ضمنی انتخابات میں ”تبدیلی “کے اثرات

کیا تحریک انصاف گروپ بندی کا شکار ہو گئی؟ پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کے لئے دن رات محنت کرنے کی ضرورت ہے

پیر 29 اکتوبر 2018

zimni intikhabaat mein tabdili ke asraat
 رحمت خان وردگ
تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم میں 100 روز کا ایجنڈہ دیا تھا اور عوام کے ذہنوں میں یہ نقش کر دیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہیں 3 ماہ کے اندر ملک میں دودھ وشہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی اور بہت زیادہ توقعات پیدا کر کے عوام سے ووٹ لئے گئے اور عام آدمی
نے تحریک انصاف کومنتخب کرنے کے بعد تین ماہ میں ہی بہت بڑی تبدیلی کی آس لگالی لیکن معاشی صور تحال کے باعث نظام مملکت کو آئی ایم ایف کے نئے قرضے کے بغیر چالان ممکن نہ تھا اور اگر اس بات کا بروقت احساس کر کے نئی حکومت قائم ہوتے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کرلیا جاتا تو معیشت کی اس قدر بری حالت نہ ہوتی لیکن حکومت نے اس متعلق سوچنے میں ہی مہینے لگا دیئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی صورتحال خراب تر ہوتی چلی گئی اور جب حکومت نے آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت تک معاشی پہیہ مکمل طور پر جام ہو چکا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ‘ اسٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی کی صورتحال ہے، اس مشکل معاشی صورتحال کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ہے اور وزیراعظم
عمران خان قوم سے چھ ماہ کا وقت مانگ کر نمایاں بہتری کی امید دلا رہے ہیں لیکن میرے خیال میں موجودہ حکومت کوکم ازکم ایک سال ملنا چاہتے تا کہ وہ معیشت کی بہتری کے لئے سال بھر ایسے اقدامات کرے کہ ملک کو ممکن حد تک قرضوں کی ضرورت نہ رہے۔

(جاری ہے)

حکمراں جماعت کی لیڈرشپ کی جذباتی تقاریر اور سہانے خوابوں کی وجہ سے عام آدمی تو فوری تبدیلی کا طلبگار ہے اور وزیراعظم کے چھ ماہ کے انتظار پر
 اعتبارنہیں کررہا حالانکہ قوم کو ایک سال خاموشی سے نئی حکومت کو کام کرنے دینا چاہئے اور وزیراعظم کو بھی انتخابی مہم کے 100 دن کے پروگرام کے ان کی پارٹی ساکھ پرنفی اثرات دیکھتے ہوئے قوم سے چھ ماہ کا وقت نہیں مانگنا چاہئے بلکہ طویل مدتی اور حقائق پر مبنی وقت لیکر نتائج کا وعدہ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔

نئی حکومت نے مجبوری میں گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کیا
کی قیمتوں میرا لباس میں
کام کیا ہوا ہے اور اس
کیونکہ یہ معاشی معاملات چلانے کے لئے ضروری تھا اور حکومت نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اس فیصلے کے ضمنی انتخابات میں کیا منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اگر حکومت گیس کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ ضمنی انتخابات کے انعقاد تک موخر کرتی تو اس کے ضمنی انتخابات میں نتائج پریقینی طور پر اثرات ہوتے کیونکہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی کے روز مرہ اخراجات میں اضافے سے عوام کی توقعات پر زد پڑی ہے اور وہ نئی حکومت اور حکومتی جماعت سے متنفر ہورہی ہے اور مشکل معاشی فیصلوں اور کچھ معاشی معاملات میں غیرضروری تاخیر اور انتخابی مہم و اس سے قبل بلا وجہ کے بلند و بانگ دعوؤں کی عدم تکمیل کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت حکومت میں آتے ہیں کم ہوئی ہے۔

تحریک انصاف ایک اور لاہور کی جیتی ہوئی نشستیں ہارگئی۔اٹک میں میجر طاہر صادق کو عام انتخابات میں ٹکٹ دیئے گئے اور انہوں نے بہترین انتخابی نتائج دیکراٹک میں پارٹی کو مقبول ترین جماعت ثابت
کیا لیکن مبینہ طور پر ضمنی انتخاب میں ٹکٹ جاری کرتے ہوئے میجر طاہر صادق کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور پارٹی نے براہ راست اپنی مرضی سے
ٹکٹ جاری کیا جس وجہ سے میجر طاہر صادق کی مکمل حمایت شایدتحر یک انصاف کے امیدوار کو حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو اٹک کی قومی اسمبلی کی نشست پر شکست کا سامنا
 کرنا پڑا۔

لاہور میں ن لیگ نے اپنے ادوار میں سب سے زیادہ تر قیاتی
کام کئے اور میگاپروجیکٹس لگائے اسی لئے عام انتخابات میں بھی لاہور میں ن لیگ نے تحریک انصاف کوٹف ٹائم دیا۔ سعد رفیق نے اپنے
حلقے میں کام کرائے تھے اسی لئے ان کی اپنے حلقے میں بہت مقبولیت بھی ہے اور دوسری طرف نئی حکومت کے مشکل معاشی فیصلے بھی عوام کا رجحان تبدیل کرنے کا سبب بنے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم یا کابینہ کے کسی فرد نے انتخابات کے دوران نہ تو کسی حلقے میں جا کر جلسے کئے اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی انتخابی عمل میں کسی قسم کی سرکاری مداخلت سامنے آئی۔

صرف آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا فیصلہ ایسا اقدام تھا جسے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا گیا اور الیکشن کمیشن نے آئی جی کی تبدیلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ ہمایوں اختر ابھی تحریک انصاف میں شامل ہوئے اورا نہیں ٹکٹ دے دیا گیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں اور رہنماؤں کی حوصلہ شکنی ہوئی اور اس وجہ سے بھی تحریک انصاف کو بہت کم ووٹ ملے۔

میں پہلے بھی کئی بار تحریر کر چکا ہوں کہ ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی تو ملک کی دوسری بڑی جماعت تحریک استقلال تھی مگر ہماری قیادت سے بھی اسی طرح کے فیصلے ہوئے کہ نئے آنے والے لوگوں کو الیکٹیبلز“ قرار دیکر دیر ینہ کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا اور پھر تاریخ شاہد ہے کہ تحریک استقلال گزرتے وقت کے ساتھ اپنی مقبولیت کھوتی چلی گئی کیونکہ دیر ینہ اور قربانیاں دینے والے کارکن اور رہنما سمجھ گئے کہ یہاں پارٹی عہدوں اور ٹکٹوں پر صرف دولت مند چند خاندانوں کا قبضہ ہو چکا ہے، اب یہی صورتحال تحر یک انصاف کو بھی درپیش ہے کہ نئے آنیوالوں کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں جبکہ قا بل نو جوانوں اور قربانیاں دینے والے کارکنوں
کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

تحریک انصاف میں ویسے بھی گروپ بندی واضح ہے اور وزیراعظم عمران
 خان خود اقتدار میں آ کر ملکی
معاملات کی بہتری کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور اس دوران انہوں نے پارٹی پر توجہ کم کر دی ہے جس کی وجہ سے پارٹی منتشر ہوتی چلی جارہی ہے۔ پنجاب میں ویسے بھی ن لیگ کی مقبولیت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد عوامی ہمدردی‘ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی سے کارکنوں میں ولولہ پیدا ہوا ہے تو دوسری طرف نیب کی جانب سے شہباز شریف کی گرفتاری پر بھی عوام میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

ضمنی انتخابات
کے نتائج پر تحریک انصاف کو غور کر کے خامیوں کو دور کرنا ہو گا خصوصاً دیر ینہ کارکنوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ تو ہر صورت بند ہونا چاہئے تبھی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ممکن ہے۔ کراچی کی نشست پر ایک بار پھر تحریک انصاف کی کامیابی ایم کیوایم کی قیادت کے لئے لمحہ فکر یہ ہونا چاہئے کیونکہ ضمنی انتخابات پر کسی پہلو سے دھاندلی کا الزام سامنے نہیں آیا اورمکمل شفاف انتخاب میں کراچی سے تحریک انصاف نشست جیتی
ہے۔

ایم کیوایم کراچی کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت رہی ہے لیکن اندرونی اختلافات اور بعض غیر سیاسی سرگرمیوں کے الزامات کی وجہ سے عوام نے انہیں مسترد کیا ہے۔ کراچی میں ویسے بھی ٹرن آؤٹ بہت کم ہو گیا ہے اور عوام کو باہر لانے کی صلاحیت ایم کیوایم کے پاس رہی ہے۔ موجودہ صورتحال پر انہیں غور کر کے پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کے لئے دن رات محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

zimni intikhabaat mein tabdili ke asraat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.