
فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی منظم عالمی سازش
مولانا ڈاکٹر عادل خان مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا ایک استعارہ تھے
پیر 26 اکتوبر 2020

(جاری ہے)
سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ پروان چڑھنے والے اس منفی تاثر کی جلد از جلد نفی ہونا ازحد ضروری ہے وگرنہ ذرا سی بداحتیاطی کسی مزید المناک حادثہ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے اس لئے ہماری اہلسنّت و الجماعت کی قیادت سے مخلصانہ گزارش ہے کہ مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے اپنا احتجاج حکومت ایوانوں تک پہنچانے کے لئے وہ ہی مستحسن رویہ اور طرز عمل اختیار کیا جائے جس کے داعی اور علم بردار خود مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید اپنی ساری زندگی رہے ہیں۔مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید علمائے حق کے اس قبیلہ کے سرخیل تھے،جسے گزشتہ چند برسوں میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمیشہ فرقہ وارانہ فسادات کے شعلوں پر پانی ڈالنے کو ہی اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا کیونکہ مولانا بخوبی جانتے تھے کہ دہشت گروں کے مذموم عزائم ایک عالم کو قتل کرنے کے بعد ختم نہیں ہو جاتے بلکہ شروع ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید نے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اپنے کئی محترم اساتذہ اور ہر دلعزیز شاگردوں کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارنے کے بعد بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ انہوں نے اپنے متعلقین کو دہشت گردی کے ہر اندوہناک سانحہ کے بعد مذہبی رواداری کی فضا برقرار رکھنے کی ہی تلقین ہی کی،حیران کن بات یہ ہے کہ اپنی زندگی کی آخری تقریری میں بھی انہوں نے ملک میں جاری حالیہ فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی کوششوں کو صبر،تحمل اور مذہبی ہم آہنگی کے ہتھیار سے ناکام بنانے پر ہی زور دیا تھا۔مولانا ڈاکٹر عادل خان صحیح معنوں میں دہشت گردی کی مشکل ترین سائنس کو سمجھنے والے ایک باعمل عالم دین تھے،بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک دشمن کے عناصر آہستہ آہستہ ایسے تمام اعتدال پسند علمائے حق کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے چلے جا رہے ہیں جو اپنی علمی،فکری اور عملی کاوشوں سے پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کے حوالے سے خصوصی شناخت کے حامل ہیں ،چند برس قبل دہشت گردوں نے ہم سے جامعہ نعیمیہ کے مہتمم مفتی ڈاکٹر سر فراز احمد نعیمی شہید کو چھین لیا تھا اور اب کی بار مولانا ڈاکٹر عادل خان کو ہم سے دور کر دیا یہ دونوں علمائے کرام مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا ایک استعارہ تھے ان عظیم علمی و فکری شخصیات کے بچھڑنے کا غم اپنی جگہ مگر دوسری جانب ایک بہت بڑا دکھ اور المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اہل سیاست کو احساس ہی نہیں کہ اعتدال پسند علمائے کرام کا ایک ایک کرکے دہشت گردی کا شکار ہو کر رخصت ہو جانا،مستقبل میں ریاست پاکستان کے لئے کس قدر سنگین خطرات اور مشکلات کا باعث بن سکتا ہے،ہمارے سیاسی قائدین کو جتنی فکر اور پریشانی اپنی کرپشن زدہ سیاست کو بچانے کی لاحق ہے، کاش!اتنی ہی لگن ریاست کو بچانے کی بھی ہوتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Firqa Warana Fasadat Pheelane Ki Munazim Aalmi Sazish is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 October 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.