عرب ممالک کا متذبذب رویہ مسائل کی حل میں رکاوٹ

ٹرمپ کے تسلی آمیز بیانات سے خطے میں قیام امن کی کوششیں زائل ہونے لگیں

ہفتہ 21 ستمبر 2019

Arab Mumalik K Mutzabzab Rawaya Masail K Hall Main Rukawat
 ر اؤ محمد شاہد اقبال
ایک مدت تک ہم سمجھتے تھے کہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہے اور جو ممالک بھی کشمیر کے مسئلہ پر ہمارا ساتھ نہیں دیں گے وہ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن5اگست کے بعد ہمیں بڑی شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ گزشتہ 70برس میں کشمیر کبھی بھی ہماری خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد نہیں رہا ۔اگر کشمیر کبھی ہماری خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد رہا ہوتا تو آج عمران خان کی نو زائیدہ حکومت کے زیر ک اور گھاگ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو یہ بیان نہیں دینا پڑتا کہ”دنیا بھر کے ممالک مسئلہ کشمیر کو سمجھتے ہیں لیکن کشمیریوں کے لئے آواز نہیں اٹھا رہے“۔

شاہ محمود قریشی کے اس چھوٹے سے فقرہ سے ہماری خارجہ پالیسی کی تمام تر بے کسی وبے بسی کا کھل کر اظہار ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

گوکہ ہماری ملکی خارجہ پالیسی کی تمام تر زبوں حالی کا ذمہ دار فقط عمران خان کی ایک سالہ حکومت کو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جو افراد بھی ماضی میں اس تمام تر صورت حال کے ذمہ دار رہے ہیں ان میں سے کئی ایک مرکزی کردار اس وقت عمران خان کی حکومت میں اہم ترین مناسب پر فائز ہیں ۔


تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی سادہ لوح عوام ان ہی زیرک وعالی دماغوں سے امید لگائے ہوئے بیٹھی ہے کہ وہ ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی میں کوئی انقلابی تبدیلی کریں گے حالانکہ ان پالیسی سازوں کے ہوتے ہوئے کوئی خیر کی توقع رکھنا ایک کار عبث کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ کشمیر کو بھارت پر دست درازی کئے ہوئے ایک ماہ،دس دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ہمارے حکومتی پالیسی ساز عمران خان کی معیت میں اب تک بھارت کیلئے اپنی فضائی حدود اور تجارت کو بند کرنے کا ایک بھی بڑ ا فیصلہ نہیں کر سکے ہماری حکومت کی اسی کمزور قوت فیصلہ کی وجہ سے چین کے علاوہ کوئی بھی ملک مسئلہ کشمیر پر ہمارا ہم نواد کھائی نہیں دیتا۔

عرب ممالک جن کی دوستی پر ہمیں بہت ناز ہوا کرتا تھا وہ مسئلہ کشمیر پر ہمارے متذبذب روئیے کی وجہ سے ہمارا ساتھ دینے سے کنی کترارہے ہیں اور جہاں تک ہمارے 70برس پرانے دوست امریکہ کی بات تو ہے وہ بھی بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستانی اور کشمیریوں کے سینوں پر ”ثالثی“کے زہر آلود تیر برسا کر چھلنی چھلنی کررہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی چاہے جتنی بار پیشکش کر لیں بہر حال ان کے عزائم اور ارادوں سے کشمیریوں اور پوری پاکستانی قوم پر خوب واضح ہو گیا ہے کہ ٹرمپ کے تسلی آمیز بیانات ہمارے لئے اور تمام تر عملی امداد و معاونت بھارت کے لئے ہے۔


کشمیر کے معاملہ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منافقانہ رویہ چغلی کھا رہا ہے کہ اسے ہم پاکستانیوں اور کشمیریوں کے احساسات کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں بلکہ اگر ٹرمپ کو کوئی فکر دامن گیر ہے توبس یہ کہ کسی طرح نریندرامودی جلد از جلد مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بزدر طاقت کچل کر اپنے سیاسی قدم مضبوط کرلے اس ضمن میں ٹرمپ انتظامیہ مختلف حیلے بہانوں سے پاکستانی حکومت پر مسلسل یہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ 5اگست کے بھارتی اقدام پر مٹی ڈال کر آگے کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے فقط آزاد کشمیر پر ہی قانع ہو جائے اور لائین آف کنٹرول کو مستقل بین الاقوامی سرحد تسلیم کرکے خطہ میں بھارتی بالادستی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبول کرلے یہ امریکہ بہادر کے غیر مرئی دباؤ کا ہی کرشمہ ہے کہ کابینہ اجلاسوں میں کئی حکومتی عمائدین بھارت کے لئے فضائی حدود اور تجارت بند کرنے کے فیصلوں کی پوری شدومدکے ساتھ مخالفت کررہے ہیں ان حکومتی زعما کا موٴقف ہے کہ بھارت کے لئے پاکستانی فضائی حدود اور افغانستان کے لئے بھارت کی تجارتی رسائی بند کرنے سے دنیا بھر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بے لچک ہونے کا تاثر پیدا ہو گا یعنی تحریک انصاف کی حکومت بھی خارجہ پالیسی کو لچکدار بنائے رکھنے کیلئے بھارت مخالف بڑے فیصلے لینے سے اجتناب برت رہی ہے فی الحال ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ماضی میں کون کون پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کشمیرکو سنگ بنیاد بنانے سے انکار ی رہا لیکن ہم یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ عمران خان کی نئی تبدیلی شدہ حکومت میں وہ کون کون سے ”سیاسی دلاور“شامل ہیں جو موجودہ حکومت کے لئے کشمیر کے معاملہ پر بڑے فیصلہ لینے میں بار بار کاوٹ کا باعث بن رہے ہیں آخر کوئی تو ایسا”بھارت نواز“ضرور ہے جو حکومتی صفوں میں بیٹھ کر بھارت کے تجارتی اور معاشی مفادات کو تحفظ فراہم کررہا ہے۔


وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ اُن کی حکومت کے لئے کشمیر کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد بنانا ازحد ضروری ہے اور اس کے لئے عمران خان کو ٹوئٹس اور بیانات کی ”سوشل میڈیا ئی دنیا“سے باہر نکل کر کچھ ایسے عملی اقدامات بھی ضرور کرنے ہوں گے جس سے دنیا بھر میں یہ احساس بیدار ہو سکے کہ کشمیر حقیقی معنوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہے،یہ کتنا بڑا لطیفہ ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سلامتی کو نسل میں دنیا کے 191ممالک کو بھارت کے خلاف عملی اقدامات اُٹھانے کا ایمان افروز درس دے کر آرہے ہیں جبکہ خود پاکستان حکومت کی اپنی یہ حالت ہے کہ اس نے 40دن گزرنے کے باوجود بھی اب تک فقط بھارت مخالف بیانات اور اپیلیں داغنے کے علاوہ مجال ہے جو بھارت کے مخالف ایک بھی عملی قدم اٹھانے کی زحمت گوارہ کی ہو ہماری وزیراعظم پاکستان عمران خان سے التماس ہے کہ کاش وہ دنیا بڑھ میں کشمیر کا سفیر بن کر روانہ ہونے سے پہلے،پاکستان میں بھی کشمیر کا سفیر بن کر بھارت مخالف کم از کم کوئی ایک آدھ بڑا فیصلہ ہی کر گزریں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Arab Mumalik K Mutzabzab Rawaya Masail K Hall Main Rukawat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 September 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.