’’ تبدیلی اور حقائق ‘‘‎

پیر 3 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

تبدیلی دیکھنے کے بخار میں شدید طور پر مبتلا نفسیاتی مریض جو کل تک یہ راگ الاپتے تھے کہ’’ ایک موقع عمران خان کو بھی دینا چاہیئے‘‘ اب اگر ان کا احوال پوچھا جائے تو معلوم پڑے گا کہ ان کے بخار کی شدد میں کمی تو ضرور واقع ہوئی ہے مگر مرض یعنی تبدیلی کا کیڑا ابھی بھی باقی ہے ۔ اس کی وجہ تبدیلی سرکار کے ساڑھے تین سال بقیہ عرصہ ہے ۔

گویا ابھی بھی یہ امید باندھے بیٹھے ہیں کہ آنے والے ساڑھے تین سالوں میں کپتان انہیں نوکریاں ،گھر اورنہ جانے کیا کیا دے گا ۔
 پہلے ان نفسیاتی مریضوں اور خوابوں میں تبدیلی دیکھنے والوں کو یہ یاد کروانا ہے کہ پچھلے دورِ حکومت میں نواز شریف نے اپنے ساتھیوں کی تمامتر خواہشوں کے باوجود عمران خان کو خیبر پختون خواہ میں حکومت بنانے کی سہولت مہیا کی تھی اور اس ضمن میں کسی قسم کے روڑے نہیں اٹکائے گئے تھے ۔

(جاری ہے)

یہ بھی سب جانتے ہیں کہ نواز شریف نے ہی مولانا فضل الرحمان کو کے پی میں حکومت بنانے اور بعد میں پرویز خٹک کی صوبائی حکومت کو گرانے کے سلسلے میں روکے رکھا جس باعث بطورِ اتحادی اور ذاتی حیثیت میں بھی ان کے آپس کے تعلقات بھی وقتی طور پر متاثر ہوئے تھے ۔
 پرویز خٹک اپنے پورے پانچ سالہ دورِ وزراتِ اعلی میں ایک مرتبہ بھی نواز شریف حکومت سے اس بات کا گلہ یا شکوہ نہیں کر سکے کہ انہیں یا ان کی حکومت کو چلنے میں کسی قسم کے مسائل یا رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں ۔

بلکہ پرویز خٹک حکومت کو ان کے مطالبے پر اضافی فنڈز بھی دیئے گئے جس کا انہوں نے خود بھی برملا اعتراف کیا تھا ۔ اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف جنہیں ان دنوں عمران خان کے کنٹینر سے خود خٹک صاحب بھی، کبھی ڈرامہ باز کبھی ڈینگی برادران، شو باز شریف اور نہ جانے کس کس نام سے پکارتے رہے ، لیکن اسی شہباز شریف نے ہر آڑے اور مشکل وقت میں خواہ وہ ڈینگی کی وبا ہو یا سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں ، ہمیشہ آگے بڑھ کر صوبہ خیبر کے لیئے عملی طور پر اپنے صوبے کی جانب سے خدمات پیش کیں لیکن اس ساری زاتی اور سیاسی مخالفت کے باوجود عمران خان کی صوبائی حکومت سے تعاون اور مدد کا سلسلہ جاری رہا جبکہ دوسری جانب پرویز خٹک حکومت ماسوائے فارن فنڈڈ این جی اوز کی امداد سے چند بس اسٹاپوں پر لیٹرینیں بنانے کے علاوہ پورے صوبے میں کوئی ایک بھی اسکول، ہسپتال، یونیورسٹی،پل یا سڑک تعمیر نہیں کر سکی البتہ اسپانسرڈ کنٹینر پر ڈانس ضرور کرتے رہے ۔


پورے صوبے خیبر پختون خواہ کا ایک، اکلوتا اور واحد منصوبہ بی آر ٹی جو سوا سو ارب روپے خرچ کرنے کے بعد سات سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ۔ بالفاظِ دیگر عمران خان کی صوبائی حکومت اپنے پانچ سالوں میں کارکردگی کے لحاظ سے صفر رہی ۔
یہ ساری تمحید باندھنے کا مقصد صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ تبدیلی کے گڑھ خیبر پختون خواہ میں مذکورہ افسوسناک صورتِ حال دیکھنے بوجھنے کے بعد اصولی طور پر کسی بھی طور یہ بات کہنے کا کوئی حق باقی نہیں رہتا تھا کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو اس بنیاد پر ووٹ دیا جاتا کہ ’’ایک موقع خان کو بھی دینا چاہیئے‘‘ اور خاص طور پر اس وقت جب اسپانسرڈ کنٹینر سے ملک کو بار بار لاک ڈاون کیا گیا،عوام کو سول نافرمانی کرنے پر اکسایا گیا،سرکاری املاک پر حملے کیئے گئے اور ہمسایہ ملک چین کے سربراہ کو ملک آنے سے روکا گیا تا کہ پاکستان کا گیم چینجر سی پیک منصوبہ متاثر ہو سکے جو  ایک الگ داستان اور قومی المیہ ہے ۔


