لداخ میں چین بھارت کشیدگی، کسی بڑی جنگ کے منڈلاتے خطرات

بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جس کے تمام ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں۔اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے اس خطے میں خطرے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔نیپال، بنگلہ دیش، اور پاکستان کے ساتھ تو اس کے تنازعات کی ایک تاریخ ہے

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ ہفتہ 30 مئی 2020

ladakh mein cheen Bharat kasheedgi, kisi barri jung ke mandltay khatrat
چین دنیا کی ابھرتی ہوئی بڑی سیاسی اور فوجی طاقت ہے۔جس سے یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک خائف نظر آتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود خود چین اپنے مخصوص طرز عمل کی وجہ سے کسی بھی جگہ پر جھگڑے کا باعث نہیں بنا بلکہ جھگڑے کی صورت میں ہمیشہ چین نے مصالحت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جس کے تمام ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں۔

اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے اس خطے میں خطرے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔نیپال، بنگلہ دیش، اور پاکستان کے ساتھ تو اس کے تنازعات کی ایک تاریخ ہے لیکن اب چین کے ساتھ اس نے اپنا تنازعہ کھڑا کرکے پوری دنیا کو اس خطے کی طرف متوجہ کردیا ہے۔دنیا بھر کے مبصرین حیران ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کرونا جیسی وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے لیکن بھارت ہر روز کسی نہ کسی ملک کے معاملات میں مداخلت کر کے دنیا بھر میں ایک طرف بد امنی کا باعث بن رہا ہے تو دوسری طرف علاقے کے لئے امن و امان کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

بھارت کے اس رویے نے دنیا کے بڑوں کو سوچنے پر مجبور کر دیاہے کہ آخر کسی نہ کسی موقع پر تو اس بے لگام ہاتھی کو لگام ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
لداخ تنازعہ کیا ہے۔؟
ہندوستان اور چین کے درمیان ان سرحدی تنازعہ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور 1962کی سرحدی جھڑپوں کے بعد یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔انڈیا اور چین کے درمیان تقریبا 3488 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ سرحد جموں کشمیر،ہماچل پردیش، اتراکھنڈ،اور اروناچل پردیش سے ملتی ہے۔اس معاملے کو سمجھنے کے لئے ہم اس کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ مغربی سیکٹر میں جموں کشمیر، مڈل سیکٹر میں ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ،جبکہ مشرقی سیکٹر میں سکم اور اروناچل پردیش کے علاقے شامل ہیں۔چین اور بھارت کے درمیان مکمل حد بندی موجود نہیں ہے۔

جو علاقہ جس ملک کے قبضے میں ہے وہ اسی کا شمار ہوتا ہے۔ اس کی مکمل حد بندی نہ ہونے کے باعث مختلف تنازعات کا کھڑا ہونا معمول ہے لیکن حالیہ دنوں میں چین کی طرف سے کی گئی کارروائی اور بھارت کی طرف سے اس کی مذمت اور پسپائی نے اس تنازعہ کو نمایاں کر دیاہے اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں اس معاملے پر غور کیا جارہا ہے کہ ان تنازعات کا عالمی امن کیلئے خطرہ کا باعث تو نہیں؟
1962 کی بھارت اور چین کے درمیان جنگ کے دوران چین نے مغربی سیکٹر میں موجود علاقہ اکسائی چین پر قبضہ کر لیا تھا۔

بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے جس پر چین نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جبکہ چین کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ فطری طور پر چینی علاقہ کے ساتھ شامل ہے بھارت نے ناجائز طور پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ 1962 میں چین نے اپنا علاقہ واپس لے لیا ہے۔مغربی سیکٹر اس سرحدی کشیدگی کا ایک رخ ہے۔دوسری طرف مشرقی سیکٹر میں بھی چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ موجود ہے۔

تفصیلات کے مطابق چین مشرقی سیکٹر میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے چین کے مطابق یہ علاقہ جنوبی تبت کا ایک حصہ ہے۔ چین تبت اور اروناچل پردیش کے مابین میک موہن لائن کو بھی قبول نہیں کرتا۔تبت کی مخصوص سرحدی پوزیشن کی وجہ سے چین ہمیشہ تبت کے معاملہ میں حساس رہا ہے۔اور طویل عرصے سے اس بات پر گفتگو اور مذاکرات کی کئی نشستیں ہوئیں ہیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔

حقیقت یہ ہے کہ جنوبی تبت کا یہ علاقہ چین کا ایک حصہ شمار ہوتا ہے۔تبت کی طرف جانے والے اکثر راستے چین سے ہو کر گزرتے ہیں۔لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس خطے میں بھی ایک سلگتا ہوا سرحدی تنازع موجود ہے۔
بھارت کے اندر مبصرین اور ماہرین کی رائے میں اس کو محض سرحدی تنازع قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

بھارت کے ممتاز اخبار انڈین ایکسپریس میں سابق سفیر اور چین بھارت امور کے ماہر پی سٹو بدان نے ایک مضمون میں تحریر کیا جس کے مطابق اس تنازع کو سرحدی تنازع قرار دے کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایک طرح سے یہ 1962 کے سرحدی جھڑپوں کا ایک تسلسل ہے۔
انہوں نے لکھا کہ جب بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت کشمیر کی حیثیت تبدیل کی اور اس کی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے لداخ کو ایک اس علاقہ کا مرکز قرار دیا تو چین نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اس کو سرحدی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا۔

ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس معاملہ کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اٹھایا۔ان کے اس ردعمل سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لداخ کی سرحد پر ہونے والی ہر قسم کی سرگرمیوں سے بخوبی آگاہ ہے بلکہ ان پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت اور فوج کی ذہنیت سے چین سمیت اس کے تمام ہمسائے بخوبی آگاہ ہیں۔چین یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت اس خطے کی سلامتی کے لیے ایک خطرے سے کم نہیں۔

اس کے توسیع پسندانہ عزائم سے چین سمیت تمام ہمسائے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ لیکن چین نے ایک قدم آگے بڑھ کر بھارت کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔اگرچہ پاکستانی افواج لائن آف کنٹرول پر بھارتی دراندازی کا بڑی دلیری سے دندان شکن جواب دے رہی ہیں لیکن چینی افواج کی طرف سے بھارتی فوجیوں کی مرمت اور پھر ان کی طرف سے شرمناک انداز میں پسپائی نے ایک طرف تو چین کے ردعمل سے پوری دنیا کو آگاہ کر دیا ہے تو دوسری طرف بھارتی افواج کے کھوکھلے پن سے بھی پردہ اٹھ گیا ہے۔

بھارت کی طرف سے چینی سرحد پر دراندازی پہلی دفعہ نہیں ہوئی۔1962 میں بھارت کو ہونے والی شکست فاش کے بعد متعدد مرتبہ معمولی چھڑ چھاڑہوئی۔2017 میں انڈیا اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پر آمنے سامنے ہوئیں۔لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول جس کو ایل اے سی بھی کہا جاتا ہے اس کے مختلف مقامات پر بھارت اور چین کی طرف سے افواج میں اتنا اضافہ دیکھا گیا اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔

مبصرین کی رائے میں 1999 میں کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد اب تک یہ سب سے بڑی کشیدگی ہے۔اس تنازعے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ منگل کو بری بحری فضائی افواج کے سربراہوں اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ ایک باقاعدہ میٹنگ کی اور ان کے ساتھ اس سرحدی کشیدگی طویل مشاورت کی۔

بھارتی وزیر دفاع نے تینوں افواج کے سربراہان اور چیف آف ڈیفنس سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں۔تاہم بھارتی میڈیا نے ان ملاقاتوں کو رپورٹ نہیں کیا لیکن بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں نے تواتر کے ساتھ ہو نے والی ملاقات کے متعلق خبریں شائع کی ہیں۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انہی ایام میں بھارتی افواج کی تین روزہ غیر معمولی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں بھارتی افواج کے تمام اعلی کمانڈرز شرکت کر رہے ہیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق بھارتی افواج کی اعلی سطح کی قیادت سکیورٹی کی تازہ ترین صورتحال حال پر غور وخوص کرے گی۔ بھارتی افواج کی ان سرگرمیوں کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارتی افواج اس صورتحال کو کس قدر سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔
 دوسری جانب چینی دارالحکومت بیجنگ میں بھی سفارتی اور فوجی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔

بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے انتہائی خراب صورتحال کے پیش نظر اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔چین کی خبر رساں ایجنسی شنہو کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ شی جن پنگ نے کہا کہ فوج کو خراب ترین صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ان کو اپنی جنگی تیاری کی استعداد میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار ہوں۔

اگرچہ چینی صدر نے خاص طور پر لداخ کی صورتحال کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی چینی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے خصوصی طور پر اس سرحدی کشیدگی کو واضح کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود چینی سفارتی انداز کو سمجھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی صدر کی جانب سے چینی افواج کی تیاری دراصل لداخ کے محاذ پر ہونے والی کشیدگی کا پیش خیمہ ہے۔
چین میں یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے کہ اس کا ہمسایہ انتہائی شاطر چالاک اور اپنی زبان سے پھرنے والا ہے۔

چین سمجھتا ہے کہ بھارت کی اعلی ترین قیادت کے ساتھ ساتھ کی گئی بات چیت کسی بھی وقت کوڑا دان کا حصہ بن سکتی ہے۔کیونکہ موجودہ بھارتی قیادت ہر لحاظ سے ناقابل اعتبار ہے۔لہذا چینی صدر کی جانب سے اپنی مسلح افواج کو بھرپور تیاری دینے کے حکم نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر چوکنا کر دیا ہے۔۔فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ لداخ میں سرحد کے نزدیک چینی فوج کی ایک پر بھی پرواز کرتے دیکھے گئے ہیں۔

جبکہ کہ دیمچوک،دولت بیگ اولڈی،دریاے گلواون اور پینگونگ سو جیل کے اطراف میں انڈین اور چینی افواج نے اپنی اپنی تعداد میں اچانک اضافہ کیا ہے اور دونوں نے اپنے اپنے علاقے میں قائم جھیلوں میں کشتیوں کی گشت میں بھی اضافہ کیا ہے۔یاد رہے کہ بھارت اس خطے میں کچھ عرصہ سے موٹر گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے ایک سڑک تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب چینی افواج اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ بیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیا میں بتایا گیا کہ مغربی سیکٹر میں انڈیا کے ذریعے یکطرفہ غیرقانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کے بعد چائنیز افواج نے اپنا کنٹرول سخت کر دیا ہے۔اس سرحدی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا جب دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان پانچ مئی کو ہاتھا پائی ہوئی اوراس کے بعد اس سے تقریبا 2000 کلومیٹر دور شمال مشرقی ریاست سکم میں بھی انڈیا چین سرحد پر پر دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان اسی طرح کا ٹکرا ہوا۔

بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق گرمیوں کے موسم میں دونوں ممالک کی افواج کے آمنے سامنے آنے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں موسم گرماکے شروع ہوتے ہی دونوں جانب کی افواج ایل سی کے دونوں جانب جب معمول کے گشت بڑھا دیتے ہیں۔تاہم ان گرمیوں میں صورتحال قدرے مختلف رہنے کا امکان ہے۔سرحدی علاقوں میں عمومی طور پر چین کا پلہ بھاری رہا ہے۔دنیا کو اب یہ سمجھنا ہوگاکہ ہاتھا پائی سے شروع ہونے والے اس قضیہ کا اختتام ایک بڑے انسانی المئے پرہوسکتا ہے۔اگر بھارت نے مزید غیرذمہ داری کامظاہرہ کیا تواس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ladakh mein cheen Bharat kasheedgi, kisi barri jung ke mandltay khatrat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 May 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.