومت کے ساتھ تعاون کیے بغیر مثر حکمرانی ممکن نہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ آئینی طور پر وفاقی کمپنی کسی بھی صوبے میں اس وقت تک کام نہیں کر سکتی جب تک صوبائی حکومت اجازت نہ دے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر انتخابی حلقے کے لیے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور اراکین اسمبلی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی تجاویز اسی رقم کے اندر دیں۔

کئی ترقیاتی اسکیمیں پہلے ہی نافذ کی جا چکی ہیں لیکن اراکین پھر بھی کہتے ہیں کہ کراچی کو بجٹ میں نظرانداز کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ اراکین نے یہاں کہا کہ نشاندہی کی کہ مجموعی 1400 ارب روپے کے بجٹ میں سے صرف 60 ارب روپے، یعنی 4.6 فیصد، کراچی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شہر کے لیے مجموعی طور پر 254 ارب روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں۔

یہ رقم مزید بڑھے گی۔ کم نہیں ہوگی جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے شاہراہ بھٹو اور ایم 9 سے منسلک سڑک جیسے اہم منصوبے بجٹ کے علاوہ ہیں۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے میڈیا میں پھیلائے گئے اس تاثر کو مسترد کیا کہ کراچی کے لیے کوئی بڑا منصوبہ بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ صرف لیاری اور ملیر کے لیے اسکیمیں رکھی گئی ہیں اور کہا کہ تمام منصوبہ جات عوامی جانچ کے لیے دستیاب ہیں۔انہوں نے کراچی کو مالی خودمختاری کے حوالے سے درپیش مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دیگر بڑے شہروں کو ان کے محصولات کا بڑا حصہ واپس ملتا ہے جبکہ قانونی رکاوٹیں کراچی کو درکار فنڈز حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔

وزیر اعلی نے ایک بڑی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 20 لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ جاری ہے، جن میں سے 12 لاکھ زیر تعمیر اور 6 لاکھ مکمل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان گھروں کی ملکیت خواتین کو دی گئی ہے، تاکہ رہائش کے ساتھ ساتھ خواتین کو بااختیار بھی بنایا جا سکے۔انہوں نے کراچی سمیت دیگر شہروں میں آٹزم مراکز کے قیام پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ تین مراکز تکمیل کے قریب ہیں۔

انہوں نے کے فور منصوبے کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی لاگت 25 ارب روپے سے بڑھ کر 175 ارب روپے ہو چکی ہے جس کی بڑی وجہ وفاقی تحقیقات اور تاخیر ہے۔کم از کم اجرت کے حوالے سے وزیر اعلی نے کہا کہ سندھ میں موجودہ حد 37 ہزار روپے ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا نے 40 ہزار روپے تک بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے مزدوروں کی بہتر زندگی کے لیے 42 ہزار روپے ماہانہ اجرت کا مطالبہ کیا۔

اسمبلی نے عدالتی عملے کے لیے 8 ارب روپے کا خصوصی الانس مختص کیا ہے جبکہ ان کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق فیصلہ اسمبلی کرے گی۔ وزیر اعلی نے بتایا کہ ایک جج کی تنخواہ ٹیکس کٹوتیوں کے بعد بھی 22 لاکھ روپے سے زائد ہے جبکہ اسپیکر اسمبلی کی تنخواہ اس کا صرف دس فیصد بنتی ہے۔مراد علی شاہ نے اسمبلی میں کارروائی سے متعلق بعض امور کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ بجٹ اجلاس کے دوران دوسرا کام نہیں ہوسکتا اس لیے ایران پر اسرائیلی حملے کے خلاف قرارداد فوری طور پر دوسرا اجلاس بلا کر منظور کی گئی تاہم ان کا کہنا تھا کہ بجٹ اجلاس ختم ہو چکا تھا مگر ہنگامہ آرائی جاری رہی۔

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اسمبلی کے ضوابط کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کو وسیع اختیارات حاصل ہیں تاہم انہیں استعمال کرنے کے لیے عدالتی معاونت جیسی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسپیکر کے پاس ارکان اسمبلی کو ایوان سے باہر نکالنے کا اختیار ہے مگر یہ اقدام معمولی بات نہیں اور احتیاط سے لیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسپیکر کے اختیارات سے خوفزدہ نہیں لیکن ان کا احترام ضروری ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ماضی کا حوالہ بھی دیا جب انہیں خود اسمبلی سے باہر جانے کو کہا گیا تھا۔وزیر اعلی نے سندھ پر قرضوں سے متعلق تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کا مالی نظم و نسق مثر ہیجس کی وجہ سے بین الاقوامی ادارے یہاں قرض دینے کو تیار ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں شامل 12 ارب روپے کی رقم 2022 کے سیلاب سے بحالی کے لیے مختص ہے نہ کہ کسی نئے آفت کے لیے۔انہوں نے کہا کہ بھارت یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاکستان تباہ حال ہے اور اسمبلی کے ارکان کو متنبہ کیا کہ وہ دشمن کے بیانیے کو آگے نہ بڑھائیں۔ انہوں نے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو بیرونی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ سندھ اس سال 1,460 ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے جا رہا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔

انہوں نے اراکین اسمبلی سے کہا کہ وہ چھوٹے منصوبوں کی بجائے بڑے منصوبے تجویز کریں تاکہ ان کا اثر دیرپا ہو۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بعض منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے مگر انہیں مکمل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ وزیر اعلی نے بجٹ اجلاس کے دوران پیش آنے والے واقعات کو پیچھے چھوڑنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آئیے ہم بجٹ کے دن جو ہوا اسے بھول جائیں اور مستقبل پر توجہ مرکوز کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگر تمام جماعتیں صوبے کے مفاد میں اکٹھی کام کر سکتی ہیں تو انہیں ضرور کرنا چاہیے۔ کچھ عناصر ہمیں آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مجھے اپنی جماعت سے رہنمائی ملتی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ خالد مقبول صدیقی اسی انداز میں ہدایات لیتے ہیں۔وزیر اعلی نے کہا کہ صوبے کی ترقی کے لیے سب کا اتحاد ضروری ہے اور تمام اراکین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے صبر سے ان کی بات سنی۔انہوں نے اسپیکر اور ان کی ٹیم کی بھی تعریف کی کہ انہوں نے اسمبلی کی کارروائی کو مؤثر انداز میں چلایا۔اسمبلی کا اجلاس کل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات