ہندوستان ہار گیا !

حالیہ انتخابات نے ثابت کر دیا کہ ہندو قوم اکسیویں صدی اور جمہوریت کے اس دور میں بھی انتہا درجے کے انتہا پسند ہیں ،ان کا ذہنی شعور آج بھی اتنا پختہ نہیں ہوا کہ ہندو توا سے نکل کر ایک سیکولر جمہوری معاشرے کی بنیاد رکھیں

Muhammad Irfan Nadeem محمد عرفان ندیم ہفتہ 25 مئی 2019

Hindustan haar gaya!
انہوں نے ٹھنڈے پانی کا گلاس حلق میں انڈیلا، ریموٹ سے اے سی تیز کیا، کھڑکیوں کے پردے چڑھائے اور صوفے پر براجمان ہو گئے۔ باہر کا موسم بہت گرم تھا، درجہ حرارت چالیس سے اوپر جا چکا تھا ،میں گرمی میں جھلستا ہوا وہاں پہنچا تھا ،میں نے ٹھنڈے کمرے میں گرم گرم سانسیں لیں اور اپنے اوسان بحال کرتے ہوئے عرض کیا ”سرمودی الیکشن جیت چکے ہیں، گزشتہ چند سالوں سے دنیا کے واقعات انسانی توقعات کے بر عکس رونما ہو رہے ہیں ، مثلا ساری دنیا کا میڈیا چیخ رہا تھا کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کی صدر منتخب ہو جائیں گی لیکن عین آخری لمحے ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہو گیا، انڈیا میں ہونے والے الیکشن کی ابتدائی صورت حال بھی یہی تھی کہ مودی کا قصہ ختم ہو چکا لیکن پھر دنیا نے ایک قصائی کو سب سے بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم منتخب ہوتا دیکھ لیا ، ایسا کیوں ہے اور دنیا کی لیڈر شپ انتہا پسند وں کے قبضے میں کیوں چلی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)


 کیا یہ تیسری جنگ عظیم کی شروعات تو نہیں“میری بات لمبی ہو رہی تھی انہو ں نے بے چینی سے پہلو بدلا،چشمہ اتار کر میز پر رکھا اور بولے ” مودی ہندوستان میں واضح اکثریت سے کام ہو گئے ہیں،یہ انتخابات انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے بڑے اہم تھے ، آنے والے دنوں میں بھارت میں مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ جورویہ رکھا جائے گا اور مودی کی جیت خطے میں جن نئے تنازعات اور خدشات کو جنم دے گی یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے ۔

حالیہ انتخابات نے ثابت کر دیا کہ ہندو قوم اکسیویں صدی اور جمہوریت کے اس دور میں بھی انتہا درجے کے انتہا پسند ہیں ،ان کا ذہنی شعور آج بھی اتنا پختہ نہیں ہوا کہ ہندو توا سے نکل کر ایک سیکولر جمہوری معاشرے کی بنیاد رکھیں۔
مودی کے پچھلے دور حکومت میں ہندوستان کی معیشت درست سمت پر آگے نہیں بڑھ سکی اور عالمی سیاست میں بھی بھارت اپنے حجم کے مطابق اپنا اثر و رسوخ برقرار نہیں رکھ سکا لیکن اس کے باوجود ہندو قوم نے مودی کو ووٹ دے کر اسے دوبارہ منتخب کر لیا۔

اس سے ثابت ہوگیا کہ ہندوستان میں ہندو جیت گیا اور ہندوستان ہار گیا ”وہ رکے اور گہری سانس لینے کے بعد دوبارہ گویا ہوئے “دو ہزار چودہ میں ہندوستان میں بہت کم لوگ مودی کو جانتے تھے اور عالمی سطح پرتو مودی کا نام و نشان تک نہیں تھا ، صرف وہ لوگ جو کسی نہ کسی طرح میڈیا سے وابستہ تھے و ہ مودی کو گجرات کے قصائی کے طور پر جانتے تھے ، دو ہزار چودہ کی جیت بی جے پی کی جیت تھی لیکن دوہزار انیس کے الیکشن میں اصل ووٹ مودی کو پڑا ہے اور اس کی وجہ مودی کا ہندو توا کا نعرہ ہے۔

 دوہزار چودہ میں بی جے پی کے دو نعرے تھے ، ایک معاشی ترقی اور دوسرا ہندو قوم پرستی لیکن اس بار کے الیکشن میں مودی کا صرف ایک نعرہ تھا ہندو قوم پرستی جس کا دوسرا نام ہے پاکستان دشمنی۔ہندوانتہا پسندوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی معیشت درسمت آگے بڑھ رہی ہے یا نہیں ، انڈیا کی دو نمبر جمہوریت ننگی ہو کر سامنے آ رہی ہے یا مودی کی احمقانہ پالیسیوں کی بدولت جنوبی ایشیا تباہی کے دھانے کی طرف بڑھ رہا ہے ، انہیں صرف اس بات سے غرض ہے کہ مودی پاکستان کے خلاف اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کرتا ہے۔

