اپوزیشن الیون کا منافقانہ رویہ

اعتزاز احسن کے قانونی نکتے نے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو تشویش میں مبتلا کر دیا

جمعرات 31 دسمبر 2020

Opposition Eleven Ka Munafiqana Rivaya
راؤ محمد شاہد اقبال
گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”استعفے تو ہماری جیب میں موجود ہیں،جب قیادت طلب کرے گی اسے پیش کر دیں گے“یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہلکا سا ایک ”سیاسی اشارہ“ کیا تو استعفے سید مراد علی شاہ کی جیب سے نکل کر آناً فاناً ہی بلاول بھٹو زرداری کی جیب میں پہنچ جائیں گے مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے استعفے فقط ایک دوسرے کی جیبوں میں ہی رلتے رہیں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کی میز تک نہیں پہنچ سکیں گے تو آخر ایسے ”ہومیو پیتھک استعفوں“ کا وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کو کیا خاک نقصان ہو گا؟جبکہ خود اپوزیشن رہنماؤں کو اپنی اپنی جیبوں میں استعفے رکھ کر اِدھر اُدھر گھومنے سے کتنے ”سیاسی نفلوں“ کا فائدہ حاصل ہو گا؟کاش!اس بابت بھی اپوزیشن الیون کے قائدین تھوڑا سا تفکر کرنے کی زحمت گوارا کر لیتے تو اپوزیشن کے سیاسی مستقبل کیلئے کیا ہی اچھا ہوتا بہرحال اپوزیشن الیون کے منافقانہ قسم کے سیاسی رویہ سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اراکین اسمبلی کے استعفے کبھی بھی اسپیکر کی میز تک کا خطرناک ”سیاسی سفر“ طے نہیں کر سکیں گے اور اگر بہت زور مارا بھی تو بس!یہ استعفے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جیب تک پہنچ کر اپنے طویل”سیاسی سفر“ کا اختتام کر دیں گے کیونکہ ایک بات سے تو ساری دنیا بخوبی واقف ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جیب میں اگر کچھ ایک بار داخل ہو جائے اور پھر اُس شے کا باہر نکل پانا کم وبیش ناممکن ہی ہوتا ہے اس لئے غالب امکان یہ ہی ہے کہ استعفوں کی تحریک سے اپوزیشن الیون کے اتحاد پی ڈی ایم کا شیرازہ تو ضرور بکھر کر ریزہ ریزہ ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)


”ہومیو پیتھک استعفوں“ سے کسی بھی صورت وزیراعظم پاکستان عمران خان کو مسند اقتدار سے اتارا نہیں جا سکتا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کی قانونی موشگافی کے مطابق”اپوزیشن اگر اپنے استعفے اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کرنے کی”سیاسی غلطی“ کرتی ہے تو وزیراعظم پاکستان عمران خان کا اقتدار ناقابل بیان حد تک مضبوط اور مامون ہو جائے گا“ذرائع بتاتے ہیں اعتزاز احسن کے اس قانونی نکتے نے اپوزیشن الیون خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو سخت سیاسی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی صفوں میں پیدا ہونے والی تشویشناک صورت حال کا پہلا ثبوت بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفی کھوکھر کے استعفے کی صورت میں سامنے بھی آچکا ہے دراصل مصطفی کھوکھر کا استعفیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر چلنے والی سیاسی آندھی کا پہلا جھکڑ ہے جس کا اولین مقصد پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہ باور کروانا ہے کہ”مولانا فضل الرحمن کے مجنونہ جوش انتقام اور میاں محمد نواز شریف کے سینے میں لگی ہوئی سیاسی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو”سیاسی خود کشی“ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور اگر کسی سیاسی مصلحت کے تحت استعفے لینا ناگزیر ہو بھی جائے تو پیپلز پارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے استعفے خوشی خوشی بلاول بھٹو زرداری کی جیب میں خاموشی سے رکھ تو دیں گے لیکن اس یقین دہانی کے بعد کہ ان کے دیئے گئے استعفے بعد ازاں بلاول بھٹو زرداری کی جیب سے نکل کر اسمبلی کے اسپیکر کی میز تک نہیں پہنچیں گے“جہاں تک پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کا سوال ہے تو لاہور کے جلسہ کا عبرت ناک انجام دیکھ کر اظہر من الشمس ہے کہ مسلم لیگیوں کے استعفے اسمبلی کے اسپیکر تک پہنچنا تو بہت دور کی بات رہی اب تو یہ استعفے مریم نواز تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔


لاہورکے حالیہ جلسے کی ناکامی نے عیاں کر دیا ہے کہ مسلم لیگی ماضی کی طرح اس بار بھی نام نہاد نظریہ یا انقلاب کا ساتھ دینے کے بجائے” سیاسی مفادات“ کی جانب جانا زیادہ پسند فرمائیں گے اور جیسا کے سب جانتے ہیں”سیاسی مفادات“حاصل کرنے کا امکان صرف شہباز شریف اور حمزہ شریف کی سیاسی حکمت عملی کا ساتھ دینے میں ہی ہے جبکہ مریم نواز کی سیاسی شاہراہ تو کوٹ لکھپت جیل تک پہنچ کر اختتام پذیر ہو جاتی ہے لہٰذا مسلم لیگی متوالے مریم نواز کے ہمراہ جیل کی سوکھی روٹی کھانے کے بجائے شہباز شریف کے سیاسی دسترخوان سے قیمے والے نان کی دعوت اڑانا ہی پسند فرمائیں گے حالانکہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ شہباز شریف نیب کے چنگل سے اپنے آپ کو کس طرح سے چھڑا پائیں گے مگر اس کے باوجود بھی مسلم لیگیوں کو موہوم سی امید ہے کہ اگر مستقبل بعید میں شریف خاندان میں سے کسی فرد کے سر پر دوبارہ اقتدار کا ہما بیٹھ سکتا ہے تو وہ شہباز شریف یا حمزہ شریف تو ضرور ہو سکتے ہیں لیکن مریم نواز ہر گز نہیں ہوں گی۔


پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کی کثیر تعداد کا استعفوں کی تحریک سے سیاسی لاتعلقی اختیار کر لینے کے بعد پیچھے اب مولانا فضل الرحمن،محمود خان اچکزئی اور انس نورانی جیسے سیاسی سورما ہی باقی بچتے ہیں جو جب چاہیں اس وقت ہی اپنے اپنے استعفے منظوری کے لئے عمران خان کے سامنے پیش کر سکتے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ یہ سب کے سب اراکین پارلیمنٹ نہیں ہیں کیونکہ گزشتہ انتخابات میں انہیں اپنے اپنے حلقے میں تحریک انصاف کے امیدواروں کے ہاتھوں شکست کا بھیانک چہرہ دیکھنا پڑ گیا تھا لہٰذا اب ان سب کے پاس استعفے دینے کی اپنی سیاسی ضد کو پورا کرنے کا ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کی صدارت سے جبکہ محمود خان اچکزئی اور انس نورانی پی ڈی ایم کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرکے استعفے دینے کی اپنی ”سیاسی منت“ کو پورا کر لیں ویسے بھی رانا ثناء اللہ تو فرما ہی چکے ہیں کہ ” آر یا پار کا مطلب ہمارے نزدیک لاہور میں جلسہ کرنا تھا”اگر آر پار کے معنی”پھسپھسا جلسہ“ ہو سکتا ہے تو پھر استعفے سے مراد”ہومیو پیتھک استعفے“ کیوں نہیں لئے جا سکتے یعنی اپوزیشن رہنماؤں کے ایسے استعفے جن سے پی ڈی ایم کا سانپ بھی مر جائے اور اپوزیشن رکن اسمبلی کی ”سیاسی لاٹھی“ بھی نہ ٹوٹے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Opposition Eleven Ka Munafiqana Rivaya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.