پاکستان بار کونسل نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے مسترد کردیا،تحفظ پاکستان آرڈیننس کالا قانون ہے اس کو فوری ختم ہونا چاہیے ، محمد رمضان چوہدری ،پرویز مشرف کا فیئر ٹرائل ہونا چاہیے ، اعلیٰ عدلیہ کے غلط فیصلوں پر نظر ثانی کی جانی چاہیے ، غیر ضروری وکلاء ہڑتالوں کی روایت کا خاتمہ کردیا ہے ، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر میں پاکستان بار کونسل کو ججز کے برابر کردار دینے کے لیے قانون میں مناسب ترمیم کی جائے ۔ وکلاء کیخلاف انضباطی کمیٹی ، فری لیگل ایڈ کمیٹیوں کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسلام آباد بار کونسل کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے ۔ ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ میں بدعنوانی عروج پر ہے اس کے خاتمے کیلئے ملکی ، صوبائی ، ضلعی اور تحصیل سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کی جائیں گی، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کی ہنگامی اجلاس کے اختتام پر صوبائی بار کونسلوں کے وائس چیئرمینوں کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ

جمعرات 13 فروری 2014 03:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اگست۔2014) پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری نے صوبائی بار کونسلوں کے وائس چیئرمینوں کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ میں کہا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کالا قانون ہے اس کو فوری ختم ہونا چاہیے ، پرویز مشرف کا فیئر ٹرائل ہونا چاہیے ، اعلیٰ عدلیہ کے غلط فیصلوں پر نظر ثانی کی جانی چاہیے ، غیر ضروری وکلاء ہڑتالوں کی روایت کا خاتمہ کردیا ہے ، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر میں پاکستان بار کونسل کو ججز کے برابر کردار دینے کے لیے قانون میں مناسب ترمیم کی جائے ۔

وکلاء کیخلاف انضباطی کمیٹی ، فری لیگل ایڈ کمیٹیوں کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسلام آباد بار کونسل کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے ۔ ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ میں بدعنوانی عروج پر ہے اس کے خاتمے کیلئے ملکی ، صوبائی ، ضلعی اور تحصیل سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کی جائیں گی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کے روز ایک ہنگامی اجلاس کے اختتام پر کیا ہے اجلا س میں تین صوبوں پنجاب ، سندھ اور کے پی کے بار کونسل کے وائس چیئرمین بالترتیب احمد ، محمد عاقل اور اختر علی خان نے شرکت کی ۔

بلوچستان بار کونسل کے نمائندے جہاز میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے پیش نہ ہوسکے ۔ اجلاس کے اختتام پر خصوصی فیصلے کئے اس حوالے سے میڈیا کو تفصیلات بتلاتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل محمد رمضان چوہدری نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرریوں میں اپنا مثبت کردار چاہتے ہیں منفی کردار رہا ہے ۔ چیف جسٹس نام کا چناؤ کرتے تھے اور ہم صرف تنقید کرسکتے تھے یہ منفی رول تھا ہمیں اعتماد میں لیا جانا چاہیے اس میں شفافیت چاہتے ہیں بار کونسلوں کے ممبران سے بھی مشاورت کی جائے ہمارے ممبر کو ابتدائی سطح سے تحقیقات میں شامل کیا جائے ۔

ہم بھی ججز کے لیے نام دینا چاہتے ہیں مناسب آئینی ترامیم کی جارہی ہیں ہمارے ممبران کی تعداد کم ہے ہمارے ممبران کی تعداد ججز کی تعداد کے برابر ہونی چاہیے ۔ پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات کم ہوگئے ہیں اس حوالے سے پارلیمنٹ خود دیکھے اس حوالے سے وہ خود آئینی ترمیم کرے اس حوالے سے حکومت بھی ہم سے اعتماد میں لیا جائے اگر اعتماد میں نہ لیا گیا تو راست اقدام کرینگے ۔

وکلاء کی آئے روز کی ہڑتالوں کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا ہے ہڑتال کی کال کا اختیار پاکستان بار کونسل کو ہوتا ہے جس نے ایسا کرنا ہے صوبائی بار کونسل اپنے صوبے کے حوالے سے فیصلہ کرے گی مقامی سطح پر ہڑتال کی جاتی ہے تو اس کی متعلقہ بار کونسل ہی اجازت دے گی ضروری نہیں کہ بروقت ہڑتال ہو قومی سانحہ اور حادثات کی صورت میں ہڑتال کی جائے گی بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بھی احتجاج کیا جاسکے گا ۔

سندھ ہائی کورٹ ، لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس حوالے سے درخواستوں کی سماعت کررہے ہیں عدالتیں ان معاملات کی سماعت نہ کرے یہ بار کونسلوں کا اختیار ہے ہم خود لوگوں کو تعلیم دینگے ۔ بے جا ہڑتالیں نہیں ہوگی فری لیگل ایڈ کمیٹیوں کو ماتحت سے اعلیٰ عدلیہ تک فعال کررہے ہیں ہر جگہ فری لیگل ایڈ یا کسز رکھے جائیں گے تاکہ ممبر بار کونسل کے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے بین الاقوامی ادارے جو فنڈنگ کرتی ہے بار کونسلوں کو کرے ۔

انفرادی طور پر کسی کو مدد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دینگے ۔ ہر بڑے شہر میں وکلاء کے لیی ہسپتالوں ، ہاؤسنگ کالونیوں کی ضرورت ہے ۔ وکلاء چیمبرز نہیں ہیں اس کے لئے بھی کوششیں کی جائینگی حکومت سے مناسب فنڈز مانگیں گے آنے والے بجٹ میں وکلاء تنظیموں اور بار کونسلوں کے لیے رقم رکھی جائے تاکہ نظام چل سکے حکومتی امداد جو سیاسی بنیادوں پر دیتی ہے ایسا نہ کیا جائے تمام بار کونسلوں کے انتخابات ایک دن میں ہونا چاہیے اس حوالے سے تجاویز بھی مانگی ہیں وکلاء کی خود احتسابی کے عمل کو تیز کرینگے ۔

چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھاؤں گا ۔ جسٹس ثاقب نثار بھی اس میں موجود ہوں گے ۔ وکلاء کیخلاف شکایات کا ازالہ کیا جاسکے بار کونسل کی انضباطی کمیٹی فیصلے اب جلد کرینگے فیصلوں کا باقاعدہ اعلان بھی کیا جائے گا ۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے آزاد شخص کو گرفتار کرنا مناسب نہیں ہے اس حوالے سے اگلے اجلاس میں بات کرینگے ۔ ایسے تمام فیصلے آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے ان پر نظر ثانی ہونی چاہیے اسلام آباد بار کونسل کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوگی یہ مطالبہ درست ہے کہ پرویز مشرف کا ٹرائل آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے منطقی انجام تک ضرور پہنچنا چاہیے مشرف کو فیر ٹرائل کا حق ملنا چاہیے ۔