ذوالفقار علی بھٹو کا’’ عروج و زوال‘‘

50سال قبل کی بات ہے میری فلیش مین ہوٹل راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی میں گورنمنٹ ڈگری کالج اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری تھا میری ملاقات امان اللہ نے کرائی تھی ۔

اتوار 7 اپریل 2019

Zulfiqar Ali bhutto ka' ' urooj o zawaal' '
نواز رضا
50سال قبل کی بات ہے میری فلیش مین ہوٹل راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی میں گورنمنٹ ڈگری کالج اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری تھا میری ملاقات امان اللہ نے کرائی تھی ۔ اس وقت پورا ملک ایوب خان کی آمریت کے خاتمے کے لئے سڑکوں پر نکلا ہوا تھا ۔ گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج پشاور روڈ کے طابعلم عبدالحمید جس کا تعلق پنڈی گھیب سے تھا کے خون سے ایوب خان کے خلاف تحریک کو مہمیز ملی میں بھی ان نوجوانوں میں شامل تھا جو ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی تھے ان کی پر اثر تقاریر کا طلسم ہی تھا کہ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے لگاتے تھے۔ آمریت کا خوف ختم کرنے کے لئے گورنمنٹ ڈگری کالج اصغر مال کی سٹوڈنٹس یونین کا حلف لینے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کو مدعو کیا ۔

(جاری ہے)

میری سٹوڈنٹس یونین کے صدر عبدالرشید شیخ ، سابق وائس چانسلر ڈاکٹر کنیز یوسف کا خط لے کر پشاور گئے اور حلف برداری کے لئے7نومبر1968ء کی تاریخ طے کر لی ذوالفقار علی بھٹو نے خفیہ طور پر گورنمنٹ ڈگری کالج اصغر مال آنا تھا اور اچانک گھنٹی بجا کر طلبہ کو ہال میں اکٹھاکرکے تقریب حلف برداری منعقد کی جانی تھی لیکن 6 نومبر1968ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے پشاور سے آنے والے جلوس کے استقبال کے لئے گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج پشاور روڈ کے سامنے کھڑے طلبہ پر پولیس نے گولی چلا دی جس سے عبدالحمید شہید ہو گیا۔ اس نوجوان کی شہادت نے ایوب خان کے خلاف تحریک میں جان پیدا کر دی۔ ہماری تقریب حلف برداری بھی ایوب خان کے خلاف تحریک کی نذر ہوگئی ۔ جب ذالفقار علی بھٹو ایوب خان کی قید سے رہا ہو کر آئے تو مجھے اس ٹرک پر چڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا جو ذولفقار علی بھٹو کو لے کر لیاقت باغ پہنچا ۔ اس ٹرک پر اس وقت کی پیپلز پارٹی راولپنڈی کے جنرل سیکریٹری سید ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ بھی سوار تھے جو اپنے باغیانہ مزاج کی وجہ زیادہ دیر تک پیپلز پارٹی میں نہیں رہے۔ وہ تحریک استقلال سے پاکستان مسلم لیگ (ن) پہنچے اور اب پاکستان تحریک انصاف میں ہیں۔ اسی طرح اس تحریک میں عبد الرشید شیخ نے نام پیدا کیا لیکن سیاسی بصیرت سے عاری ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں کوئی مقام پیدا نہ کر سکے البتہ ان کے ہم نام شیخ رشید احمد نے سیاست میں نام پیدا کر لیا ۔

ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقاتیں تو ہوتی رہیں لیکن میں اپنے نظریات کی وجہ سے ان کی جماعت کا ہمنوا نہ بن سکا ۔ میں نظریہ پاکستان پر پختہ یقین رکھنے والا شخص ہوں لہٰذا شروع میں ہی میرے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے راستے جدا ہو گئے لیکن میں ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا معترف ہوں ۔اس کرشماتی شخصیت کا سحر ہی تھا کہ پاکستان کے نچلے درجے کے لوگوں نے اسے ’’دیوتا‘‘ کا مقام دے دیاپسے ہوئے لوگوں کی آواز بن گیا غریب اور پسماندہ افراد جنہیں گائوں کے جاگیر دار اپنے پائوں میں بٹھاتے تھے کو زبان دی بالآخر ان کو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ’’ بغاوت‘‘ پر اکسایا ۔ آج پاکستانی معاشرہ میں لوگوں میں ظلم و ستم کے خلاف جو آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو نے لوگوں کی دی ۔ جب 4اپریل2019ء کو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو میں سینئر صحافی ضمیر نفیس کے ہمراہ جیل کے گرد چکر لگا کر ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں خبر کی تلاش میں سرگرداں رہتے ۔ جیل میں عملہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے ’’شب و روز ‘‘ کے بارے ’’جھوٹی سچی ‘‘خبریں ملتی رہتی تھیں ۔ میں نے ضمیر نفیس کے ہمراہ بھوسہ منڈی راولپنڈی کی مسجد(مولانا غلام غوث ہزاروی اس مسجد میں خطیب کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں)کے موذن کا بھی انٹرویو بھی لیا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی میت کو غسل دیا۔ اس انٹرویو کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کی روئیداد معلوم کرنا تھا ۔جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی دی گئی تو اس وقت خوف وہراس کے ماحول میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ’’ ماتم ‘‘ بھی نہیں کرنے دیا40سال قبل ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر اس لئے لٹکا دیا گیا کہ اس کی جان لینے کے بعد پیپلز پارٹی خوبخود مر جائے گی لیکن پاکستان کا کوئی آمر پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کر سکا لیکن پیپلز پارٹی خود اپنی قیادت کے ہاتھوں مری جارہی ہے ’’کرپشن‘‘ کے ناسور نے جہاں پیپلز پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا۔ وہاں اس نے عمران خان کی سیاست کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں ’’جیالوں‘‘ کی دولت سے مالا مال تھی لیکن پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں وہ اس دولت سے بھی محروم ہو گئی کچھ’’ جیالوں ‘‘ نے عمران خان کو اپنا لیڈر بنا لیا کچھ کارکن گھروں جا بیٹھے لیکن اب بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں پیپلز پارٹی انگڑائی لے رہی ہے۔ ’’ناراض‘‘ کارکن بلاول بھٹو زرداری کی آواز میں آج ایک بار پھر گم گشتہ پیپلز پارٹی کو تلاش کر رہے ہیں ہر سال پیپلز پارٹی 4اپریل کوپیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کو ’’سیاسی‘‘ عرس کے طور مناتی ہے پیپلز پارٹی کے کارکن ’’زندہ ہے۔ بھٹوزندہ ہے ‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے گڑھی خدابخش جہاں چار بھٹو دفن ہیں اکٹھے ہوتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر کے اپنے مخالفین کو یہ باور کراتی رہتی ہے کہ پیپلز پارٹی زندہ ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری جو ان دنوں’’ گرم پانیوں‘‘ میں ہیں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 40ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک بڑا جلسہ کرکے اپنی ’’سیاسی قوت ‘‘ کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ان کا لب لہجہ خاصا درشت تھا۔ انہوں نے گڑھی خدابخش کے ’’سیاسی ‘‘ عرس سے ’’کپتان‘‘ کو حکومت گرانے کا پیغام دیا ہے قبل ازیں بلاول بھٹو زرداری ’کاروان بھٹو‘‘کے نام ٹرین مارچ کر کے حکومت کو اپنے سیاسی وجود کا احساس دلا چکے ہیں یہی وجہ ہے اس وقت آصف علی زرداری اور بلال بھٹو زرداری وزیر اعظم عمران خان کے ’’اعصاب ‘‘ پر سوار ہیں۔ وزیر اعظم اپنے ہر جلسہ میں جہاں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہاں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر بھی برستے رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ ’’ وفاقی حکومت 18ویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہے، اگر اس کی کوشش کی گئی تو لات مار کر حکومت گرادوں گا۔ اگر 18ویں آئینی ترمیم سے ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ کی گئی تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آصف علی زرداری نے بھی وزیراعظم عمران خان پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ’’ اگر موجودہ وزیر اعظم کو رہنے دیا گیا تو یہ ملک کو 100 سال پیچھے لے جائے گا۔ اب ہم اسے مزید وقت نہیں دے سکتے،گڑھی خدا بخش میں جہاں پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے وہاں پاکستان پیپلزپارٹی شہیدبھٹو گروپ نے بھی الگ جلسہ منعقد کر کے اپنے وجود کا احساس دلایا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے غنویٰ بھٹو بھی خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئی ہیں 2019ء میں غنویٰ بھٹو سمجھتی ہیں آصف علی زرداری کمزور ہو گئے ہیں لہٰذا انہوں نے ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت کا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس جلسہ کی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو نے پہلی بار کھل کر کہا ہے کہ ’’ وہ جلد فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر‘‘ کو سیاست کے میدان میں اتاریں گی۔ انہوں نے کہاہے کہ ’’ 40سالوں کے دوران چار بھٹوز کو قتل کیا گیا ، بھٹو ایک دلیر اور ذہین لیڈرتھے، ہم بھٹو کے اصل وارث ہیں۔‘‘ انہوں نے دلچسپ پیرائے میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر تنقید کی، اور کہا کہ آصف علی زرداری سودے باز ہیں۔ بلاول تم 30 برس کے ہوگئے ہو لیکن آج بھی تم آزاد نہیں، ابھی تک باپ سے جیب خرچ لیتے ہو‘‘ جلسہ میں زرداری دور کے خاتمہ اور فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر کے نعرے لگا ئے گے۔ غنویٰ بھٹو کا دوبارہ میدان سیاست میں آنے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کی تقسیم کا باعث بنے گا ۔ وزیراعظم عمران خان نے گھوٹکی اور جمرود کے جلسوں میں اپوزیشن بالخصوص آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو خوب لتاڑا ہے۔ انہوں نے 4 اپریل 2019 کو گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی 40 ویں برسی کے موقع پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں ڈی چوک میں دھرنے کے لئے کنٹینر اور کھانا فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کنٹینر میں گذار کر دکھائیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ این آراو دوں گا نہ بلیک میل ہوں گا ‘ چوروں اور لٹیروں کا احتساب کرنے آیا ہوں اور احتساب کرکے رہوں گا، آصف زرداری اور بلا ول اسلام آباد دھرنے کا شوق پورا کرلیں ‘ ان کیلئے کنٹینرصاف کرنے کی ہدایت کردی ہے ‘ حکومت کہیں نہیں جانے والی‘ آصف علی زرداری جیل جانے والے ہیں ’’کپتان ‘‘ نے کہا ہے کہ مولانافضل الرحمن ملین مارچ کی بات کررہے ہیں، ان کی وکٹ الیکشن میں اڑگئی اور وہ کلین بولڈ ہوگئے‘ اب ان کی مثال ایسی ہے جیسے سارا دن فیلڈنگ کرنے والا کھلاڑی بیٹنگ کی باری آنے پر پہلی ہی بال پر آئوٹ ہوجائے اور پھر وکٹیں لے کر بھاگ کھڑا ہو کہ خود کھیلوںگا اور نہ ہی دوسروں کو کھیلنے دوں گا۔ مولانا فضل الرحمنٰ باری کی چکر میں ہیں جو انہیں نہیں ملنے والی ۔ ’’کپتان ‘‘ اس بات کو بھول گئے ہیں آ صف علی زرداری کی مولانا فضل الرحمن سے تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنا کے پروگرام کے خدو خال پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے مولانا فضل الرحمن تو ڈی چوک میں دھرنا دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت ’’گومگو‘‘ کی کیفیت کا شکار ہے اگر عمران خان اپوزیشن کو دھرنے کے لئے ’’مشتعل‘‘ کرتے رہے تو ایک دن ایسا بھی آجائے گا کہ مولانا فضل الرحمنٰ دھرنا دینے کی کال دے دیں گے ۔ جمعیت علما ء اسلام (ف) سے وابستہ دینی مدارس میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ زیر تعلیم ہیں مولانا فضل الرحمنٰ کو اسلام آباد میں لاکھوں افراد اکھٹے کرنا مشکل نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Zulfiqar Ali bhutto ka' ' urooj o zawaal' ' is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 April 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.