
دنیا پر اصل حکمران تیرہ صہیونی خاندان ہیں
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے نیا استعماری نظام مسلط! اناج برآمد کرنے والے ملک پاکستان کو اناج کا محتاج ایک امریکی کمپنی نے بنایا
منگل 29 جنوری 2019

اس وقت جب کہ وطن عزیز میں معاشی ،معاشرتی اور سیاسی صورتحال انتہائی غیر یقینی کی صورتحال سے دو چار ہوتی نظر آرہی ہے یہ کہنا مشکل ہے کہ دم توڑتا ہوا یہ سیاسی اور حکومتی نظام انتہائی صورتحال تک پہنچنے کے لئے مزید اور کتنا وقت لے گا۔ستر برسوں سے زائد زمانے پر محیط اس نظام نے اس ملک کے باسیوں کو کیا دیاوہ بھی اب واضح ہو چکا ہے ۔
دنیا نیچے سے اوپر کی جانب گئی ہے جبکہ صرف ساٹھ کی دہائی سے لیکر اب تک روپے اور ڈالر کے درمیان بڑھتے فاصلے کا اندازہ لگا کر ہم جان سکتے ہیں کہ ہم کس قدر تیزی کے ساتھ نیچے کی جانب گرے ہیں ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایک منصوبہ بندی سے پوری دنیا میں ایک ”بڑا معاشی“بحران پیدا کیا جارہا ہے جس کے مقاصد ہم پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں کہ دنیا کے سرد گرم پر قابض دجالی قوتیں اب دنیا کو مذاہب ،زیادہ آبادی کے خاتمے اور دیگر وسائل پر مکمل کنٹرول کے لئے جنگوں اور معاشی نا ہمواری کا کھیل شروع کر چکی ہیں ۔
(جاری ہے)
ا س صورتحال سے بہت سے ایسے ملک نمٹ تو سکتے ہیں جو معاشی طور پر مضبوط ہیں لیکن پاکستان جیسا ملک جہاں پہلے ہی معاشی ،معاشرتی اور سیاسی نا ہمواریاں عروج پر ہیں اس عالمی کشمکش میں کہاں کھڑا ہو گا اس کا کچھ اندازہ نہیں ۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لئے ہم اس حوالے سے ایک مختصر سا جائزہ پیش کریں گے۔
اب اگر دیکھا جائے تو بظاہر ہمیں معلوم ہو گا کہ اس وقت امریکہ ہی واحد عالمی قوت ہے جو ہمہ وقت اپنی عالمی اجارہ داری کے لئے مصروف عمل ہے یا دنیا کے اور دوسرے خطوں میں کچھ اور قوتوں کا سکہ چلتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔لیکن ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا ہو گا کہ آج کی یا آج سے سو برس پہلے تک کی دنیا اس دنیا سے یکسر مختلف ہے جو اب تاریخ کا حصہ ہے ۔
آج اگر لو گوں کو یہ باور کرایا جائے کہ اس وقت دنیا کا حقیقی کنٹرول بظاہر بڑی طاقتیں نظر آنے والے ملکوں یا حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ دنیا میں موجود تیرہ خاندانوں کے ہاتھ میں ہے جن کے اشاروں پر امریکہ اور دیگر قوتیں بھی ناچتی ہیں تو یقین ایک عام آدمی چونک جائے گا جبکہ کچھ ”زیادہ تعلیم یافتہ “افراد اسے Conspiracy Theoryکا نام دے دیں گے لیکن یقین جانئے ایسا فی الواقع ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 99فیصد دولت ان تیرا خاندانوں کے قبضہ قدرت میں ہے جبکہ باقی ایک فیصد دولت پر تمام دنیا ایک دوسرے سے دست وگریباں ہے ۔
یہ تیرہ خاندان ایک خفیہ دجالی نظام کے تحت اپنے معاملات چلاتے ہیں اور آنے والے قریبی وقت میں یہ اس دجالی نظام کو پوری دنیا پر نافذ کرنے کی منصوبہ بندی رکھتے ہیں ۔یہ نہ نظر آنے والی ایک دجالی طاقت ہے جس کے تحت تیرہ خاندانوں کا ایک طاغوتی نظم ہے ۔ان تیرا خاندانوں کی دجالی صہیونی کونسل کے تحت دنیا کے تین سوکے قریب طاقتور ترین فراد ہیں ۔
ان تین سوکے قریب افراد کے نیچے پالیسی میکرادارے ،عالمی ما لیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف وغیرہ ،
ورلڈ بینک اور ٹیکس کی وصولی کے ادارے ہوتے ہیں ۔ان اداروں کے تحت کام کرنے والی بین القوامی کمپنیاں ہوتی ہیں جنہیں عرف عام میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی کہا جاتا ہے ۔ان کمپنیوں کے ذریعے مختلف ملکوں کی فکری اور مذہبی تنظیموں ،عدالتی نظاموں ،میڈیا اور دفاعی اداروں کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔اس دجالی صہیونی انتظامی نیٹ ورک کے نیچے وہ دنیا کے وہ اربوں انسان ہیں جن کو اس بات کا سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ ان پر حقیقت میں حکومت کون کررہا ہے ۔ان کے خیال میں ان کے علاقائی حکمران ہی درحقیقت ان کے سرد گرم کے فیصلے کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا بالکل ادارک نہیں کہ ان کے مقامی حکمرانوں کے سردگرم کے فیصلے بھی کوئی اور ہی کرتا ہے ۔
اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ ایک بڑا منظم دجالی جا ل نظر آتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسے افراد اور کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو ان دجالی اور طاغوتی قوتوں پر پوری نظر رکھ کر کم سے کم باقی دنیا تک ان کے رازفاش کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔یہ زیادہ دیر پہلے کی بات نہیں ہے جب عالم عرب کی حد تک دجالی صہیونی منصوبوں کی خبر سب سے پہلے قاہرہ سے جاری ہوتی تھی حالانکہ مصر جیسے معتدل ملک سے ایسی امید نہیں کی جاسکتی تھی لیکن بہر حال ایسا ہوتا رہا ہے اس سلسلے میں ایک مثال استاد مرحوم ڈاکٹر عبدالوھاب المسیری کی ہے جو قاہرہ کی عین الشمس یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی ادب کے سربراہ تھے ۔
عالم عرب میں آپ ہی کی ایسی شخصیت ہے جس نے سب سے پہلے ”موسوعتہ الصہیونیتہ“یعنی ”انسائیکلوپیڈیا آف زائن “مرتب کیا تھا،آپ کا شمار عالم عرب کے مشہور ترین اسکا لرز میں ہوتا تھا ۔آ پ کا انتقال 2جولائی2008 میں قاہرہ میں ہوا اور اس دن جب یہ خبر دنیا میں پھیلی تو اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب اور نیویارک میں صہیونی حلقوں میں ایک جشن کا سماں تھا۔
کویت سے شائع ہونے والے عربی جریدے ”المجتمع“کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ دجالی بندوبست یا تیرا خاندان عملی طور پر ایک دجالی عالمی ورلڈ آرڈر کا نفاز کرنا چاہتے ہیں جس میں دنیا کی تمام سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا جائے گا تا کہ ان سب کو ملا کر ایک دجالی بین الالقوامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جاسکے جس کا داراحکومت ”یروشلم “ہو گا ۔اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کیوں مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کرکے وہاں امریکی سفار تخانے کا افتتاح کیا تھا۔منصوبے کے مطابق دنیا کے بہت سے ملکوں کے حالات کو متوازن بنایا جائے گا جبکہ امریکی قوت میں بتدریج کمی کی جائے گی کیونکہ امریکہ کو سیڑھیوں سے نیچے اتار کر ہی دیگر قوتوں کو اس کے ساتھ ملا یا جائے گا۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس دجالی منصوبے کے تحت دنیاکی کل آبادی کو کم کرکے اسے ایک ارب تک لانا مقصود ہے تاکہ انسانوں پرکنٹرول آسان رہے۔اس مقصد کی بار آوری کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جائے گا جس میں خاص قسم کی بیماریاں پیدا کرنا،مختلف قسم کے وائرس پھیلانا اور مخصوص جنیاتی قسم کی تیار کردی غذائیوں کو عام کرنا ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو ”فاسٹ فوڈ“کے نام پر نا کار ہ بنایا جارہا ہے ۔اس میں مہلک ہتھیار اور جنگوں کا سہارا لینا بھی شامل ہے ۔
اس حوالے سے یہ حیران کن خبر بھی ہے کہ ان تیرہ خاندانوں کے پاس کینسر اور ایڈز جیسی بیماریوں کا علاج بھی موجود ہے کیونکہ دنیا میں ان بیماریوں کو پیدا کرنے کی وجہ بھی یہی خاندان تھے مگر انہوں نے جان بوجھ کر اسے دنیا سے مخفی رکھا ہوا ہے تا کہ انسانوں میں یہ بیماریاں تیزی کے ساتھ ان کی تعداد میں کمی کا سبب بن سکیں ۔یہ سارا سلسلہ اس نئے دجالی نو آباد یاتی نظام کا حصہ ہے ۔
اس قسم کی رپورٹوں میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ان تیرہ خاندانوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ دنیا کا امیر ترین شخص بل گیٹس بھی ان کے سامنے ایک معمولی بھکاری سے زیادہ نہیں ہے ۔ان تیرہ خاندانوں کے نظریات اور آپس کے روابط ہمیشہ دنیا سے پوشیدہ رہے ہیں اس لئے دنیا میں زیادہ تر لوگوں نے کبھی ان کا نام تک نہیں سنا ہو گا۔ان تیرہ خاندانوں کے نام کچھ اس طرح ہیں ۔
آسٹرخاندان Austor،فری مینFreeman،رسلRussell،رینالڈزReynolds ،اوناسس Onassis،بنڈیBundy،راکفلرRockefeller،کولنزCollins،کینیڈی Kennedy،لی Li،وین دیانVan Duyn،روتھ شائلڈRothschild،ڈوپونٹ Du Pont۔
اب اگر آپ دنیا بھر میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خونی شکنجے کی بات کریں گے تو آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ میں سب سے پہلے ساٹھ کی دہائی میں ”ہپی ازم“کی ابتدا ہوئی تھی یا کی گئی تھی ۔یہ تحریک امریکہ کے مغربی ساحلوں پر پر وان چڑھی تھی لیکن چند ماہ وسال میں ہی یہ تمام مغربی دنیا میں پھیل گئی تھی نو جوان نسل بڑھی ہوئی شیو، پھٹی ہوئی پتلونوں ،بکھرے بالوں اور میلی قمیضوں کے ساتھ گلی کو چوں میں گھومتے نظر آنے لگے ہیجانی موسیقی ان کی روح کی غذا قرار پائی یہ کلبوں میں تھرکتے اور باروں میں تیز نشے کرنے لگے حالانکہ اگر آپ ستر اور ساٹھ کی دہائی سے پہلے کے مغرب کا مشاہدہ کریں تو آپ کو وہاں شائستہ بنیادوں پر ایک مضبوط سماجی ڈھانچہ دیکھنے کو ملے گا ،خاندانی نظام ایک لازمی جزو تھا ،مالی باپ اور اولاد کے درمیان ایک احترام کا رشتہ ہوا کرتا تھا ،خواتین پورے لباس زیب تن کیا کرتی تھیں ،یہی وہ دور ہے جس میں مغرب کا بہترین ادب پروان چڑھا،مغربی دنیا کی فکر انگیز اور بہترین کتابیں اسی دور میں لکھی گئی۔
یہاں تک کہ اس دور کی فلموں کو بھی دیکھ لیا جائے تو وہ ادبی اور سماجی اور بین الالقوامی موضوعات سے تعبیر ہوتی تھیں مغربی سینما کی بہترین اور تاریخی فلمیں اسی دور میں پروڈیوس ہوئیں ۔روس ،مشرقی اور مغربی یورپ سے لیکر امریکہ تک میں پھیلی ہوئی ہر قوم اپنے مخصوص لباس، ثقافت اور سماجی طور طریقوں کے لحاظ سے منفرد ہوا کرتی تھی لیکن پھر مغرب میں ”ہپی ازم “کا وائرس چھوڑ دیا گیا۔