 یہ ساری مذکورہ انتہائی غیر سنجیدگی اور ہوسِ اقتدار کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس بات کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا تھا کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر حکومت بنانے کا موقع دیا جاتا جبکہ پی ٹی آئی کو ووٹ کہاں سے اور کیسے پڑے؟ وہ علیحدہ موضوع ہے جس پر ان گنت مرتبہ قومی میڈیا پر کھلے لفظوں میں بات ہو چکی ہے کہ پری پول رگنگ کیسے کی گئی ،بکسے،بیلٹ باکس کیسے بھرے گئے؟ اور شام چھہ بجے کے بعد آر ٹی ایس سسٹم اچانک کیسے بٹھایا گیا؟ ۔

یہاں صرف وہ پی ٹی آئی کے انقلابی اور نفسیاتی مریض مخاطب ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے کسی تبدیلی کے لیئے عمران خان کو ملک کا وزیرِا عظم بنانے کی نیت اور ادارے سے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیئے تھے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ فری ہینڈ ملنے کے باوجود ان سے ایک صوبہ بھی نہیں چلایا جا سکا ۔
اب اگر ان نفسیاتی مریضوں سے پوچھا جائے کہ پانچ اشاریہ تین جی ڈی پی صرف اٹھارہ ماہ میں دو اشاریہ دو پر لانے میں کس کا "کمال" ہے؟ تو فوری جواب ہو گا کہ خزانہ خالی ملا تھا کیا کرتے؟ حکومتی خرچے تو برابر تھے لیکن جب یہ بتایا جائے کہ عمران خان کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیئے جب نواز شریف کو ’’نا اہل‘‘ کیا گیا تھا تو اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے زخائر چوبیس ارب ڈالرز موجود تھے، جبکہ بیرونی نقد امداد اور تاریخی قرضے لینے کے باوجود اسٹیٹ بینک رواں مالی سالی میں تاریخ میں پہلے مرتبہ خسارے میں گیا ہے اور یہ  بھی پوچھا جائے کہ نواز شریف دور کے چوبیس ارب ڈالرز، ان اٹھارہ ماہ میں ملنے والا تاریخی قرضہ اور غیر ملکی نقد امداد کدھر کدھر گئی؟ تو پی ٹی آئی کے نفسیاتی مریضوں کی جانب سے جواب میں گالیاں سننے کو ملیں گی یا پھر نواز شریف اور شہباز شریف کو خواہ مخواہ میں کوسا جائے گا ۔


دوسری جانب عمران خان کو اس قوم پر مسلط کرنے والے، بغضِ نواز میں مبتلا اور اس کی سیاسی مقبولیت سے خاءف صاحبان، ستّر سالوں بعد اب اگر اس بین القوامی حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مضوط دفاعی نظام، مضبوط معیشت ہی کے باعث ممکن یا مرہونِ منت ہے تو انہیں آج نہیں تو کل اس بات کا ضرور جواب پڑے گا کہ معیشت کو کمزور تر کرنے کی ذمۃ دار موجودہ حکومت جسے وہ خود لائے اور پھر ساری معاشی تباہی دیکھنے کے باوجود اس کی برابر سرپرستی کیوں کرتے رہے؟ با الفاظ دیگر ملک کے دفاع کو کمزور کرنے کی ذمۃ دار حکومت کا دفاع کیوں اور کس عالمی طاقت خواہش پر کیا جاتا رہا ؟۔


ماضی میں دفاعی بجٹ پر بحث کرنے کے مطالبے کو قومی سلامتی کے خلاف سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب اگر ملکی معیشت کو کمزور کرکے جس سے دفاعی بجٹ براہِ راست متاثر ہو رہا ہے تو پھر محبِ وطن حلقوں میں خاموشی کیوں طاری ہے؟ ۔ جبکہ ملک کے معاشی حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیئے قیمتی اور منافع بخش قومی ادارے نیلامی کے لیئے پیش کیئے جا رہے ہیں اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیئے مذید مہنگائی کر کے جی ایس ٹی کی مد میں پیسہ اکھٹا کرنے کے عرض سے ایک اور منی بجٹ بھی متوع ہے ۔


 ادارہ شماریات پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ملک میں اس سال جنوری میں مہنگائی کی شرح چودہ اشاریہ دو فیصد رہی ۔ یاد رہے جنوری پچھلے سال یہ شرح پانچ اشاریہ چھہ فیصد تھی ۔ اس ابتر اور بدترین معاشی صورتِ حال میں اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ تو ممکن نہیں البتہ کٹوتی کے امکانات زیادہ ہیں ۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر آذاد کشمیر کے وزیرِا عظم راجہ فاروق حیدر نے بھی دو دن قبل پاکستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ کا مطالبہ کیا ہے ۔

یہاں یہ عرض کرنا بھی اشد ضرورری ہو گا کہ اگر تو بین القوامی طاقتوں کی جانب سے پاکستانی معیشت کو کمزور کرنے کا ایک مقصد دفاعی بجٹ کو کم کرنا بھی مقصود ہے تو یہ امر محبِ وطن حلقوں کے لیئے اور بھی زیادہ توجہ طلب اور تشویشناک ہونا چاہیئے ۔ لیکن ملک کو درپیش موجودہ بدترین معاشی صورتِ حال کے مطابق اب اگر آئندہ مالی سال میں دفاعی بجٹ میں کٹوتی یا کمی واقع ہوتی ہے تو عمران خان کو’’ ایک موقع‘‘ دلوانے والے، انہیں اور ان کی حکومت کو مودی کا یار یا بھارت نواز ی کے طعنہ دینے پر کیسے تیار ہوں گے؟ ۔ یہ منظر دیکھنا ابھی باقی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :