
پاکستان میں یہودیت؟
کراچی کے شہری فیشل کے دعوائے یہودیت نے ملک بھر کو چونکا دیا اسرائیلی اخبارات کہتے ہیں وہ وقت قریب ہے جب فیشل اسرائیل آئے گا
جمعہ 1 فروری 2019

پاکستان ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ کے پھول موجود ہیں اور ہر پھول کی اپنی خوشبو ہے ۔ایسے ہی پاکستان میں بہت سے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی پائے جاتے ہیں جن میں سکھ ،عیسائی ،ہندواور دیگر اقلیتوں کے لوگ موجود ہیں تا ہم گذشتہ دنوں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص فیشل بن خالد (پہلا نام فیصل) نے خود کو یہودی رجسٹرڈ کروا کراہل پاکستان کو چونکا دیا ہے ۔فیشل کا دعویٰ ہے کہ اس کے والد مسلمان والد اور والدہ یہودی تھیں و ہ ان کے ہاں 1987ء کو پیدا ہوا۔
اس کا والد 1996ء کو و فات پا چکا ہے ،جبکہ والدہ1998ء کو وفات پاچکی ہے ۔وہ کراچی کے علاقہ کورنگی کامکین ہے اور ایک مقامی کمپنی میں کام کرتا ہے ۔اس کے مسلمان سے یہودی ہونے کی داستان خاصی دلچسپ ہے ۔
(جاری ہے)
فیشل کے بقول اس کے والدین کراچی میں باہم ملے تھے یہیں محبت میں گرفتار ہو گئے اور شادی کرلی ۔
ا س کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ کا خاندان یہودی ہے والد سیکولر مسلم تھے انہیں میری والدہ کے عقیدے پر کوئی اعتراض نہ تھا ۔میری والدہ نے کبھی اسلام قبل نہیں کیا اگر چہ وہ ایک مسلمان کے طور رجسٹرڈ کی گئی تھیں تا ہم وہ ہمیشہ یہودی رہیں اور انہوں نے مجھے یہودیت سے متعلق بہت سی باتیں سکھائیں۔“عمومی طور پر پاکستان میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرہ)تبدیلی مذہب سے متعلق دی جانے والی درخواستوں پر کارروائی نہیں کرتی مگر جب فیشل نے تبدیلی مذہب کے لئے درخواست دی تونا دراحکام نے غیر عمومی فیصلہ کرتے ہوئے فیشل کی درخواست قبول کی اور اس کے شناختی کارڈ پر مذہب کے خانے میں ’یہودی ‘ تحریر کر دیا گیا۔
فیشل جیسے ہی بطور یہودی رجسٹرڈ ہوا ساتھ ہی اس نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھا جارہا ہے ۔اس کا کہنا ہے ”جب میرے ملک مکان نے میری یہودی شناخت دیکھی ،تو اس نے مجھے گھر خالی کرنے کا کہا،حالانکہ میں اس گھر میں کئی ماہ سے رہ رہا تھا ۔اگر چہ مالک مکان نے اس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں بتائی بتائی لیکن میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ میری یہودی شناخت ہے ۔
نئی شناخت کے بعد میں نے پرانے گھر ہی کے نواح میں ایک اور مکان کرائے پر لیا،کیوں کہ میرے بچے اسی علاقے کے ایک اسکول میں زیر تعلیم ہیں ۔مگر مجھے جیسے ہی میرے نئے مالک مکان کو میرے مذہب کا علم ہوا ،مجھے یہ نیا کان بھی چھوڑ نا پڑا۔“
فیشل کے دعوئے یہودیت نے بحث کے کئی دروازے کھول دیے ہیں مثلاً یہ کہ کیا فیشل واقعی یہودی ہے ۔۔۔؟یہ کہ پاکستان میں اس وقت کتنے یہودی ہیں ۔۔۔؟بتایا جاتا ہے کہ نادراریکارڈ کے مطابق پاکستان میں 745یہودی خاندان مقیم ہیں اور وہ اپنی شناخت چھپاتے ہیں ،نادرا حکام کے بقول یہودیوں کا ریکارڈ نہایت خفیہ رکھا جاتا ہے ۔یہ بات بہر حال طے ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے ملک کے مختلف شہروں میں یہودی موجود تھے ۔
