پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی بستی گدون آمازئی میں 120کارخانے بند ، چار سو سے زائد صنعتوں پر مشتمل اس صنعتی بستی میں صرف ایک سو کارخانے چل رہے ہیں، ڈی سی صوابی کیپٹن (ر) کامران خان آفریدی کے زیر نگرانی سروے ٹیم کا انکشاف

اتوار 25 مئی 2014 08:13

صوابی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25مئی۔2014ء)پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی بستی گدون آمازئی میں 120کارخانے بند پڑ ئے ہیں جب کہ اس وقت چار سو سے زائد صنعتوں پر مشتمل اس صنعتی بستی میں صرف ایک سو کارخانے چل رہے ہیں اس کا انکشاف صوبائی حکومت کی ہدایت پر ڈی سی صوابی کیپٹن (ر) کامران خان آفریدی کے زیر نگرانی سروے ٹیم نے کیا۔ سروے ٹیم کی جامع اور تفصیلی رپورٹ ہفتہ کے روز صوبائی حکومت کو ارسال کر دی گئی ہے سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرحد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے گدون آمازئی انڈسٹریل اسٹیٹ میں تیس کارخانے زیر تعمیر ہیں ، 35کارخانوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے سٹون سمیت کے پانچ کارخانے غیر قانونی ہے۔

اسی طرح دس بند کا رخانوں میں غیر قانونی رہائشیں قائم کی گئی ہیں ۔

(جاری ہے)

دس کارخانے رجسٹریشن کے بغیر پروڈکشن کر رہے ہیں اور دس کارخانوں کے مالکان نے غیر قانونی طور پر دوسرے مالکان پر فروخت کر دیے ہیں یاد رہے کہ ضلع صوابی کی دور آفتادہ پہاڑی علاقہ گدون آمازئی میں وافر مقدار میں ماضی میں افیون کاشت ہو رہی تھی یہ ایک نقد آور فصل تھی اور زمیندار اس سے سال بھر کے تمام گھریلو اخراجات پورا کرتے تھے ۔

تاہم عالمی سطح پر افیون کی کاشت پر پابندی لگنے سے یہاں حکومت پاکستان نے اس فصل کو ہمیشہ کے لئے ختم کر نے کے لئے اقدامات کئے جب کہ 1984میں افیون کی کاشت پر پابندی لگنے کے خلاف گدون آمازئی کے عوام نے کئی روز تک احتجاجی مظاہرے کئے جس میں ایک دو افراد جاں بحق اور کئی زخمی بھی ہوئے تھے 1986میں ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے گدون آمازئی کے عوام کو باعزت روز گار فراہم کر نے کیلئے چار سو سے زائد کارخانوں پر مشتمل گدون آمازئی اندسٹریل اسٹیٹ کے قیام کا با قاعدہ اعلان کیا جس پر موضع گندف اور موضع مینئی کے وسط میں گدون صنعتی بستی میں ملک کے دور دراز پنجاب، سندھ اور کے پی کے کے صنعتکاروں نے کارخانے قائم کر نے کے لئے یہاں کا رخ کیا سال 1988میں بے نظیر بھٹو شہید کی دور حکومت میں اس وقت کے صوبائی وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے مرکز کی طر ف سے گدون صنعتی بستی میں چار سو سے زائد کارخانے زور و شور سے چلنے اور اس میں گدون آمازئی سمیت پورے ضلع صوابی کے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار فراہم کر نے کے لئے صنعتکاروں کو بجلی کے مد میں 25%،لون میں تیس فیصد چھوٹ دینے کے علاوہ پانچ سال تک ٹیکس میں مکمل طور چھوٹ دی گئی جس پر سینکڑوں کارخانے قائم ہونا شروع ہو گئے۔

اور یوں گدون اسٹیٹ پاکستان کے ایک بڑی صنعتی بستی کی شکل اختیار کر گئی تاہم 1990کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی مرکزاور صوبہ کے پی کے میں اے این پی کے ساتھ مخلوط حکومت اقتدار میں آگئی تو وفاق نے سال 1992میں ان تمام مراعات کو واپس لے لیا جس پر آہستہ آہستہ کارخانے خسارے میں جانے سے بند ہو نا شروع ہو گئے گدون اسٹیٹ چونکہ ساحل سمندر اور کراچی بندر گاہ سے تقریباً 1531کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

کراچی اور لاہور سے گدون آمازئی صنعتی بستی کو خام مال لانے پر صنعتکاروں کے کافی اخراجات آرہے تھے لیکن بجلی ، ٹیکس اور قرضوں میں چھوٹ دینے کی وجہ سے یہ اخراجات کم تھے اسی وجہ سے صنعتکاروں کے قیام کو ترجیح دی تاہم حکومتی مراعات واپس لینے سے اخراجات بڑھنے اور خسارے میں کارخانے جانے سے صنعتکاروں نے اکثر کارخانے بند یا فروخت کر دیئے۔ جب کہ بعض نے مشینری دیگر صوبوں کو منتقل کر دیا اب موجودہ وقت میں گدون اسٹیٹ میں ٹیکسٹائل ، سٹیلز، پلاسٹک اور پیپرز سمیت مختلف 100کارخانے چل رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت چار سو سے زائد کارخانوں کو چالو کر وانے کے لئے بجلی ، لون اور ٹیکسز کے مد میں چھوٹ دینے کا اعلان کریں تاکہ یہاں بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے

متعلقہ عنوان :