تیل مصنوعات سے ریونیو پیدا کرنے کی کوشش

پوری دنیا میں تیل کاکاروبار نقد لین دین پر ہوتا ہے۔ حکومت نے سعودی عرب سے تیل کی ادھار پر سپلائی جاری رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن

بدھ 10 اکتوبر 2018

tail masnoaat se revenue paida karne ki koshish
شہزاد چغتائی
پوری دنیا میں تیل کاکاروبار نقد لین دین پر ہوتا ہے۔ حکومت نے سعودی عرب سے تیل کی ادھار پر سپلائی جاری رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھی۔سعودی حکومت قبل ازیں پاکستان کوایک سال تک مفت تیل بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے ادھارتیل حاصل کرنے کی کوشش ایسے وقت میں کی گئی ہے جب دنیامیں تیل کی قیمتیںآسمان سے باتیں کررہی ہیں،اور تیل کے نرخ 86 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرگئے ہیں،جو کہ 4 سال کی بلند ترین سطح پر ہیں۔

تیل کے نرخوں میں اضافہ کے بعد دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش بھی شروع ہوچکی ہے۔ روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے نئی قیمتوں کومسترد کردیا ہے اور کہا کہ خام تیل 65 ڈالر ہوتو ہماری معیشت کے لئے قابل برداشت ہو گا۔

(جاری ہے)


انہوں نے امریکہ پرالزام لگایا کہ وہ اضافے کا ذمہ دار ہے ہے۔ جس کے جواب میں امریکہ کے صدر ٹرمپ نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ قیمتیں زیادہ ہیں لیکن کہا ہے کہ نرخ اوپیک نے بڑھائے ہیں۔

ولادیمر پیوٹن نے کہا کہ امریکی پالیسیاں عالمی سیاست کا شاخسانہ ہے‘ جس کی قیمت عالمی معیشت اداکرے گی۔امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کی قیمت کئی ممالک ادا کررہے ہیں‘ جن میں چین‘ ایران اور ترکی بھی شامل ہے۔ ٹرمپ کے اقدامات کے باعث ترکی میں افراط زر 25 فیصد تک بڑھ گیا۔ چین اور ایران دباﺅ میں ہے‘ چین تو امریکہ کے ساتھ حساب کتاب برابر کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

امریکہ کے دباﺅ پرسعودی عرب اور روس نے تیل کی پیداوار بڑھانے پر اگرچہ آمادگی کا اظہارکیا تھا لیکن بحران اب بھی موجودہے، اورایران پرپابندیوں سے پیدا ہونی والی کمی کو پورا کرنامشکل ہوگیاہے۔جس کے ساتھ اندیشہ ہے کہ تیل 100 ڈالر فی بیرل ہوجائے گا۔

ایران پرپابندیوں نے نئی صورتحال پیداکردی ہے‘ جس پر بھارت بھی پریشان ہے۔ مختلف ملک ایران سے بارٹر پر تیل لیتے ہیں‘ جس کی امریکہ نے مخالفت کی ہے لیکن ان ملکوں نے بارٹر سسٹم ختم کرنے سے انکارکردیا۔

یکم اکتوبر کو پاکستان میں تیل کے نرخ نہیں بڑھائے گئے تھے لیکن اب پاکستان میں اضافہ ناگزیر ہوگیا۔ سی این جی اور پیٹرول کی قیمت برابر ہوگئی ہیں۔ اب پیٹرول مزید بڑھے گا‘ جس کے ساتھ مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل کے ریٹس نہ بڑھانے کی پاداش میں حکومت کو 17 ارب روپے ماہانہ خسارہ برداشت کرناپڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت سیلز ٹیکس میں کمی کرکے نقصان برداشت کررہی ہے۔

پیٹرول پر سیلز ٹیکس کم کرکے 17 روپے سے ساڑھے چارروپے کردیا گیا ہے جبکہ ڈیزل پر سیلز ٹیکس 31 روپے سے 17 روپے کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں حکومت کو سیلز ٹیکس میں 10 ارب ر وپے اور آئل ریفائنریوں کو 7 ارب ڈالر کم ریونیومل رہا ہے۔ سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو برقرار رکھنے سے حکومت کو سالانہ 204 ارب کا خسارہ ہوگا۔ حکومت کو مشورہ دیا گیا تھا کہ نرخ بڑھا دئیے جائیں۔

حکومت کو سیلز ٹیکس سے 46 فیصد وصولی ہوتی ہے‘ جس میں 60 فیصد آمدنی پیٹرولیم کمپنیوں سے ہوتی ہے۔ گزشتہ سال حکومت کو766 ارب کی وصولی ہوئی جبکہ اس دوران گیس کے نرخوں کا نوٹی فیکیشن جاری کردیا جس کے تحت 10 سے 143 تک ریٹ بڑھائے گئے ہیں۔ ملک میں گیس کے 93 لاکھ صارفین ہیں جبکہ آبادی 23کروڑ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کا بڑا طبقہ سوئی گیس استعمال نہیں کرتا۔

این ایل جی کے نرخ بھی6½ سے 9½ فیصدبڑھ گئے ہیں۔ این ایل جی، سوئی گیس اور اوگرا کی جانب سے نرخوں میں اضافہ کا اطلاق 27 ستمبر سے کرنے کے بعد نیا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے اجراءکے بعد سی این جی 18 سے 23 روپے فی کلو مہنگی ہو گئی ہے۔
موجودہ حکومت جب اقتدارمیں آئی تھی تو ڈالر 130 روپے سے اوپر چلاگیا تھا لیکن اگست میں ڈالر کے نرخوں کو کنٹرول کرلیا گیا اور ڈالر 122 روپے پر رک گیا۔

اب اسٹیٹ بنک پرروپے کی قدر سال میں پانچوں بار گھٹانے پر دباﺅ بڑھ گیا ہے۔ 9 ماہ میں روپے کی قدر20 فیصد کم ہوگئی‘ جس کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوگئے اور کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ بھی بڑھ گیا۔ ان حالات میں جب زرمبادلہ کے ذخائر 9ارب ڈالرکے رہ گئے ہیں۔ روپے کی قدر گھٹانا ناگزیر ہوگیا۔ اسٹیٹ بنک روپے کادفاع کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ شاید اس کے پاس مارکیٹ میں ڈالنے کے لئے ڈالر نہیں۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف نے بجلی کے ریٹ نہ بڑھانے پر سوالات اٹھادئیے ہیں ا ور بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی تجویز دیدی ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے نیپرا کا بھی دورہ کیا۔جس کے بعد بجلی کی چوری اور لائن لائسنسز اور نیپرا کے قوانین اور اصلاحات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

tail masnoaat se revenue paida karne ki koshish is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.