80ء کی دہائی میں یہ تحریک مغرب سے مشرقی منتقل ہونا شروع ہوئی یہاں پر مغربی این جی اوزنے سماجی رویوں اور روایتوں کو بدلنے کاکام شروع کیا یوں ”اینگری ینگ مین “ہمارے معاشرے کا مشہور کر دار بنا دیا گیا۔یہاں کے نوجوان ڈسکو موسیقی دلدادہ بن گئے ان کے لباس کی تراش خراش مکمل طور پر مغربی ہو گئی تعلیمی شعبے میں یہاں عربی اور فارسی کی بجائے تہذیب کی علامت انگریزی زبان قرار پائی یوں یہاں معاشرتی سفارتخانوں کے زیر سایہ یہاں اپنے خونی پنجے گاڑھ دےئے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پہلے ہمیں پیپسی اور میکڈانلڈ کا شوقین بنایا یہاں کامیڈیا ان صلیبی دجالی یلغار کی زد میں آگیا یوں یہاں زندگی میں جو قدرتی پن پایا جاتا تھا وہ ختم ہونا شروع ہو گیا۔یوں یہاں کی قوموں کو ایک بے سمت دوڑ کا حصہ بنا دیا گیا میڈیا پر مہنگی اشتہار بازی سے یہاں کے انسانوں کی مادی ہوس کو دو آشتہ کردیا ۔اس طرح ہم این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بچھائی بساط کے ادنی مہرے بن گئے۔
اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تعداد 620ہے اور ان کے مجموعی سرمایے کی طاقت پچاس ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے ۔
یہ بھی جان لیں کہ اس وقت تک ان میں سے چالیس ملٹی نیشنل کمپنیاں ایشیا اور اس کی منڈیوں پر قابض ہو چکی ہے ۔ابھی تک ان کمپنیوں نے جن ملکوں کا دیوالیہ نکالا ہے ان میں سود ان ،صومالیہ شمالی کوریا،
روانڈا،زمبابوے ،ایلسلواڈور ،مالٹا ،یوکرین البانیہ ،نائجیر یا اور تنزانیہ کے علاہو بھی اور بہت سے ملک ہیں ۔یہ کس طرح دنیا کے انسانوں کو غلام بناتی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف نیسلے کمپنی ہر سال لاکھوں ٹن قابل استعمال خوراک سمندر برد کرتی ہے تا کہ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کی جا سکے جس سے قیمتیں بڑھتی ہیں یاد رہے کہ یہ کمپنی دنیا بھر سے زرعی اجناس خریدنے میں او ل نمبر پر آتی ہے جن سے یہ اپنی غذائی مصنوعات بناتی ہے اور پھر ترقی پذیر ملکوں میں مرضی کے نرخ پر فروخت کرتی ہے اس کمپنی کے اثاثوں کا انداز اس ایک بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اگریہ چاہے تو دنیا بھر کے غرب انسانوں کو کئی دہائیوں تک مفت خوراک مہیا کر سکتی ہے ۔
اس کے بعد اب آپ زراعت کی طرف آجائیں ایک امریکی کمپنی میں بورلانامی ایک امریکی سائنسدان نے ایک بیج ایجاد کیا تھا جس نے عام حالت سے ہٹ کر دو گنی فصل اگانی تھی ۔یہ بیج ستر کی دہائی میں پاکستان درآمد کیا گیا تھا ایک سال بعد پاکستان کو اس بیج مہیا کرنے والی کمپنی سے کھادبھی خریدنا پڑی اس سے اگلے برس اسی کمپنی سے کیڑے مار دوائیاں بھاری قیمت پر بھی خریدنا پڑیں اس کمپنی نے نئی فیکٹریاں لگالیں ۔
اس طرح یہاں کی کھپت بڑھنے لگی کیونکہ زمین نے کسی دوسرے بیج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ،اب اس بیج نے عام بیج کی جگہ پانی کو کہیں زیادہ استعمال کرنا شروع کر دیا یوں اس کمپنی نے پاکستان میں ٹیوب ویل لگانا شروع کر دےئے ٹیوب ویلوں سے متعلق تمام آلات بھی اسی کمپنی سے آنا شروع ہو گئے ،بجلی کا سامان تاریں کھمبے اور میٹربھی یہی کمپنی سپلائی کرنے لگی اس طرح پاکستان کی زراعت پر ایسی تباہی پھر ی کہ اناج برآمد کرنے والا ملک پاکستان خود اناج کے لئے محتاج ہو گیا ۔
اس کے بعد وہی ملٹی نیشنل کمپنی ہماری اناج کی قلت پوری کرنے کے لئے ہمیں دوسری ملکوں سے اناج مہیا کرنے لگی اس طرح پاکستان جیسازرعی ملک خود اناج کے لئے دوسروں کا دست نگر ہو گیا۔اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ ستر کی دہائی میں ادویات مہیا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس وقت پاکستان کابائیکاٹ کر دیا تھا جب بھٹو نے ہر قسم کی دوائی ملک میں ہی بنائے کا اعلان کر دیا تھا لیکن حکومت بعد میں مجبور ہوئی اور س طرح یہ دجالی ملٹی نیشنل کمپنیاں مقامی لوگوں کی کھال اتارنے لگے ۔