 وہ انڈیا جو نوے کی دہائی سے معیشت کے میدان میں نمایاں ترقی کررہا تھا پچھلے پانچ سالوں سے اس معیشت میں جمود آ گیا لیکن ہندو انتہا پسندوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ہندو واحد قوم ہے جس نے پچھلی پانچ صدیوں میں جدیدیت سے کچھ نہیں سیکھا ، دنیا کی کوئی قوم اور کوئی خطہ ایسا نہیں جو جدیدت سے متاثر نہ ہوا ہو حتی کہ اسلام ، یہودیت اور بدھ مت جیسے قدامت پسند مذاہب اور ان کے پیرو کا ر بھی جدیدیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے لیکن ہندو قوم نے اپنی روش نہیں بدلی اور یہ آج بھی اپنی تنگ نظری اور انتہا پسندی کو گلے لگائے ہوئے ہے۔

 گزشتہ الیکشن میں بی جے پی ہندی بولے جانے والے علاقوں میں ایک متفقہ جماعت کی صورت میں سامنے آئی تھی اور اس نے پوری ہندی بیلٹ سے کلین سویپ کیا تھا لیکن اب کی بار اگرچہ اسے ان علاقوں سے اتنا ووٹ نہیں ملا لیکن اس کے برعکس اسے ہندو توا کے نام پر بنگال ، آسام ، اڑیسہ اور کرناٹک کی ریاستوں میں اچھے خاصے ووٹ ملے ہیں ۔“وہ بات مکمل کر کے خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا ” سر مودی کی جیت سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں “ وہ سانس لینے کے بعد دوبارہ گویا ہوئے “ دنیا اس وقت بڑی تیزی سے تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس وقت دنیا کو سب سے بڑا خطرہ ٹرمپ اور مودی جیسی انتہا پسند قیادت سے ہے ،ٹرمپ سفید نسل پرستی کی بنیاد پر منتخب ہو ئے اور مودی ہندو توا کا نعرہ لگا کر کامیاب ہوا ہے ، یہ دونوں بندے پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں انتہائی سخت رویہ رکھتے ہیں۔

 اسی سال فروری میں مودی نے امریکہ اور اسرائیل کی ہلاشیری پر پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھونگ رچایا تھا ، اب ابھی امریکہ ایران تنازع پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور امریکہ کے بحری بیڑے، بی باون طیارے اور دیگر اسلحہ خلیج میں اکٹھا کیا جا رہا ہے بظاہر اس کا ہدف ایران ہے مگر آپ یہ بات لکھ لیں امریکہ ایران جنگ ہو ہی نہیں سکتی، امریکہ کی ساری سرگرمیوں کا اصل ہدف پاکستان ہے۔

مودی سے دوبارہ ایسی کوئی حرکت کروائی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے حالات پھر کشیدہ ہو جائیں گے اور بات ستائیس فروری سے آگے بڑ ھ جائے گی۔
 امریکہ اور چین کے تعلقات بھی کشیدہ ہوتے جارہے ہیں ، روس بھی اپنے مفادات کا بہرصورت دفاع کر ے گا اوریوں دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ جائے گی اور اس جنگ کا سارا کریڈٹ ٹرمپ اور مودی کو جائے گا۔

دنیا جب تک ان انتہا پسندوں کے نرغے سے نہیں نکلتی ہمیں ہر وقت تیسری عالمی جنگ کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ “میں نے آخری سوال داغا ” سر مودی کی جیت میں ہم پاکستانیوں کے لیے کیا سبق ہے “ وہ رکے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی اور دوبارہ گویا ہوئے ”مودی کی جیت اکیس کروڑ پاکستانیوں کے منہ پر طمانچہ ہے ، ہندو ستان کے ایک ارب ہندووٴں نے ثابت کر دیا وہ آج بھی ایک ہیں ، وہ اپنے مفادات کے تحفظ اور پاکستان دشمنی میں ایک پیج پر ہیں ، وہ آج بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ آج بھی ایسے شخص کے ساتھ کھڑے ہیں جو پاکستان کو دنیاسے مٹانے کی بات کرتا ہے۔

 
اور دوسری طرف ہماری حالت کیا ہے ، ہم آج بھی پنجابی ،پختون ، سندھی اور بلوچی میں بٹے ہوئے ہیں ، ہم آج بھی ن لیگ ، پیپلز پارٹی، جمعیت اور پی ٹی آئی میں بٹے ہوئے ہیں ، ہم آج تک کسی قومی ایشو پر اکھٹے نہیں ہو سکے ، ہماری میتیں اور لاشیں بھی فرقوں اور جماعتوں میں بٹی ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اس انتشار پر شاداں ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں مودی اپنی قوم کو ایک پیج پر لے آیا اور ہم پانچ سالوں میں انتشادرر انتشار کا شکار ہوتے چلے گئے ،نتیجہ کیا نکلا ہندوستان میں ہندو اور مودی جیت گئے لیکن پاکستان میں انتشار جیت گیا اور پاکستان ہا ر گیا۔

“وہ بات کر کے خاموش ہو ئے اور میں سوچ میں پڑ گیاکہ ہم کب ایک قوم بن سکیں گے، ہمیں کب ہوش آئے گا اور ہم کب اس ملک کے ساتھ مخلص اور سنجیدہ ہوں گے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hindustan haar gaya! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 May 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.