اب سوال یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہودی کیوں معدوم ہوتے چلے گئے ۔اس کا ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جب پاکستان کی سیاست میں مذہب کے نام پر تشدد اور نفرت کا عنصر بڑھا تو یہودی خوف زدہ ہو کر یا تو پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہونے لگے یا جو باقی رہ گئے تھے وہ اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہو گئے ۔یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے اس لئے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے لئے ہمیشہ ساز گار ماحول رہا ہے اگر کسی موقع پر یہودیوں کے حوالے سے ماحول میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی تو اس کے ذمہ دار یہودی تحریک کے بڑے بڑے زعماخودر ہے ہیں ۔
جس طرح سے یہودیوں نے سر زمین فسلطین پر قبضہ کیا پھر مسلمانوں کا قتل عام کیا،ان کو جلاوطن کیا اس کا نتیجہ عمومی طور پر یہودیوں کے ساتھ نفرت کی صورت میں نکلنا تھا۔دوسری بات یہ ہے کہ یہودی تحریک کے بانی خود کو شاں رہے اور اب بھی ہیں کہ دنیا بھر میں یہودیوں کو اسرائیل میں لا کر آباد کیا جائے اس آبادکاری کو باقاعدہ ایک تحریک اور عبادت کی شکل دی گئی۔چنانچہ شواہدبتاتے ہیں قیام پاکستان کے بعد بہت سے یہودی خصوصاً جو نوجوان تھے ۔۔۔۔وہ ازخود اسرائیل چلے گئے تھے ۔
اب اس سارے معاملے کا دوسرا پہلو ۔۔۔۔کیا فیشل واقعی یہودی ہے ۔فیشل نے دعوی کیا ہے کہ اس کی والدہ یہودی تھیں اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ فیشل کے بھائی خالد نے یہ دعوی مستر کر دیا ہے ۔وہ کہتا ہے میری والدہ یہودی نہیں بلکہ مسلمان تھیں ۔
فیشل نے بدھ کو ایک ٹوئیٹ کی جس میں وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،”پیارے عمران خان 2جنوری کو وزارت خارجہ نے مجھے کال کی اور بتایا کہ میں پاکستانی پاسپورٹ پر یروشلم اسرائیل کا دورہ کر سکتا ہوں ۔میں اسرائیلی سفارتخا نے کوویزے کی درخواست دے رہاہوں ۔“فیشل نے ٹوئیٹ میں دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کوٹیگ کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔اس کے علاوہ اس نے فواد چوہدری ،بلاول بھٹو زرداری اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی ٹیگ کیا۔
ٹوئیٹ کے ساتھ یہودی تہوار ”پاس اوور“کے روایتی کھانے کی تصویر بھی شےئر کی۔2013میں فیشل نے ٹوئٹر پر jew-pakistan@کے ہینڈل سے اکاؤنٹ بنایا۔2014 میں اس نے اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کے والد مسلمان اور والدہ یہودی تھیں ۔فیصل کا کہنا ہے کہ وہ کبھی مسلمان نہیں تھا بلکہ اس نے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی شناخت چھپائی تھی۔اس خبر کے آخر میں اسرائیلی اخبارنے لکھا کہ ایک نہ ایک دن فیشل اسرائیل آئے گا لیکن اس سے پہلے اسے پاکستانی پاسپورٹ پر موجود عبارت کی رکاوٹ کا سامنا ہو گا جو کہتی ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لیے کار آمد نہیں ۔
فیصل یا فیشل نے ایک اور اسرائیلی جریدے وائے نیٹ نیوز کو اپنی جو کہانی سنائی اس کے مطابق اس کے والد انتہائی سیکولر مسلمان تھے جب کہ والدہ یہودی تھیں ۔والدہ کا خاندان پاکستان بننے سے پہلے ایران سے کراچی آیا تھا اور پاکستان بننے بالخصوص عرب اسرائیل جنگ کے بعد کراچی کے بیشتر یہودی ملک چھوڑ گئے جبکہ جورہ گئے وہ اپنی شناخت چھپانے لگے۔
اس کے والدین کی شادی بھی اسلامی طریقے سے ہوئی ،اگر چہ اس کے دیگر چار بھائی مسلما ن ہیں تا ہم وہ بچپن سے ہی یہودیت کی طرف مائل تھا۔فیشل کی سنائی گئی اس کہانی کے مطابق اس کی والدہ اس وقت گزر گئیں جب وہ10برس کا تھا تا ہم وہ کہتا ہے مجھے یاد ہے کہ والدہ کیسے یہودی رسومات انجام دیتی تھیں ۔
اس کے بعد والد اپنے سب بچوں کو سعودی عرب لے گئے لیکن تین برس بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔فیشل کے نانانانی اپنی بیٹی کی شادی سے پہلے ہی دنیا سے جا چکے تھے ۔اس کے ساتھ ہی فیشل نے اپنی شناختی دستاویزات میں اپنا مذہب اور نام تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں ۔
اس معاملے میں یہ بات اہم ہے کہ 2014سے پہلے سے فیشل کو پاکستان برطانوی کرسچن ایسوسی ایشن کے چےئر مین ولسن چوہدری کی حمایت حاصل تھی ۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ولسن چوہدری نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ساتھ فیشل کا معاملہ اٹھایا تھا۔ولسن چوہدری وہی شخصیت ہے جس نے آسیہ کی رہائی کے لیے بھر پور مہم چلائی تھی اور اسے برطانیہ میں پناہ دینے کے حق میں بھی آوازاٹھاتا رہا۔
فیشل کو حکومت پاکستان نے اگر چہ سر کاری سطح پر یہودی تسلیم کر لیا ہے تا ہم اس کے بڑے بھائی اقبال خالد نے اپنی والدہ پر ”یہودی “ہونے کا لیبل لگنے کے خلاف احتجاج کیا۔
اقبال نے کئی اشاعتی اداروں کو خطوط لکھے۔حتیٰ کہ ٹائمز آف اسرائیل سے بھی رابطہ کیا۔اقبال کا کہنا تھا کہ اس کے والد اور والدہ میں سے کوئی بھی یہودی نہیں تھا۔اقبال اور اس کے دیگر بھائیوں نے حلف نامے بھی جمع کروائے جن میں کہا گیا تھا کہ ان کی والدہ چوہدری نسیم اختر کبھی یہودی نہیں رہی تھیں ،نہ ان کے آباواجداد یہودی تھے نہ ہی انہوں نے مذہب تبدیل کیا اور نہ ہی کبھی وہ یہودیت پر عمل پیرار ہیں ۔
ستمبر 2017میں وائے نیٹ نیوز کو دےئے گئے انٹر ویو میں فیشل نے تصدیق کی کہ اس کے ایک بھائی نے اس کے خلاف انٹر ویوز دےئے ہیں جبکہ دیگر بھائیوں نے بھی اس سے تعلقات تور لیے ہیں ۔فیشل نے کبھی اقبال کا بھائی ہونے سے انکار نہیں کیا ۔تاہم وہ اپنے اور اپنی والدہ کے یہودی ہونے کے دعوے پر قائم ہے ۔
ٹائمز آف اسرائیل کو انٹر ویو میں فیشل کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے اسے یہودی تسلیم کیے جانے سے پہلے اس نے جو مہم چلائی تھی وہ سوشل میڈیا پر کافی مشہور ہوئی تھی اور اس کے بھائی بھی اس بات سے آگاہ تھے ۔اس سارے معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ فیشل کے تمام بھائی اس بات کے دعویدار ہیں بلکہ حلفیہ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ یہودی نہیں بلکہ مسلمان تھیں ۔واضح رہے کہ یہودی مذہب نسلی ہے صرف اسے ہی یہودی تسلیم کیا جاتا ہے جو یہودی النسل ہو۔
یہودی مذہب میں نسل والدہ سے چلتی ہے ۔اگر فیشل والد کا یہودی ہونے کا دعویٰ کرتا تو یہودی اسے کبھی بھی لائق اعتنانہ سمجھتے اس نے چونکہ والدہ کے یہودی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے اسے اسرائیل میں پذیر ائی مل رہی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی اپنی جگہ تشنہ طلب ہے کہ جب فیشل کے چار بھائی حلفیہ کہتے ہیں کہ ہماری والدہ مسلمان تھیں ان حالات میں ہماری حکومت نے صرف ایک بیٹے کے دعوے کو سچ مانتے ہوئے اسے کیسے یہودی تسلیم کرلیا ہے ۔۔۔۔؟اس سے بہر حال یہ بات واضح ہورہی ہے کہ یہ بہت ہائی لیول کی گیم ہے اور یقینی بات کی مستقبل میں پاکستان پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔
اگر چہ مختلف اوقات میں ہماری حکومتوں کا رویہ اسرائیل کے حوالے سے خاصہ مشکوک رہا ہے تا ہم اس حوالے سے موجودہ حکومت بہت جلدی میں دکھائی دے رہی ہے ۔بہت سے ایسے آثار وشواہد نظر آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا کہ موجودہ حکومت اسرائیل کے حوالے سے کافی نرم گوشہ رکھتی ہے ۔معلوم یہ ہوتا کہ فیشل کا معاملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور اسے تسلیم کرنے کی کوشش نظر آرہی ہے ۔
اب اس سارے معاملے کا ایک اور پہلو سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان میں یہودی ووٹروں کی تعداد آٹھ سے نوسو کے درمیان تھی۔نشریاتی ادارے نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ جولائی 2018ء میں ہونے والے انتخابات کی ووٹرلسٹوں میں ایک بھی یہودی شامل نہ تھا ۔ادارے کے بقول پانچ برسوں میں سینکڑوں یہودی ووٹروں کا سرے سے غائب ہو جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے ۔
آخر یہودی ووٹر کہاں گئے؟ادارے نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بیشتر یہودی شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں جو یہاں موجود ہیں وہ ووٹر کے طور پر رجسٹر یشن کے ذریعے اپنی شناخت کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے اس لئے پاکستان میں انتہا پسندی غیر مسلم برادریوں میں عدم تحفظ کا شدید احساس پیدا کررہی ہے یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم بطور شہری اپنے رائے دہی کے بنیادی حق سے بھی دست بردار ہو رہے ہیں ۔
بعدازاں نشریاتی ادارے نے پاکستان کے ایک بزرگ (نامعلوم ) یہودی شہری کے ساتھ کی جانے والی گفتگو نشر کی جس میں بتایا گیا تھا”ایک وقت تھا جب قریب تیس سال پہلے تک پینتالیس کے لگ بھگ یہودی خاندان راولپنڈی ،اسلام آباد اور گجر خان میں رہائش پذیر تھے ۔میرے اپنے خاندان سمیت کئی یہودی گھرانے نقل مکانی کرکے یورپ ،امریکا یا جنوبی افریقہ میں آباد ہو چکے ہیں ۔ کم ازکم چھ یہودی خاندان کراچی منتقل ہوچکے ہیں۔ “بزرگ کے مطابق،”ایک ایسے معاشرے میں جو واضح طور پر مذہبی بھی ہو اور جہاں شدت پسند مسلم گروہ فرقہ واریت کو فروغ بھی دیتے ہوں ،وہاں مذہبی اقلیتوں کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق محفوظ اور کھلے عام زندگی گزارنا با لعموم مشکل ہو جاتا ہے ۔“
قارئین! کرام آپ نے دیکھا نشریاتی ادارے نے کس طرح پاکستان سے یہودیوں کے چلے جانے کے عمل کو نام نہاد انتہاپسندی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔یہ ہے اصل ایجنڈاجس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بد نام کرنا ہے ۔اس وقت فیشل کا معاملہ جس طریقے سے اٹھا یا جارہا ہے اس کا مقصد بھی پاکستان کے گرد گھیراتنگ کرنا اور مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرنا ہے ۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سکیورٹی اور قومی سلامتی کے ادارے گہرائی کے ساتھ معاملات کاجائزہ لیں اور ملک عزیز کو کسی بھی بحران کا شکار نہ ہونے دیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Pakistan mein yahoodiyat ? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 February 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.