ادویات کے شعبے میں بھارت کی نسبت جان بچانے والی دواؤں کے نرخ پاکستان میں 66فیصد زیادہ ہیں جس وقت زرداری نے بد قسمتی سے اس ملک کے صدر کا عہدہ سنبھالا اس وقت بچوں کی ایک بنیادی دواگریوینیٹ 18روپے کی ہوا کرتی تھی لیکن اس حکومت کے ایک سال بعد ہی یہ دوا 80روپے یعنی چار گنا زیادہ مہنگی کردی گئی تھی اب آپ خود اندازہ لگا لیں اب اس کی کیا قیمت ہو گی ۔
کہا جاتا ہے کہ ادویات بنانے والی اگر ایک ملٹی نیشنل کمپنی چاہئے تو دنیا کے ہر شخص کا مفت علاج کیا جا سکتا ہے ،دو ملٹی کمپنیاں ملیں تو دنیا کے ہر فرد کو ہسپتال کاا یک کمرہ فراہم کر سکتی ہیں اور اگر تین ملٹی نیشنل کمپنیاں مل جائیں تو زمین پر بسنے والے ہر انسان کے لئے درمیانی درجے کا ایک ایک ہسپتال بنایا جا سکتا ہے ،
اگر دو ملٹی نیشنل کمپنیاں جان بچانے والی ادویات کو اپنے چنگل سے آزاد کردیں تو دنیا بھر میں مہلک امراض سے مرنے والے نوے فیصد افراد کو بچایا جا سکتا ہے صرف دو ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو دنیا سے ایڈز ،ٹی بی اور کینسر جیسے امراض کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہیں ۔
لیکن ایسا نہیں ہے یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں غریب ملکوں کے حکمرانوں کو آلہ کار بنا کر وہاں کے عوام کے خون کا ایک ایک قطرہ چوس رہی ہیں ۔یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح تجارت کی غرض سے پاکستان میں آئیں اور ا ب یہ مکمل طور پر یہاں کی معیشت پر قابض ہیں ان کا این جی اوز کے ساتھ گہرا تعلق ہے کہا جاتا ہے کہ پاکستان بھر میں ساٹھ ہزار سے زائد این جی اوز یہاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ان میں مغربی این جی اوز کے اثاثے ساٹھ ارب ڈالر سے بھی زائد ہیں ۔
جبکہ ان کے خفیہ فنڈز کا کوئی شمار ہی نہیں انہوں نے پاکستان جیسے ملکوں میں لاکھوں ملا زمین رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کا ایجنڈہ اسکولوں کا لجوں اور یونیورسٹیوں سے پاکستان اور اسلام کی روح کی نکالنا ہے ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ ساٹھ کی دہائی میں امریکہ سے ”ہپی ازم “شروع ہو ا جو یورپ سے ہوتا ہوا اسی کی دہائی میں مشرق میں داخل ہوا تھا اس کے ذریعے ان تیرہ صہیونی دجالی خاندانوں نے اپنے زر خرید میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے تمام دنیا کے کلچر کو ایک کرنا شروع کیا تھا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق سے مغرب تک ایک لباس ہو چکا ہے ،ایک معاشی نظام ہو چکا ہے ،تعلیمی نظام ایک کردیا گیا ہے ،قوتیں بے شمار ہیں لیکن ناچ گانے کے ڈھنگ ایک ہو چکے ہیں ۔
یہ تھاد جالی ”ون ورلڈ گورنمنٹ “کی جانب پہلا قدم ،اسی کے تناظر میں نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا تھا اسی تناظر میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دہشت گردی کے نام پر جنگ مسلط کی گئی تھی ،اس مقصد کی خاطر افغانستان اور عراق کو نشانہ بنا کر اب اس جنگ کو پھیلا کر تمام مشرقی وسطی تک دراز کر دیا گیا ہے ۔
اس مختصر سی تفصیل میں سوچنے سمجھنے کا خاضا مواد ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
duniya par asal hukmaran terah shyoni khandan hain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 January 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.